شام کے خوں آشام حکمراں او ربھارت کی اردو صحافت

rashidsre

محفلین
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
شام کے خوں آشام حکمراں او ربھارت کی اردو صحافت
ar4all.com-97261a490d.jpg
نظام شمسی نے ایک سال کی گردش مکمل کرلی اور شام ابھی تک لہو لہان ہے کشت وخون کا ہنگامہ برپا ہے ہر روز سر قلم ہو رہے ہیں ۔ ہر روز بے شمار انسان اپنی جان قربان گاہ حریت پر نثار کر رہے ہیں وہاں کے بازار میں اس وقت سب سے ارزاں چیز موت ہے ۔ وہاں کے عوام کا مطالبہ کیا ہے ؟ آزادی انصاف اور جہوریت کی بحالی ۔ شام کا مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ وہاں عوام کو وہی حق چاہئیُ جو دنیا کے آزاد ملکوں کے آزاد شہریوں کو حاصل ہے ۔ تقریبا نصف صدی سے وہاں امرجنسی نافذ ہے ۔ اپنی بات کہنے اور اپنی رائے کے اظہار کی انہیں آزادی حاصل نہیں ہے ۔ وہ کوئی جلسہ نہیں کرسکتے کوئی جلوس نہیں نکال سکتے وہ ایک مسلم ملک ہے لیکن سیرت النبی کے وہ جلسے جو ہمارے ملک میں سال بھر منعقد ہوتے ہیں اور ربیع الاول کے مہینہ میں ہر گلی کوچے میں منعقد ہوتے ہیں شام کے میدانوں اور سبزہ زاروں پر منعقد نہیں ہو سکتے کیونکہ جلسے قانونا ممنوع ہیں لوگ بند گھروں میں میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں اور اپنی زبانیں بند رکھتے ہیں ۔ جب ٹیونس میں اور مصر میں استبدادی نظام کے خلاف انقلاب کے شرارے بلند ہوئے تو شام کے عوام بھی آزادی اور حقوق شہریت حاصل کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے انہوں نے جلوس منظم کئے اور آزادی کے نعرے بلند کئے ‘۔ ان کے مظاہرے شروع میں بالکل پرامن تھے ان کے پاس ہتھیار نہ تھے لیکن بربط دل پر آزادی کا ساز اور آہ اور کراہ کی آواز بھی شام کی استبدادی حکومت کے گوش نازک کو گوارہ نہیں تھی۔ نہتھے لوگوں پر فائرنگ کی گئی اور شام کے شاداب چہرہ خوش قامت اور خوبرو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور تعذیب خانوں میں ان کی وہ درگت بنائی گئی کہ ان کے خون آلودہ چہروں کو پہچھاننا ان کے قریبی رشتہ داروں کے لئے بھی مشکل ہو گیا ۔ پھر ان مظالم کے خلاف جلسے منظم ہوئے اور جلوس نکالے گئے اورپھر جلوس پرہر جگہ فائرنگ کی گئی اور پورا ملک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہوگیا ۔ لیکن ہمارے کئی اردو اخبارات جب اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں کالم لکھتے ہیں اور ادارئے تحریر کرتے ہیں تو ظالم اور مظلوم دونوں کو برابر کرکے تصفیہ کرنے کی بات کرتے ہیں ایسا اس لئے ہے کہ ہمارے ملک میں ایک مخصوص مسلک اورایک خاص ملک کی لابی بہت مضبوط ہے اور چونکہ اس مخصوص مسلک اور ملک کی فوجی عسکری اور سیاسی مدد بھی شام کے حکمراں بشار الاسد کو حاصل ہے اس لئے ساری تحریر کا مدعا یہ نکلتا ہے پہلے انقلابیوں کو اپنی بغاوت سے دست بردار ہونا چاہئے اور اس کے بعد فوج کو بیرک میں جانا چاہئے اور پھر عوام کو اپنے حکمراں سے بات کرنی چاہئے اور اب تک کی تمام انقلابی کوششوں کو حرف غلط کی طرح مٹادینا چاہئے اور گفتگو اس طرح ہو نی چاہئے کہ ایک طرف حاکم وقت اپنی پوری طاقت اور اختیارات کے ساتھ ہو اور فتح کے نشہ میں سرشار ہو اور دوسری طرف محکوم اپنی بے سروسامانی ‘ بہتے ہوے خون ‘لٹی ہوئی متاع اور اجڑ ے ہوئے دیار اور پندرہ ہزار لاشوں کے گنج شہیداں کے پس منظر اور ہاری ہوئی بازی کے ساتھ میز پر گفتگو کے لئے آئے ۔ ایسی گفتگو کا جو حاصل ہوگا وہ معلوم ہے ۔ بھارت کی وہ اردو صحافت جو ایک مخصوص لابی کے زیر اثر ہے ظالم اور مظلوم دونوں کو ایک صف میں رکھ کر بات چیت کا مشورہ دے رہی ہے ۔ حیدراباد کے ایک اردو اخبار نے ‘‘ کوفی عنان کا دورہ دمشق ‘‘ کے نام سے اداریہ لکھا اور یہ فرمایا کہ پہلے باغیوں سے یہ کہنا چاہئے کہ وہ ہتھیار ڈٰال دیں اس کے بعد حکومت کی فوج کو بیرک میں جانے کا مشورہ دینا چاہئے ۔ شہر بمبئی کے ایک اردو صحافی اور ایک خاتون کالم نگا رکی تحریریں بھی شام کے موضوع پر اسی نوعیت کی ہیں انہیں شام کے مظلوم عوام سے ہمدردی نہیں ہے انکا جھکاو اور میلان شامی حکومت کی طرف ہے اور وہ اس مخصوص ملک اور مسلک کے لوگوں کے ساتھ ہیں جو مسلکیت اور فرقہ پرستی کی بناء پر بشار الاسد کے حامی اور ہمنوا ہیں ان دونوں صحافیوں نے ظالم اور مظلوم دونوں کو برابر رکھ کر مصالحت کا مشورہ دیا ہے ۔
شام کا قضیہ تیونس اور مصراور لیبیا کے قضیہ سے بھی زیادہ پیچیدہ اور انسانی ہمدردی کا مستحق ہے وہاں عوام اس آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس سے ان کو نصف صدی سے محروم رکھا گیا ہے انہوں نے اس آزادی سے ہمکنار ہونے کے لئے پر امن مظاہرے کئے لیکن ان کو گولیوں کی باڑھ پر رکھ لیاگیا ان کے گھروں کو مسمارکردیا گیا بارہ ہزار شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ پناہ گزیں ہو گئے اب برباد اور تباہ حال اپوزیشن سے کہا جاتا ہے کہ طاقتور ظالم حکومت سے بات چیت کرے ۔ شام میں ا پوزیشن کا کہنا ہے اور بجا طور پر یہ کہنا ہے کہ ہم گفتگو کے لئے تیار ہیں لیکن پہلے بشار اقتدار سے دستبردار ہوجائیں ۔کیونکہ ہم شہیدوں کی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔ حالات کے اس پس منظر میں اردو صحافت کا یہ موقف ہرگز منصفانہ نہیں کہ آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو تباہی اور بربادی کی تمام حدوں سے گذر جانے کے بعد بشار الاسد کو ہٹائے بغیر بات چیت ُ کی میز پر آنا چاہئے جب کہ بشار الاسد کی حکومت اتنی ڈھیٹ ہے اور اس درجہ اپنی ضد پر قائم ہے کہ عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے مبصرین اور آبزرور کی موجود گی میں خون ریز اور دہشت خیز اور قیامت انگیز کاروائی جاری رکھے ہوئے ہے ۔ایسی صورت حال میں از بس ضروری ہے کہ مسلم اور عرب ملکوں کی مادی اور مسلح مدد بے بسی اور کسمپرسی کی حالت میں زخموں سے لہو لہان شام کے عوام تک پہونچے لیکن شام کے حلیف اور ہم مسلک پڑوسی ملک کی لابی اتنی طافتور ہے کہ اس کے اثرات کا سایہ نہ صرف عام اردو صحافت پر بلکہ ایک معروف اور معتبر اسلامی جماعت کے آرگن پر بھی نظر آتا ہے خود جماعت کی قرار داد میں اور اس کے ترجمان سہ روزہ جریدہ کے اداریہ میں شام کے مسئلہ میں باہر کی مداخلت کی مخالفت کی جاتی ہے ۔ سہ روزہ جریدہ کی ۲۵ اپریل کی اشاعت کے اداریہ میں بھی یہ بات موجود ہے کہ ’’ شام میں جب سے بیرونی مداخلت بڑھی ہے حالات اور بھی زیادہ خراب ہوئے ہیں ‘‘ گویا بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہئے اور شامی عوام کو مرنے اور زخموں سے چھلنی ہو جانے کیلئے شام کی مسلح افواج کے مقابلہ میں بے یارومددگار چھوڑدینا چاہئے ۔ کیا اس طرح کی تحریریں اس بات کی غماز نہیں ہیں کہ ہندوستان کی موقر دینی جماعت بھی ایک مخصوص لابی کے اثرات سے آزاد نہیں ۔ اللہ کی کتاب تو یہ کہتی ہے کہ کسی خطہ ارض پر مسلمانوں کو ظلم وجور کا نشانہ بنایا جائے تو مسلمان مرد وں اور عورتوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار کرنی چاہئے اور قتال ممکن ہو تو اس سے بھی گریز نہیںکرنا چاہئے ‘ قرآن کی آیت کا ترجمہ یہ ہے ’’ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیںکرتے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ کمزور مرد اور عورتیں اور بچے ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی حمایتی پیدا کر اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کسی کو مددگار بنا ‘‘
یہ آیت اہل شام کی بے چارگی اور کسمپرسی پر پوری طرح منطبق ہورہی ہے وہاں کے مرد اور عورتیں اور بچے فریاد کنا ں ہیں اور دست بدعا ہیں کہ بار الہا ظلم کی انتہا ہو چکی ہے ہم جان ومال اورعزت و آبرو کی قربانیاں دے چکے اب کسی ملک کو ہمارا حامی اور ناصر بناد ے جو ہمیں ظلم سے نجات دلائے ۔ لیکن وا حسرتا کہ معتبر اور موقر دینی جماعت کا ترجمان یہ کہ رہا ہے کہ باہر کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے باہر سے کوئی مدد کوئی کمک نہیں ملنی چاہے ۔ اہل شام مرتے ہیں تومریں ان کے مکان جلتے ہیں تو جلیں انہیں مرنے اور جلنے دینا چاہئے ۔ شرعی مسئلہ تو یہ ہے کہ مسلمان حکومتوں پر اہل شام کی مدد واجب ہے اور غیر مسلم انصاف پسند حکومتوں سے بھی ایک مسلم حکومت فوجی اور عسکری مدد لے سکتی ہے اور میثاق مدینہ سے اس پر بجا طور استدلال کیا جاسکتا ہے ۔ تمام مسلم حکومتوں کو شام کی اپوزیشن کو نمائندہ اور اقتدار کا حقدار تسلیم کرلینا چاہئے تاکہ ان کی نصرت اور مدد کا قانونی جواز پیدا ہوسکے ۔
 

rashidsre

محفلین
بات صاف اور اظہر من الشمس ہے کہ شام میں آزادی اور انصاف کا مطالبہ ہر حیثیت سے درست اور لائق تایید ہے لیکن جب شام کی مسلح فوج اس جائز مطالبہ کو کچلنے پر کمر بستہ ہے اور اس کو اپنے حلیف ملک ایران سے فوجی اور عسکری مدد مل رہی ہے جس کے ثبوت کویت کے ہفتہ وار المجتمع نے اپنے تازہ شمارہ میں فراہم کردئے ہیں تو کیا عرب ملکوں کو اور ترکی کو خاموش رہنا چاہئے اور مداخلت اور مددنہیں کرنی چاہئے ۔ ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ سہ روزہ اسلامی جریدہ کے صفحات ان حقیقت بیانیوں سے خالی ہوتے ہیں جن کا ذکر اسلامی ذہن وفکر کے عربی مجلات میں عام طور پر موجود رہتا ہے۔ؒ اب اگر سہ روزہ جریدہ کے قارئین یہ دیکھیں کہ ایران کے خلاف ایک حرف نہیں شائع ہوتا ہے جو بشار الاسد کی مدد کررہاہے اور بیرونی مداخلت کی مخالفت کرکے شام کے مجاہدوں کو ہر طرح کی مدد سے محروم کیا جارہا ہے اس عجیب وغریب پالیسی میں ایرانی لابی کا ہاتھ نظر آجائے تو کسی کو شکایت کا موقعہ کیوں ہو اس جریدہ کو خود اپنا دامن اور بند قبا دیکھنا چاہئے ۔مری طرف سے جماعت کی عظمتوں کو سلام لیکن اس کا جریدہ ادارت کے شہنشینوں میں کھویا گیا ہے اور پھر معاملہ تنہا اس جریدہ کا نہیں ۔ بیرونی مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنا کر اور ظلم کی عملا شریک بن کر بِھارت کی اردو صحافت نے اہل شام کے خلاف مہابھارت چھیڑ رکھی ہے ۔ شام کے مسئلہ میں بیرونی مداخلت ضروری ہے اس کے بغیر ایک غیر مسلح قوم مسلح افواج سے انصاف اور آزادی کسی طور پر بھی نہیں حاصل کرسکتی ہے ۔جولوگ بیرونی مداخلت کی مخالفت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ترکی اردن اور عراق کی سرحدوں سے بھی کسی قسم کی مدد شام کے مجاہدوں کو نہ ملے وہ دراصل شام کے انقلاب کو ناکام دیکھنا چاہتے ہیں اور بشار الاسد کے استبدادی نظام کو فائز المرام ۔
شام میں اہل شام کے جذبہ وعمل کی صداقت کو جانچنے کے دو معیار ہوسکتے ہیں ایک جمہوریت اور دوسرے اسلام ۔کسی بھی کسوٹی پر اہل شام کی تحریک اور جدو جہد کو جانچئے ان کی تحریک درست قرار پائے گی ۔ پہلے جمہوریت کولیجئے جسے ہم روح عصر کہہ سکتے ہیں ۔ روح عصر ابراہم لنکن کی زبان میں یہ ہے کہ حکومت عوام کی ہو عوام کے ذریعہ ہو اور عوام کے فائدہ کے لئے ہو ۔ اور شام میں نہ تو حکومت عوام کی ہے اور نہ عوام کے ذریعہ قائم ہوئی ہے اور نہ عوام کے فائدہ کے لئے ہے ۔ یہاں حکومت صرف بشار الاسد اور اس کے قبیلہ کے فائدہ کے لئے ہے اور اس کے باپ کے استبدادی نظام کے ذریعہ قائم ہوئی ہے اور یہ عوام کی حکومت بالکل نہیں ہے ۔ اب اگر عصر حاضر میں روح عصر تک پہونچنے کیلئے شام کے عوام پر امن مظاہرے کرتے ہیں تو کیا غلط کرتے ہیں ۔ یہ واضح رہے کہ ابتدا میں مظاہرے مکمل طور پر پر امن تھے جب ان مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں اور بغاوت شروع ہوئی اور شام کی فوج سے ٹوٹ ٹوٹ کر لوگ باغیوں کی صف میں آنے لگے تو کچھ اسلحیٍ مخالفین کے ہاتھوں میں بھی پہوچنے لگے ہیں ۔ جمہوریت کے معیار پر شام کی حکومت پوری نہیں اترتی ہے وہاں حاکمیت عوام کی نہیں ہے وہاں مساوات نہیں ہے آزادی نہیں ہے انسانی حقوق نہیں ہیں انسانیت کا احترام نہیں ہے اس لئے ایسی حکومت کو زندہ رکھنا جمہوریت کی روح کو دفن کردینا ہے
اب دوسرا معیار لیجئے یہ معیار اسلام ہے ۔ اسلام کا اپنا نظام سیاسی عین جمہوریت تونہیں لیکن جمہوریت سے قریب ہے ۔ جمہوریت میں اقتدار اعلی عوام کو حاصل ہے اور اسلام میں خدا اور اس کے رسول کو ۔ اسلام کے سیاسی نظام میں کوئی حکمراں اگر اسلام کے خلاف کوئی بات کہے تو وہ قابل عزل ہو جاتا ہے یعنی اس کو معزول کیا جانا چاہئے ۔ شام کے بعثی حکمراں ہمیشہ ببانگ دہل اور ڈنکیُ کی چوٹ پر اسلام کے خلاف زہر افشانیاں کرتے رہیں ہیں ۔ شام کے حکمراں بشار الاسد کے حقیقی بھائی ماہر الاسد نے ایک بیان دیا تھا جسے کویت کے اخبار الوطن نے شائع کیا تھا ۔ ماہر الاسد نے کہا تھا کہ ہمارے باپ حافظ الاسد نے اس ملک میں حکومت طاقت کے زور پر حاصل کی تھی ۔ انہوں نے حکومت نہ تو عوام سے حاصل کی تھی اور نہ خدا سے ۔ اس لئے وہ نہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور نہ خدا کے سامنے ۔ بتائے کیا اس طرح کا عقیدہ رکھنے والوں کو اسلامی نظام میں حکومت کرنے کا ادنی درجہ کا بھی حق حاصل ہوسکتا ہے کیا ایسے فاسد نظام کے خلاف کھڑا ہونا اسلامی نقطہ نظر سے جہاد سے کم درجہ کی کوئی چیز ہے ۔الغرض اہل شام کا بشار الاسد کے خلاف کھڑا ہونا جمہوریت اور اسلام دونوں اعتبار سے درست ہے ۔قلم سے اور قدم سے شمشیر سے اور تدبیر سے ان کی اعانت سب پر فرض ہے ۔
راقم سطور نے اپنے ایک حالیہ مضمون ’’ باغ تعلیم میں ناانصافی کے درخت ‘‘ میں دہلی کے ایک پروفیسر پر تنقید کی تھی جو سیرین امبیسی شامی سفارت خانے کے ذریعہ سیر یا کی سیر کرکے آئے تھے ۔ اس سیر کے سرور میں انہوں نے یہ بیان دیا تھا کہ وہاں سب خیریت ہے اورراوی چین ہی چین لکھتا ہے وہاں ظلم کی داستان امریکہ کا پروپگنڈہ ہے ۔چونکہ وہ پروفیسر تھے اس لئے مضمون میں پروفیسر حضرات جو بے ایمانیاں نا انصافیاں اپنے شعبہ میں امتحان کی کاپیوں میں اور داخلہ کے ٹسٹ میں کرتے ہیں ان پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی ۔ ایسا لگتا ہے علم ودانش دریا برد ہے ۔ تنقید کسی ذاتی پرخاش کے نتیجہ میں نہ تھی ‘ وہ تحریر نہ تھی نوحہ تھا مرگ شرافت وعدالت کا اور اب نوحہ ہے اہل صحافت کی عقل وخرد کا ۔
بے دلی ہائے تماشہ کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہندوستان کی بہت سی تنظیمیں اصلاح معاشرہ کا کام کرتی ہیں انہیں نہیں معلوم کہ سکول اور کالج کیٍ اساتذہ کرام جنہیں خود صالح اور مصلح ہونا چاہئے تھا ان کا اپنا معاشرہ خودکس قدر اصلاح کا محتاج ہے اور کتنے دھبے ہیں ان کے دامن پر ۔ وہ رات دن ان نا انصافیوں کے مرتکب ہوتے ہیں جن کا علم باہر لوگوں کو نہیں ہو پاتا ہے طلبہ کے ساتھ نا انصافی کرکے وہ اخلاقی رفعت کے نہیں پستی اور دنائت کے نمائندہ بن جاتے ہیں ۔علم لے کر نہ سہی قلم لے کر کسی نہ کسی کو تو اساتذہ کے معاشرہ کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا چاہئے ۔ اسی طرح سے اہل قلم اور اہل صحافت کا معاشرہ خود بھی اصلاح کا محتاج ہے یہ وہ طبقہ ہے جس کے قلم سے جہان نو کی تعمیر اور افکار نو کی تعبیر ہوتی ہے اور جن کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں ان سے جرئات رندانہ کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے اسی طرح ان سے لغزش مستانہ بھی کبھی سرزد ہوجا تی ہے ۔ یہ مضمون فریضہ اصلاح واحتساب کو انجام دینے کے لئے لکھا گیا ہے ۔ کاش قلم میرے ہاتھ میں چراغ ہو ۔ قلم میں تاثیر اور چراغ میں تنویر ہو ۔ یہ صرف عطیہ ربانی سے ہوسکتا ہے ۔ اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 
Top