شاعر ہے انسان نہیں ہے

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان دل کے اندر رکھتا ہے اور کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان چاہتے ہیں اپنے چاہنے والوں‌کو بتاے کچھ ایسی ہی باتیں میرے اور نوید صادق صاحب کے درمیان ہوئی

ہوا کچھ یوں کل میں‌گھر جا رہا تھا تو راستے میں میرے ذہین میں ایک شعر آیا کچھ اس طرح تھا

دیکھو کتنے خوش ہیں سارے
جنگل میں انسان نہیں ہے​
میں نے نوید صادق صاحب کو فون کر دیا اور پوچھا سر دیکھے یہ شعر وزن میں ہے کہ نہیں کیونکہ مجھے بحر کی سمجھ نہیں‌آ رہی تھی نوید صادق صاحب نے کہا ٹھیک ہے
میں نے پھر ان کو ایس ایم ایس کر کے کہاں میں اس پر غزل لکھنا چاہتاہوں
تو انھوں نے ایس ایم ایس کا جواب دیا اس میں کوئی حرج نہیں‌ہے‌آ لکھو اس کے بعد انھوں نے میرے حوالے سے کچھ شعر بنا کر مجھے ایس ایم کیے جو کچھ اس طرح تھے

آخر اس میں حرج ہی کیا ہے
خرم کچھ نادان نہیں‌ہے​
اس کے بعد پھر ایک شعر آیا

خرم کو تم اپنا کہہ دو
شاعرے ہے نادان نہیں ہے​
پھر اس کے بعد جو شعر آیا اس کو پڑھ کر مجھے اتنی ہنسی آئی کہ سب گھر والے میرے پاس آ گے اور کہنے لگے کیا پڑھ پڑھ کر ہنس رہے ہو پھر میں نے ان کو بھی سنا دیا کچھ اس طرح تھا ان کا ایس ایم ای

”اور یہ شعر میری طرف سے ہماری ہونے والے بھابھی کو سنانا“
خرم کو اپنا لو بھابھی
شاعر ہے انسان نہیں ہے​
ہا ہا ہا

اس کے فوراََ بعد نوید صادق صاحب کافون آ گیا اور ہم دونوں ہنستے رہے ۔

اس کے بعد ان کا ایک آخر شعر آیا

 

مغزل

محفلین
چونا کتھّا پان نہیں ہے
خرم کو پہچان نہیں ہے

پہلے میں بھی یہ سمجھا تھا
خرم میں کچھ جان نہیں‌ہے

غربت بھوک افلاس ہے ہرسو
کپڑا اور مکان نہیں ہے

جو میرے اجداء نے بنایا
یہ وہ پاکستان نہیں ہے

جیسا ہونا چاہیئے تھا
ویسا عالیشان نہیں ہے

بی بی بابا کا ہے بھیّا
میرا پاکستان نہیں ہے ۔

کپڑے کے بازار میں صاحب
کپڑے کا ہی تھان نہیں ہے

منھ ہے ناک ہے اور آنکھیں ہیں
لیکن ایک بھی کان نہیں ہے

گوبھی مرچی بینگن دال
کھا تو لوں پر نان نہیں‌ہے


ہہہہہہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
چونا کتھّا پان نہیں ہے
خرم کو پہچان نہیں ہے

پہلے میں بھی یہ سمجھا تھا
خرم میں کچھ جان نہیں‌ہے

غربت بھوک افلاس ہے ہرسو
کپڑا اور مکان نہیں ہے

جو میرے اجداء نے بنایا
یہ وہ پاکستان نہیں ہے

جیسا ہونا چاہیئے تھا
ویسا عالیشان نہیں ہے

بی بی بابا کا ہے بھیّا
میرا پاکستان نہیں ہے ۔

کپڑے کے بازار میں صاحب
کپڑے کا ہی تھان نہیں ہے

منھ ہے ناک ہے اور آنکھیں
لیکن ایک بھی کان نہیں ہے

گوبھی مرچی بینگن دال
کھا تو لوں پر نان نہیں‌ہے


ہہہہہہ


چلے مجھے اپنی غزل کے لیے اور قافے ملے گے ہیں ہا ہا ہا

بہت خوب جی کیا بات ہے آپ کی میں‌تو ساری رات بیٹھا رہا اور کچھ شعر ہی بنا سکا جس کو اصلاح سخن میں ارسال کر دیے ہیں
 
Top