بازیافت
بازیافت
ہمارے ارد گرد مسلسل شکست و ریخت کا عمل جاری ہے- تہذیبی، ثقافتی، سماجی، مذہبی اور سیاسی قدروں کی توڑ پھوڑ نے ہماری ذات کی اکائی کو بھی توڑ کر رکھ دیا ہے- ہم زندگی کے ان گنت خانوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں- ہمارا سفر مرکزیت سے لامرکزیت کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس میں ہم نے اپنے بے ڈھب قدموں سے اتنی دھول اڑائی ہے کہ ہمارے پیچھے چلنے والے تو بے چارے راہ ناآشنا ہو ہی چکے ہیں، ہمیں خود اپنی پہچان نہیں رہی- اور اب ہم شاید ایسی جگہ پہنچ چکے ہیں، جہاں سے ہمیں خود سے آگے جانے والے قافلوں کا سراغ نہیں ملتا کہ ہم نے اپنے بے ڈھب سفر کی دھن میں ان کے قدموں کے نشان مٹا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سو، اب ہم نے اپنی تساہل پسندی سے رفتگاں کی تلاش کا عمل ہی ترک کر دیا ہے-
بے مقصد سفر میں اٹھنے والا ہمارا ہر قدم ہمیں ایسے مقام پر لے جانا چاہتا ہے جو ہمارے تہذیبی و فطری مزاج کے یکسر خلاف ہے- اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہم اپنے آپ سے بغاوت کرکے ان سمتوں کے سفر پر آمادہ ہیں جن کا تعین ہماری ذہنی، تہذیبی اور سماجی شکست و ریخت سے ہوا ہے- یہ شکست و ریخت اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہمارا ادراک اس کی تیز رفتاری کو گرفت میں لانے سے قاصر ہے- ہم کبھی کبھی اس پہلو پر وجدانی طور پر محسوس کرکے آگے گزر جاتے ہیں اور کوئی چیز ہمارے ہاتھ آتے آتے رہ جاتی ہے- اور اگر کبھی گرفت میں آ بھی جائے تو ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہے- شاید ہماری مٹھیاں اپنے ہی نیزوں سے چھلنی ہو چکی ہیں-
یوں لگتا ہے کہ ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ کے اصول پر کاربند ہو کر ہم نے خود کو بادبانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے- ہم میں اب وہ دم خم نہیں رہا کہ سمندروں کے سینوں کو چیریں اور صحراؤں کی دھول چھان کر کوہ ندا کی خبر لائیں کہ ہم نے دوسروں کے لیے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا چھوڑ دیا ہے-
اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کے کھاتے میں ڈال دینا بہت آسان ہے، اور اپنی خامیوں پر نظر رکھنا اور اس کے اسباب و محرکات کو کھوجنا مشکل ترین امر ہے- یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارے اندر دریافت کا عمل شروع ہوگا---- لیکن ہم نے یہ عمل چھوڑ دیا ہے- یہ عمل ذات کے حوالے سے ہو یا اشیائے عالم کے حوالے سے، اس میں جگر کا خون پانی ہو جاتا ہے اور آنکھ کی بینائی زائل ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے- کبھی کبھی --- کبھی کبھی نہیں بلکہ اس عمل میں اکثر خود کو گم کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر اپنی دریافت کا سفر شروع ہوتا ہے اور پھر یہ سفر، اگر ارادے توانا ہوں تو اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک سینوں میں جاری رہنے والا سانسوں کا سلسلہ ٹوٹ نہ جائے اور آدمی بے دم ہو کر نہ گر جائے-
بازیافت کا عمل شاید دریافت کے عمل سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ یہ عمل زندگی کی سچائیوں کو ہمارے سامنے آئینہ کر سکتا ہے جب کہ ہمیں ان سچائیوں کو محسوس کرنے سے خوف آتا ہے- اس لیے ہمیں کہانیوں پر زیادہ یقین ہے حالانکہ کہانیاں بھی انھی سچائیوں سے جنم لیتی ہیں ، لیکن کہانیاں ہمیں محض اس لیے اچھی لگتی ہیں کہ ہمارے اندر بسنے والا طلسم ان کی طلسماتی فضا کا اسیر ہے اور خواب نگر کے رہنے والے شہزادے کی خواہشوں کو باب تکمیل کی تسخیر میں ہمکنار دیکھنے کا آرزو مند--- اس طلسماتی فضا میں خواب نگر کے اس شہزادے کے طویل اور جانکاہ سفر میں ہم اس کی کامیابی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اس کا ہم سفر ہونا ہمارے بس میں نہیں کہ یہاں پھر وہی خوف ہماری رگیں کھینچنے لگتا ہے --- اعتبار اور بے اعتباری کے درمیان کا خوف --- ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں اترنے والی بے سمتی کا خوف- اس خوف نے ہم پر لرزہ طاری کر رکھا ہے- مخالف سمتوں سے آنے والا لشکر ظلمات ہمارے دل کی سرحدوں پر آ بیٹھا ہے اور ہم کچھ ہونے سے پہلے ادھ موئے ہو چکے ہیں---ہمیں کچھ نہیں سوجھتا --- ہمیں کچھ نظر نہیں آتا-
مگر اس کے باوجود آخر وہ کیا ہے؟ جو ہم نے دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں- وہ سب کیا ہے؟ جو ہم نے سنا اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں- سچائی کی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ ہمارے اصل احساسات کا نمائندہ ہے- ہم جو کچھ لکھنا چاہتے ہیں، جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، یہ اس کو اپنی میزان میں تول کر تخلیق کے سانچے میں ڈھالتا ہے، اور تب ہم پر اپنی تلاش کا عمل آسان دکھائی دینے لگتا ہے- اسی لیے خود کو پا لینے کی جستجو میں انشراح ذات کا عمل وجود میں آتا ہے-
میرے خیال میں شاعری اسی انشراح ذات کا ذریعہ ہے، جس سے اپنی پہچان کا اصل سفر شروع ہوتا ہے اور ہم اپنی ذات سے لے کر اپنے چارسو کی تلخ و شیریں سچائیوں کو لمحہ لمحہ محسوس کرتے ہوئے زندگی آمیز حقیقتوں کا ادراک حاصل کرتے ہیں- اپنے جوہر خاص کی بازیافت کے لیے پہلے اپنی ذات ہی کا شعور ضروری ٹھہرتا ہے جو ہمیں لامرکزیت سے مرکزیت کی طرف لانے کا امکان پیدا کرتا ہے-
شاید اسی امکان کی تلاش میں آج سے بائیس سال پہلے میرا شعری سفر ایک خاموش اور تنہا مسافر کی طرح شروع ہوا- تاہم اس مجموعے میں جو کچھ شامل ہے، پچھلے دس سال کی غیر مسلسل تخلیقی کاوشوں کا انتخاب ہے- غیر مسلسل اس لیے کہ آج کا تخلیقی منظر نامہ تخلیق کے جن محرکات کا متقاضی ہے، اس سے میں اپنی کم آمیزی کے باعث اگرچہ صد فی صد الگ تھلگ رہا، تاہم غیر شعوری طور پر اس منظر نامے کے دل آویز عکس میری تخلیقی جہتوں پر اثر انداز ضرور ہوئے ہیں اور میں اپنے قافلے سے جدا ہو کر بھی فکری و ذہنی اعتبار سے اس کا ہم سفر رہا ہوں- اس ہم سفری میں ، میں نے کتنے پائیدار یا ناپائیدار نقوش تراشے ہیں، اس کا فیصلہ تو آپ کریں گے- میں تو صرف یہ کہوں گا کہ جو کچھ میں نے لکھنا چاہا، اسے اپنے دل کی آواز بنانے کی کوشش ضرور کی ہے ---فیصلہ تو آپ ہی نے کرنا ہے-
خالد علیم
6 جولائی 1991ء