ٹائپنگ مکمل شریر بیوی۔ صفحہ 4

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200004.gif
 

جُنید

محفلین
4
ہوئے تو وہ بے حد خفا ہوئے۔ حتی کہ ہمیں چپت مار کر بھاگنا پڑا ایک اور صاحب سائیکل سوار ایک تار کے کھنبے کے پاس کھڑے سگریٹ سلگا رہے تھے ان کے پاس پہنچ کر ہم نے کہا حضرت ذرا دیا سلائی عنایت کیجئے گا۔ انہوں نے دے دی تو ہم نے کہا ذرا سگریٹ دیجئے گا تو انہوں نے کہا ایسے اُلّو کہیں اور رہتے ہیں ۔ ہم نے دیا سلائی جیب میں رکھی اور کہا اچھا نہ دیجئے۔ وہ ہمارے پیچھے دوڑے مگر لا حول ولا قوت کہاں ہم کہاں وہ۔ ہم لوگ بہت آگے نکل گئے اور وہ واپس گئے تھوڑی دیر بعد ہم نے مڑ کر جو دیکھا تو وہ حضرت سائیکل پر آہستہ آہستہ چلے آ رہے ہیں ہم ایک کنارہ کے درخت کی آڑ میں چھپ گئے کہ کہیں دیکھ نہ لیں ہم نے دیکھا کہ منہ میں ان کی سگریٹ ہے ۔ جیسے ہی سائیکل برابر آئی ہاتھ بڑھا سگریٹ ان کے منہ سے چھین لیا انہوں نے جو دیکھا تو جھک کر سلام کیا وہ برا فروختہ ہوکر ہمارے پیچھے سائیکل رکھ کر دوڑے۔ ادھر ہمارے ایک ساتھی نے کیا کیا کہ ان کی سائیکل لے کر یہ جا وہ جا۔ وہ ہم کو چھوڑ کر ادھر لپکے جب ہم نے یہ دیکھا تو ہم رک گئے اور ہمارے ساتھی نے کچھ دور جا کر سائیکل زمین پر ڈالدی لیکن ایک سوراخ اس ٹیوب میں کر دیا ۔ ہم دوسری سڑک پر اپنے ساتھیوں سے جا ملے داہنے ہاتھ کو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک بڑا بھاری میدان دور تک چلا گیا ہے.ایک آدمی لوٹا لے کر بیچ میدان میں چلا جا رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ پاخانے جا رہا ہے جس بنگلہ سے وہ آیا تھا وہ بہت دور تھا۔ ہم فورا سڑک چھوڑ کر اس کے پاس دوڑتے ہوئے گئے اور پکارتے جاتے تھے کہ بھائی ذرا بات سن لو۔ ہانپتے ہانپتے ہم اس کے پاس پہنچے۔ اس کی شکل دیکھ کر ڈر معلوم ہوا۔ کیونکہ تگڑا جوان مضبوط تھا۔ مگر

5
ہم بھی جان پر کھیل گئے کہ ہماری محنت اکارت نہ جائے۔ اُلٹی سیدھی دو ایک باتیں کر کے لوٹے میں ہاتھ مار کر گرا دیا اور یہ جا وہ جا وہ بے تحاشا ہماری طرف دوڑا مگر ہماری خوش قسمتی کہیے کہ اس قوت نے اس کو روک لیا جس سے رستم بھی عاری ہو گا۔ ہم نے مڑ کر جو دیکھا تو وہ حضرت مجسمہ شکست تھے۔ پھر تو ہم نے اس کو مارے اینٹوں کے پریشان کر دیا۔ غرض اس فرض کو انجام دے کر کچھ دور گئے ہوں گے کہ دیکھا کہ ایک پہلوان صاضب تہ بند باندھے چلے جار رہے تھے ان کے قدم ایسے پڑ رہے تھے کہ ہمارے منہ میں پانی بھر آیا کہ کاش کہ ہم ان سے بھی کچھ دلچسپی لیتے اور کم از کم ان کی مضبوط پنڈلیوں میں پیر اڑا کر گراتے۔ ہمارے ساتھیوں نے کہا کہ یہ ہم کوضرور مارے گا.ہم اس کی رائے نہیں دیتے۔ہم نے کہو خواہ جان جائے یا رہے ہم اس کو ضرور ایک ٹنگڑی دیں گے۔ ہمارے ساتھی گھبرا کرالگ ہو گئے مگر ہم نے اللہ کا نام لے کر پیچھے سے جا کر ان کے پیر میں پیر ایسا اڑایا کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے۔ وہیں سے پہلوان صاحب جوتا لے کر اٹھے اور اٹھتے اٹھتے انہوں نے جوتا پھینک کر مارا جو ہماری پیٹھ میں لگا۔ ہم نے حماقت کی جو مڑ کر دیکھا کیوں کہ چشم زدن میں ہم پکڑ لئے گئے۔ اور پہلوان صاحب نے ہمارے ایک طمانچہ ایسا مارا کہ اگر ہم اپنے ہاتھ پر نہ روکتے تو شائد ہمارا منہ پھر جاتا دوسرا پڑنے ہی کو تھا کہ ہمارے ساتھی نے ان کے سونے کے کام کی ٹوپی ان کے سر سے اچک لی ہمیں چھوڑ کر یہ ادھر بھاگے اور ہمارے ساتھی نے ان کی ٹوپی پھینک کر اپنی جان بچائی۔ بہت اُلٹا سیدھا چکر دے کر راہ کاٹی۔ ہم چلے جا رہے تھے کہ ایک صاحب نے ہم کو ایک دکان سے پکارا کہ میاں صاحب زادے ذرا
 

ابو کاشان

محفلین
کتاب: شریر بیوی
پروف ریڈنگ : ابو کاشان

4
ہوئے تو وہ بے حد خفا ہوئے۔ حتی کہ ہمیں چپت مار کر بھاگنا پڑا ایک اور صاحب سائیکل سوار ایک تار کے کھنبے کے پاس کھڑے سگریٹ سُلگا رہے تھے ان کے پاس پہنچ کر ہم نے کہا حضرت ذرا دیا سلائی عنایت کیجئے گا۔ انہوں نے دے دی تو ہم نے کہا ذرا سگریٹ دیجئے گا تو انہوں نے کہا ایسے اُلّو کہیں اور رہتے ہیں ۔ ہم نے دیا سلائی جیب میں رکھی اور کہا اچھا نہ دیجئے۔ وہ ہمارے پیچھے دوڑے مگر لا حول ولا قوۃ کہاں ہم کہاں وہ۔ ہم لوگ بہت آگے نکل گئے اور وہ واپس گئے تھوڑی دیر بعد ہم نے مڑ کر جو دیکھا تو وہ حضرت سائیکل پر آہستہ آہستہ چلے آ رہے ہیں ہم ایک کنارہ کے درخت کی آڑ میں چھپ گئے کہ کہیں دیکھ نہ لیں ہم نے دیکھا کہ منہ میں ان کی سگریٹ ہے ۔ جیسے ہی سائیکل برابر آئی ہاتھ بڑھا سگریٹ ان کے منہ سے چھین لیا انہوں نے جو دیکھا تو جھک کر سلام کیا وہ برا فروختہ ہوکر ہمارے پیچھے سائیکل رکھ کر دوڑے۔ ادھر ہمارے ایک ساتھی نے کیا کیا کہ ان کی سائیکل لے کر یہ جا وہ جا۔ وہ ہم کو چھوڑ کر ادھر لپکے جب ہم نے یہ دیکھا تو ہم رک گئے اور ہمارے ساتھی نے کچھ دور جا کر سائیکل زمین پر ڈالدی لیکن ایک سوراخ اس ٹیوب میں کر دیا۔ ہم دوسری سڑک پر اپنے ساتھیوں سے جا ملے داہنے ہاتھ کو دیکھتے کیا ہیں کہ ایک بڑا بھاری میدان دور تک چلا گیا ہے۔ ایک آدمی لوٹا لے کر بیچ میدان میں چلا جا رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ پاخانے جا رہا ہے جس بنگلہ سے وہ آیا تھا وہ بہت دور تھا۔ ہم فوراً سڑک چھوڑ کر اس کے پاس دوڑتے ہوئے گئے اور پکارتے جاتے تھے کہ بھائی ذرا بات سن لو۔ ہانپتے ہانپتے ہم اس کے پاس پہنچے۔ اس کی شکل دیکھ کر ڈر معلوم ہوا۔ کیونکہ تگڑا جوان مضبوط تھا۔ مگر

5
ہم بھی جان پر کھیل گئے کہ ہماری محنت اکارت نہ جائے۔ اُلٹی سیدھی دو ایک باتیں کر کے لوٹے میں ہاتھ مار کر گرا دیا اور یہ جا وہ جا وہ بے تحاشا ہماری طرف دوڑا مگر ہماری خوش قسمتی کہیئے کہ اس قوت نے اس کو روک لیا جس سے رستم بھی عاری ہو گا۔ ہم نے مڑ کر جو دیکھا تو وہ حضرت مجسمہ شکست تھے۔ پھر تو ہم نے اس کو مارے اینٹوں کے پریشان کر دیا۔ غرض اس فرض کو انجام دے کر کچھ دور گئے ہوں گے کہ دیکھا کہ ایک پہلوان صاحب تہ بند باندھے چلے جا رہے تھے ان کے قدم ایسے پڑ رہے تھے کہ ہمارے منہ میں پانی بھر آیا کہ کاش کہ ہم ان سے بھی کچھ دلچسپی لیتے اور کم از کم ان کی مضبوط پنڈلیوں میں پیر اڑا کر گراتے۔ ہمارے ساتھیوں نے کہا کہ یہ ہم کوضرور مارے گا۔ ہم اس کی رائے نہیں دیتے۔ ہم نے کہا خواہ جان جائے یا رہے ہم اس کو ضرور ایک ٹنگڑی دیں گے۔ ہمارے ساتھی گھبرا کر الگ ہو گئے مگر ہم نے اللہ کا نام لے کر پیچھے سے جا کر ان کے پیر میں پیر ایسا اڑایا کہ وہ گھٹنوں کے بل گرے۔ وہیں سے پہلوان صاحب جوتا لے کر اٹھے اور اٹھتے اٹھتے انہوں نے جوتا پھینک کر مارا جو ہماری پیٹھ میں لگا۔ ہم نے حماقت کی جو مڑ کر دیکھا کیوں کہ چشم زدن میں ہم پکڑ لئے گئے۔ اور پہلوان صاحب نے ہمارے ایک طمانچہ ایسا مارا کہ اگر ہم اپنے ہاتھ پر نہ روکتے تو شائد ہمارا منہ پھر جاتا دوسرا پڑنے ہی کو تھا کہ ہمارے ساتھی نے ان کے سونے کے کام کی ٹوپی ان کے سر سے اچک لی ہمیں چھوڑ کر یہ ادھر بھاگے اور ہمارے ساتھی نے ان کی ٹوپی پھینک کر اپنی جان بچائی۔ بہت اُلٹا سیدھا چکر دے کر راہ کاٹی۔ ہم چلے جا رہے تھے کہ ایک صاحب نے ہم کو ایک دکان سے پکارا کہ میاں صاحب زادے ذرا
 
Top