شریر بیوی صفحہ 91

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200091.gif
 

شمشاد

لائبریرین
ٖصفحہ 178

دیوار سے لگ کر گرتی ہوئی مٹی اور اینٹوں کو دیکھنے لگی۔ اینٹیں گرنا بند ہو گئیں اور تھوڑی دیر بعد دھماکے کی آواز کم ہو کر بند ہو گئی اور بدستور سناٹا ہو گیا۔ جب بڑی دیر گزر گئی تو وہ اٹھی۔ اس کو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں وہ ظالم پھر نہ آ پہنچے۔ اس نے غور سے دیوار کو اٹھ کر دیکھا۔ جہاں سے اینٹیں اور مٹی گری تھی۔ "کیا عجب کہ میں اسی طرف سے نکل سکوں۔" یہ خیال اس کے دل میں آیا۔ اس نے پلنگ کو گھسیٹ کر دیوار کے پاس رکھا۔ مگر وہ مقام اونچا تھا۔ جہاں سے اینٹ گری تھی۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا اور پلنگ کو ہٹا کر اس کی جگہ تخت کو بڑی مشکل سے کھینچ کر لائی۔ تخت کے اوپر اس نے چارپائی کے دو پائے رکھے اور اس پر کھڑی ہو کر اس نے جہاں سے اینٹیں گری تھیں، اس مقام کا معائنہ کیا۔ ہاتھ سے اس نے مٹی اور اینٹیں ہٹانا شروع کیں۔ اور اس کام میں اس کو کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ کیونکہ وہ جگہ ابھی تازہ کُھدی ہوئی تھی۔

تھوڑی ہی دیر میں اس نے ایک بڑا سوراخ کر لیا۔ اب نری مٹی ہی مٹی تھی جو اس نے ہاتھ سے ہٹا ہٹا کر گرانا شروع کی۔ لیکن جوں جوں وہ مٹی ہٹاتی جاتی تھی۔ اوپر سے مٹی اور کھسکتی آتی تھی۔ مٹی ہٹانے میں اس کا ہاتھ کسی ٹین کی صندوقچی سے لگا۔ جس کو اس نے پکڑ کر گھسیٹا۔ ساتھ ہی اس کے بہت سی مٹی کھسک آئی۔

صندوقچی چھوٹی سی تھی۔ مگر بہت وزنی تھی اس نے اس کو ہلا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ شاید اس میں روپیہ پیسہ ہے۔ اس میں تالا لگا ہوا تھا۔ ان نے تیزی سے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 179

مٹی گرانا شروع کی اور تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھوں میں دن کی چمک معلوم ہوئی۔ اس نے اور مٹی ہٹائی اور جھانک کر دیکھا تو اس کو آسمان کی بجائے شکستہ دیوار سی نظر آئی۔ اور سامنے کچھ اینٹیں اور کوڑا پڑا تھا۔ اس نے جلدی سے سوراخ کو بڑا کیا ۔ اور جب کافی بڑا ہو گیا تو وہ اس میں لیٹ کر اوپر نکل آئی۔ اس نے دیکھا کہ میں ایک چھوٹے سے شکستہ مگر اینٹ اور چونے کے غار میں ہوں۔ یہ ایک تنگ جگہ تھی۔ اب وہ سوچ رہی تھی کہ اس صندوقچی کا کیا کروں۔ اگر اسی جگہ چھوڑتی تھی تو اس کو قطعی یقین تھا کہ وہ ظالم آ کر اس کو لےلے گا اور اگر ساتھ لئے جاتی تو اس کا دل گوارا نہ کرتا۔ کیونکہ اس کو پورا یقین تھا کہ ہو نہ ہو اس میں روپیہ ہے۔ جس کو کوئی کنجوس اس جگہ دفن کر کے اس کی رہائی کا باعث ہوا۔ اس نے کچھ سوچا اور آخر کار چور اور گنہگار بننا منظور کیا۔ مگر یہ نہ منظور کیا کہ اگر اس میں کچھ مال و زر ہو تو وہ اس ظالم کے ہاتھ لگے۔ جس نے اس کو زندگی سے بیزار کر دیا تھا۔ جب اس نے یہ طے کر لیا تو ڈرتے ڈرتے کہ کوئی دیکھ نہ لے اس تنگ غار کے باہر جھانک کر دیا۔ اس نے دیکھا کہ میں ایک پرانے زمانہ کے قبرستان میں ہوں۔ جہاں دور تک شکستہ قبروں کا سلسلہ چلا گیا ہے۔ سورج چھپ چکا تھا اور شام ہو گئی تھی۔

(3)

جب دھندلکا سا ہو گیا اور اس جگہ اس کو خوف معلوم ہونے لگا تو وہ اس غار سے نکلی۔ وہ کچھ ڈر سی گئی کیونکہ وہ بڑی سی شکستہ قبر مین سے نکلی تھی جو اوپر سے ثابت تھی۔ چاروں طرف شکستہ اور پرانی قبریں نظر آ رہی تھیں اور عجیب خوفناک منظر تھا مگر یہ سب اس مقام سے زیادہ خوفناک نہ تھا۔ جہاں اس کو اس ظالم سے دوبارہ
 
Top