شریر بیوی صفحہ 64

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200064.gif
 

کاشفی

محفلین
سب سے پہلے ان سب چیزوں میں سے تھوڑا ہماری بیوی نے بیرسٹر صاحب کے لئے نکالا اور آدمی کو دوڑایا کہ جلدی جائے، تاکہ کھانے کے وقت پہنچ جائے۔

اب ہمارے سوجی کے حلوے کا حال سنئیے کہ وہ کمبخت اس قدر سخت ہوگیا کہ ہماری عقل کام نہ کرتی تھی۔ کسی طرح کھایا ہی نہ جاتا تھا ور اس کو توڑنے کے لئے پتھر کی ضرورت تھی۔ دوسرے حلوے جو چکھے گئے تو نمک کے مارے زہر نکلے اور مرغ کو جو چکھا گیا تو قدرے میٹھا۔ غرض کل چیزوں کا خوب ستیاناس مارا گیا۔ ہم چاندنی کو الزام دیتے تھے اور وہ ہمیں۔ اب رائے یہ ہوئی کہ اس کا کیا کیا جائے۔ نمکین حلوے تو بالکل بیکار تھے۔ مجبوراََ دلچسپی کے لئے سب کے یہاں تقسیم کرائے۔ قورمہ کو ہم نے نمک درست کر کے کھالیا۔

یہ کوئی غیر معمولی بات تھی کہ مزاق میں ایسا ہو جائے مگر بیرسٹر صاحب نہ معلوم کس طرف جارہے تھے اور نہ معلوم کہ انہوں نے کیا سمجھا ۔ شام کو آئے اور حلوے کا شکریہ ادا کیا اور ہماری دلچسپ بیوی سے بہت باتیں کرتے رہے۔ حامد بھی آئے۔ غرض شام کو تفریح رہی اور اس کا اختتام موٹر کی سیر پر ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ تین مہینے میں ہمارے بیرسٹر صاحب سے ایسے تعلقات ہوگئے کہ حامد سے بھی نہ تھے۔ بیرسٹر صاحب ہماری بیوی کی تعریف کرتے کرتے مرے جاتے تھے اور اب ہماری ان سے بے حد بے تکلفی تھی ہمارے اوپر اور چاندنی پر وہ اس قدر مہربان تھے کہ سینکڑوں تحائف وہ ہماری بیوی کو نذر کر چکے تھے اور چاندنی کا بھی یہ حال تھا کہ دن رات بیرسٹر صاحب کی مدح سرائی ہوتی تھی۔ قصہ مختصر بیرسٹر صاحب ہمارے بہترین دوستوں میں سے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم کچہری سے ایک روز جو آئے تو چاندنی غیر معمولی طور پر خوش معلوم دی۔ ہم نےکہا کیا معاملہ ہے۔ ہمیں بھی بتاؤ تو اس نے ایک خط ہمارے سامنے کر دیا اس میں چند عشقیہ اشعار لکھے ہوئے تھے۔ اور لکھا تھا کہ اگر اس کا جواب دینا ہے تو فلاں فلاں مقام پر رکھ دینا۔ ہم چکر میں تھے کہ الہی یہ کون ہے۔ لفافہ پر پتہ اور مہر کو دیکھا۔ معلوم ہوا کہ یہیں کا ہے۔ ہماری بیوی کا پتہ لکھا تھا۔ ہم نے بہت کچھ سوچا مگر سمجھ میں‌نہ آیا۔ چاندنی بھی بطور خط کے جواب کے بڑی مشکل سے سوچ بچار کر حسب ذیل اشعار لکھ لائی اور ہم کو دکھائے۔

ایک لڑکے نے یہ بڈھے باپ سے اپنے کہا
تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں

ایک لڑکے نے یہ بڈھے باپ سے اپنے کہا
آنکھوں ہی آنکھوں میں‌ ظالم مسکرانا چھوڑ دے
 
Top