شریر بیوی- صفحہ 23

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200023.gif
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 43​
ہم نے متاثر ہوکر بیوی سے صرف اتنا کہا کہ تم بڑی اچھی ہو۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے کہ آخر ان نوکرانیوں کو کیا سوجھی کہ ایسی بے بنیاد بات کہہ دی اور پھر اس پر قائم ہیں۔ بیوی ان کو نکالنے کو کہتی تھی مگر ہمارا خیال ضرور تھا کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔​
-------------------------------------​
سردار سندر سنگھ خوبصورت جوان نہیں بلکہ ایک حسین اور خوش رو جوان تھے۔ خدا کی شان ہے کہ کچھ عقل کام نہ کرتی تھی کہ ان کو بھی کیسا حسن ملا تھا لوگوں کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ ان میں زنانہ حسن کا عنصر غالب ہے یا مردانہ حسن کا۔ گورا چمکتا رنگ، بدن نہایت ہی نازک اور اکہرا، قد نہایت ہی موزوں۔ آنکھیں، ناک، ہونٹ اور دانت وغیرہ کل چہرہ اس قدر سبک اور حسین کہ جو دیکھتا تعریف کرتا ان سب باتوں کے علاوہ کمر کمر تک ریشم کی طرح ملائم بال ان کے زنانہ حسن کی تکمیل کرتے تھے۔ مگر ان کی داڑھی خدا کی پناہ! ماشاء اللہ ڈیڑھ فٹ کی داڑھی نہیں بلکہ داڑھا تھا۔ یہی ایک ایسی چیز تھی جو ان کے زنانہ حسن کو دبانے کی اور مغلوب کرنے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔ کیونکہ سب کی متفقہ رائے یہی تھی کہ اس قدر لمبی داڑھی کو بھی اس مقصد میں ذرا بھی کامیابی نہیں ہوتی۔ اپنی داڑھی وہ لپیٹ کر ریشمی جالی سے اس طرح باندھ لیتے تھے کہ یہی معلوم ہوتا تھا کہ معمولی خشخشی داڑھی ہے۔ محض ان کی داڑھی ہی ایک ایسی چیز تھی جو ان کو ایک حسین مرد بنا دیتی تھی۔ لیکن پھر بھی زنانہ حسن کا عنصر جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں۔ غالب ہی رہتا تھا۔ کیونکہ آپس کے یار دوست ان کے زنانہ حسن کی اتنی تعریف​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 44​
کرتے تھے کہ وہ جھینپ جاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر کہیں میرے داڑھی نہ ہوتی تو مجھ سے یار دوستوں کے مذاق کا جواب ہی دیتے نہ بن پڑتا۔​
-------------------------------​
صبح ہماری آنکھ ذرا دیر سے کھلی۔ اٹھ کر ہم باہر پہنچے۔ سردار صاحب غسل خانہ میں تھے ہم برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھے تھے کہ سردار صاحب نہا کر مسکراتے ہوئے نکلے۔ ڈیڑھ بالشت کی داڑھی اس خوبصورت چہرے پر عجیب بہار دے رہی تھی ایک سفید دھوتی ساڑھی کی طرح باندھے ہوئے تھے اور اُدھی اوڑھے ہوئے تھے جس سے سارا بدن سوائے کہنیوں تک ہاتھوں کے اور سر کے کھلا ہوا تھا ان کے لمبے اور ریشمی بال کمر تک لٹک رہے تھے۔ ہماری کرسی ہی کے پاس میز تھی۔ جس پر آئینہ رکھا تھا۔ وہ کرسی کے برابر آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر بال پونچھنے لگے اور کہنے لگے کہ " بھئی تم اپنی بیوی سے کب ملاقات کراؤ گے؟"​
ہم نے ہنستے ہوئے اور ان کے بالوں سے کھیلتے ہوئے کہا جو ہمارے سامنے لٹک رہے تھے کہ " سردار صاحب ہمارا تو یہ ارادہ تھا کہ آپ سے کل ہی ملاقات کرا دیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ ارادہ بدل دینا پڑا اور اب شاید ملاقات قطعی نہ کرا سکیں۔"​
"بھئی یہ کیوں؟" سردار صاحب نے اپنے ریشمی بال جھٹکتے ہوئے عجیب ادا سے کہا۔​
 
Top