شریر بیوی صفحہ 58

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200058.gif
 

کاشفی

محفلین
جلدی کرو۔" کہہ کر اور بھی رہے سہے ہوش اڑائے دے رہا تھا۔ مجوراََ اصغر نے اپنی بیوی سے اترنے کو کہا۔ پلیٹ فارم تو تھا نہیں گویا چھت پر سے یہاں اترنے کا مضمون درپیش تھا۔ ہماری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ کس طرح کوئی آنکھیں بند کر کے اتر سکتا ہے۔ مگر یہاں اصغر صاحب کی بیوی موجود تھیں جن سے اس کمال کی توقع کی جارہی تھی۔ وہ عورت جو ڈولی سے ایک قدم رکھ کر گاڑی کے ڈبے میں‌بیٹھنے کی عادی ہو۔ وہ بھلا کیونکہ برقعہ اور برقعہ کے اوپر چادر اوڑھ کر اس حیرانی اور پریشانی میں اتر سکتی ہے۔ کانپتے ہاتھوں سے ٹٹول کر غریب نے کھڑکی کو پکڑا پیر نیچے کر کے ٹٹول رہی تھیں کہ کس چیز پر اور کہاں رکھوں کہ بے پردگی ہونے لگی یعنی ہوا سے چادر اڑ کر کچھ حصہ پوشاک کا کھل گیا۔ اصغر زور سے چلائے ۔ غریب نے گھبرا کر سنبھلنا چاہا کہ پیر کہیں‌پڑا ۔ ہاتھ سے کھڑکی چھوٹی اور دھم سے نیچے گریں۔ نیچے ٹرنک رکھا گیا تھا۔ جس پر اصغر کھڑے تھے۔ اس کو کونہ کولہے پر اس زور سے لگا کہ بے دم ہی تو ہوگئیں۔ مگر زبان سے اُف تک نہ نکلی۔ ایک تو گرمی کی شدت پھر اس پر کپڑوں کا حبس اور اس پر یہ چوٹ۔ غریب بے ہوش ہو گئیں۔ جوں توں کر کے گھبراہٹ اور جلدی میں چاندنی سے سہارا دے کر اُٹھوایا ۔ کسی دوسرے مرد کی اعانت کے روا دار نہ تھے اور چاندنی میں اتنی قوت نہ تھی۔ نتیجہ یہ کہ بیچاری کو کنکروں پر مردہ کی طرح گھیسٹ کر لے چلے۔ (کیا یہی ہمارے مذہب کی شان ہے۔؟)
 

کاشفی

محفلین
جس طرح بن پڑا بیزار وقت ایک زنانہ تیسرے درجہ میں غریب کو رکھتا اپنے ساتھ بٹھائے کون۔ ہم نے بہت کچھ کہا مگر نہ مانے۔ کوئی دوسرا درجہ بھی خالی نہ تھا۔ چاندنی ازراہ ہمدردی ان کی بیوی کی تیماداری کے لئے ساتھ ہوگئی۔ جوں توں کر کے اسباب اپنے ساتھ کیا اور گاڑی چلی۔

چاندنی نے وہیں گاڑی کی بنچ کے پاس لیٹا رہنے دیا۔ کیونکہ جگہ نہ تھی تکیہ لگایا اور منہ کھول کر ہوا دی۔

اگلے اسٹیشن پر اصغر صاحب اتر کر جو آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ زنانہ درجہ کا دروازہ کھلا ہے اور سامنے بیوی لیٹی ہیں۔ چاندنی ان کے پاس بیٹھی ہوا دے رہی ہے۔ اور اس نے برف کا پانی مانگا۔ مگر یہاں حالت ہی دوسری تھی۔ بے اختیاری کے عالم میں آکر اصغر صاحب زور سے چلائے ۔ "ارے یہ کیا غضب کر رہی ہیں۔ منہ تو ڈھکئے۔ ارے منہ کیوں نہیں‌ ڈھکتیں۔ " یہ کہہ کر اپنی بیوی کا منہ ڈھک دیا۔ اور ٹیڑی نظر سے غصہ میں‌چاندنی سے کہا۔ "یہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ اپنی طرح میری بیوی کا بھی منہ کھول دیں۔ یہ آپ ہی کو مبارک ہو۔ آپ رہنے دیجئے ۔ اور جائیے۔"

گئ تھی بھلے کو اور وہاں برا ہوا۔ چاندنی بے چاری چپ چاپ چلی آئی۔ ہماری طبیعت خراب تھی اور اس وجہ سے اس سفر میں اس کی طبیعت حاضر نہ تھی۔ پھر بھی کہنے لگی "کہیئے تو ان کی خبر لی جائے۔" ہم نے کہا" نہیں رہنے دو۔" اتنے میں اصغر صاحب آگئے۔ اور پھر اسی جلے بھنے لہجے میں
 
Top