شبِ غم مختصر کرے کوئی

ظفری

لائبریرین

شبِ غم مختصر کرے کوئی
میری اسکو خبر کرے کوئی

چراغ کی مانند جلا عمر بھر
میری طرح بسر کرے کوئی

مجھ پہ انگلی اٹھانے سے پہلے
خود کو معتبر کرے کوئی

بستیاں تو سب اجاڑتے ہیں
کھنڈر لیکن گھر کرے کوئی

سنگ باری کے اس کھیل میں
سامنے پہلے سر کرے کوئی

زہر دے کے مسکرانا بھی تو تھا
کاہے اب ظفر ظفر کرے کوئی​
 

الف عین

لائبریرین
دیکھو اصلاح شدہ:

شبِ غم مختصر کرے کوئی
میری اسکو خبر کرے کوئی

سدا جلتا رہا دئے کی طرح
میرے جیسا بسر کرے کوئی

مجھ پہ انگلی اٹھانے سے پہلے
خود کو کچھ معتبر کرے کوئی

بستیاں تو سبھی اجاڑتے ہیں
اپنے گھر کو کھنڈرکرے کوئی

سنگ باری کاکھیل چلتا رہے
سامنے پہلے سر کرے کوئی

یہ شعر مگر مشکل کر رہا ہے۔ ظفر ظفر نہیں محض ’ظف ظفر‘ بحر میں آتا ہے، اور اگر اسے بدل دیا جائے تو بقول کسے سانپ کا ڈنک ہی نکل جاتا ہے۔ اس لئے پہلے مصرعے کو بھی فی الحال ان چھوا چھوڑ دیا ہے۔

زہر دے کے مسکرانا بھی تو تھا
کاہے اب ظفر ظفر کرے کوئی
 

ظفری

لائبریرین
استادِ محترم آپ کی توجہ اور محبت کا ڈھیروں ڈھیروں شکریہ ۔۔۔ آپ کی اصلاح کے بعد ، مجھے اب خود غزل پڑھنے کا لطف آرہا ہے اور خا ص کر یہ شعر ۔۔۔
بستیاں تو سبھی اجاڑتے ہیں
اپنے گھر کو کھنڈرکرے کوئی

اس شعر میں بے شک خیال بدلا ہے مگر آپ کی اصلاح کے بعد یہ خیال اتنا مکمل اور پُرمعنی ہوگیا ہے کہ مجھے اب خیال آرہا ہے کہ میں نے ہاتھ گھما کر کان کیوں پکڑا اور مقطع کے بارے میں بھی میرا وہی نظریہ ہے جو آپ نے بیان کیا کہ میں نے بہت کوشش کی کہ کچھ اور ہوجائے مگر مصرعے کا اثر زائل ہوتا دیکھ کر پھر ایسا ہی چھوڑ دیا ۔

آپ کا تہہ دل سے ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمیشہ کی طرح اپنے مصروفیات کے باوجود فوراً ہی اصلاح فرما دی ۔ جس کے لیئے میں بیحد ممنون ہوں ۔
 
Top