شرہر بیوی- ص 45

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
Shararti_Bivi%20-%200045.gif
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 86

نے مارتے مارتے چھوڑا۔ وہ غریب چائے واپس لے گیا۔ اتنے میں ملازم خالی لوٹا بھر لایا اور انھوں نے کلی جو کی تو اور بھی تھوکنے لگے۔ کہنے لگے کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ معلوم ہوا نوکر نل سے پانی لایا تھا۔

القصہ عجیب چکر میں تھے۔ باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ ریلوے پولیس انسپکٹر اس کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ہم سناٹے میں آ گئے۔ اور ہم نے گھبرا کر بیوی کے کان میں کہا کہ لے آج تو پکڑی جائے گی۔ چاندنی پولیس وغیرہ سے کبھی نہ ڈرتی تھی۔ مگر اس وقت واقعی وہ چپ ہو گئی۔ ہم دونوں پھر آ کر بیٹھ گئے۔ اور یہ حضرت جو دراصل ممبر کونسل تھے۔ خوب اس کڑوے مذاق پر ہنس رہے تھے۔ اتنے میں ان کے ایک دوست آئے اور وہ بھی بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ پانی کی بوتلیں بہت سی تھیں۔ ان کے دوست نے ایک بوتل اٹھا ئی اور اس کو گلاس میں گھول کر برف کی بوتل میں ڈال کر پھر گلاس میں واپس کر کے جو پیا تو کیا بتائیں وہ کیسے کودے۔ گلاس چھوڑ کر کود رہے تھے۔ ان کے دوست کا اور ہمارا اسی کے مارےبرا حال ہو گیا۔ اب یہ حضرت عجیب چکر میں تھے۔ کہنے لگے کہ یہ بوتلیں اور برف تو شہر کی ہیں۔ ان میں کہاں سے کڑواہٹ گھس گئی۔ ہماری بیوی غریب اور بیچاری ہی ہوئی۔ برقعہ اوڑھے اپنے بچھونے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ جیسے اس کو اس سے کچھ تعلق ہی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پان کی ڈبیا مانگی۔ اس نے ہینڈ بیگ میں بتائی۔ ہم نے اس میں سے ڈبیا نکالی، اور ان دونوں کو پان پیش کئے۔ وہ حضرت ہنس کر کہنے لگے کہ جناب کہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 87

ان پانوں میں تو مصیبت نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ صاحب یہ تو ہمارے گھر کے ہیں۔ انہوں نے ایک پان لیا اور ایک ان کے دوست نے لیا۔ دراصل ہمیں معلوم بھی نہ تھا کہ ایک ڈبیا کڑوے پانوں کی ہے۔ اور ہم نے بھی ایک پان منہ میں رکھ لیا۔ فوراً ہی سب کو تھوکنے پڑے اور ان حضرت کا تو مارے ہنسی کے بُرا حال تھا۔ اور کہتے تھے کہ یہ آخر کیا مصیبت ہے، کہ چاندنی نے بات بنا دی اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ نے اسٹیشن والے پان کھا لئے۔ دوسری ڈبیا میں سے لیجیئے۔ ہم نے کلی کی اور پرھ دوسرے پان کھائے۔ کڑوے پھینکدئیے۔

(4)

نینی تال ہم خدا خدا کر کے پہنچے اور درمیان میں کوئی واقعہ قابلِ ذکر پیش نہ آیا۔ ہمارے ہمسفر حضرت رہ رہ کر رات کے معاملات پر غور کر رہے تھے۔ اور تعجب کے ساتھ ہنس بھی رہے تھے کیونکہ اس کے اور ساتھی بھی جو کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ کونین کا ذائقہ یا تو خود بریلی میں چکھ چکے تھے اور یا ان کا تماشہ دیکھ چکے۔ ہر شخص تعجب کرتا تھا کہ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ شہر سے بوتل میں برف آئے اور وہ کڑوی ہو جائے۔ حد ہو گئی کہ نل کی ٹونٹی سے کڑوا پانی نکلے۔ غرض ان سے رخصت ہوئے۔

ہم نے ایک پورا موٹر کرائے پر کیا اور بیوی کو اس میں بٹھایا اور نینی تال کی چڑھائی شروع ہوئی۔ ہم نے بیوی کو متنبہ کر دیا کہ اگر آئندہ
 
Top