شریر بیوی صفحہ 88

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200088.gif
 

ذیشان حیدر

محفلین
’’ آپ جا کر بس پوچھ آئیے۔ معصومہ نے کہا ۔ ’’ میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتی‘‘۔
گواصل واقعہ ہمیں بعد معلوم ہوا مگر اس موقعہ پر ہم معصومہ کی سرگذشت سنا کر ناظرین سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ان واقعات کو ذرا غور سے پڑھیں اور درس عبرت لیں ۔ ہم اس کو بطورقصہ وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے وہ گم ہو گئی تھی ۔ سلسلہ کیلئے ناظرین گذشتہ باب کو دیکھ لیںَ
(4)
ہم کہہ چکے ہیں کہ آگرہ سٹی اسٹیشن پرجب ہم اترے تو چلتے وقت اصغر سے رخصت ہوئے تھے۔
مگران کی بیوی کو دیکھنے چاندنی نہ گئیں۔ کیونکہ سفر کے دوران میں ایک مرتبہ مزاج پرسی کی نیت سے جب چاندنی نے جانے کا ادارہ کیا تو اصغر صاحب نے کہہ دیا تھا کہ آ پ تکلیف نہ کریں میں خود آپ کی طرف سے مزاج پرسی کر دوں گا۔
معصومہ غریب پہلے شوکر کا انتظار کر رہی تھی۔ برقعہ میں سے بھیڑ بھاڑ میں اس نے یہ بھی دیکھا کہ اصغر آئے اور ڈولی منگوا کر ملازم کو ہدایت بھی کر گئے کہ اتروا لو میں اسباب دیکھتا ہوں ۔ ڈولی آکر لگی اور چادریں تانی گئیں تو وہ آگے بڑھی کہ ایک بڑی بی نے کہ ایہ تو میری ہے میرا لڑکا لایا ہے کیونکہ معصومہ نے برقعہ میں سے رات کے وقت نہ تواصغر کو دیکھا تھا اور نہ اس مجمع میں ملازم کو پہچان سکتی تھی ۔ وہ یہی سمجھی کہ بڑی سچ کہتی ہیں۔ لہذا وہ بیٹھ کر چلی گئیں اصغر نے جو ملازم کو ڈولی لے جاتے دیکھا تو انہوں نے بھی زنانہ درجے کی طرف پھر رخ کرنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی ۔ کیونکہ اسباب سب مردانہ درجہ کا تھا ۔
خدا بے بس عورتوں کو بد معاشوں کے پنجہ سے بجائے۔ اور خاص طور پر ایسی معصوموں کو جیسی معصومہ تھی ایک ناہنجار نہ معلوم کہاں سے آرہا تھا اس نے شاید اس معصوم کو اپنے شکار کیلئے تاڑ لیا تھا وہ زنانہ ڈبے کے پاس آیا اور اس نے معصومہ سے کہا۔ میاں نے کہا ہے آپ اگلے اسٹیشن پر اتریں کیونکہ نہ یہاں کوئی بند گاڑی ہے اور نہ ڈولی۔ معصومہ سوچنے بھی پائی تھی کہ گاڑی چل دی وہ یہی سمجھی کہ گھر کا ملازم ہے اس سے کہلوا دیا ہوگا ۔ اور خود بھی اگلے اسٹیشن پر اتریں گے وہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔
راجہ منڈی کے اسٹیشن پر گاڑی جاکر رکی اور یہ شخص معصومہ کے پاس آیا اور کہا اترئیے یہاں کوئی ڈولی وغیرہ نہیں ہے میاں اسباب لے کروہ جا رہے ہیں ۔ جلدی اترئیے۔ اس کو بھلا بھیڑ میں برقعہ اور چادر میں سے کیا دکھائی دیتا۔ وہ اترآئی اور اس کے پیچھے پیچھے چلی آئی۔ راجہ منڈی پر بھیڑزیادہ تو ہوتی نہیں ہے۔ دروازہ کے پاس پہنچ کر معصومہ نے اصغر کو نہ دیکھا تو پھر بھی اس کو تعجب نہ ہوا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ باہر کھڑے ہوں گے وہ باہر آئی تو اس آدمی نے دور ہی سے پکا ر کر کہا میاں ادھر آئیے یہ گاڑی موجود ہے ۔‘‘ معصومہ سمجھی اصغر کو ملازم پکار رہا ہے وہ اس میں بیٹھ گئی اور کھڑکی کا دروازہ کر لیا اتنے میں اس شخص نے کہا ’’ بھی تم گاڑی بڑھا کر پل کے پاس نکالو وہ دیکھو قلعی تو ادھر جا رہا ہے۔
 
Top