شان الحق حقّی ::::: بُھلا دو، رنج کی باتوں میں کیا ہے ::::: Shan-ul-Haq Haqqee

طارق شاہ

محفلین

غزلِ


بُھلا دو، رنج کی باتوں میں کیا ہے
اِدھر دیکھو میری آنکھوں میں کیا ہے

بہت تارِیک دِن ہے، پھر بھی دیکھو
اُجالا چاندنی راتوں میں کیا ہے

نہیں پاتِیں جسے بَیدار نظریں
خُدایا یہ مِرے خوابوں میں کیا ہے

یہ کیا ڈُھونڈے چَلے جاتی ہے دُنیا
تماشہ سا گلی کوُچوں میں کیا ہے

ہے وحشت سی یہ ہرچہرے پہ کیسی
نجانے سہم سا نظروں میں کیا ہے

یہ اِک ہیجان سا دریا میں کیوں ہے
یہ کُچھ سامان سا موجوں میں کیا ہے

ذرا سا بَل ہے اِک زُلفوں کا اُس کے
وگرنہ زور زنجِیروں میں کیا ہے

ہیں خمیازے سُرورِ آرزو کے
نشاطِ غم کہو ناموں میں کیا ہے

تمہاری دیرآمیزی بھی دیکھی
تکلّف لکھنؤ والوں میں کیا ہے

شان الحق حقّی
 
Top