شاعری میں عمل تسبیغ

آپ پتا نہیں کیوں اتنی مشکل مشکل چیزوں سے کام لیتے ہیں۔ کبھی تسبیغ، کبھی اذالہ۔ میں تو سب صورتوں میں ایک ہی حرف علت سے کام چلا لیتا ہوں!!!!

اجی حضور میری اتنی کہاں اوقات کہ آپ کی برابری کروں. :) عروضی بحث تھی تو ہم نے عروضی زبان میں جواب دے دیا ہے. ؛) باقی کام تو بنا عروض کے بھی چل جاتا ہے. :)
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اجی حضور میری اتنی کہاں اوقات کہ آپ کی برابری کروں. :) عروضی بحث تھی تو ہم نے عروضی زبان میں جواب دے دیا ہے. ؛) باقی کام تو بنا عروض کے بھی چل جاتا ہے. :)

بھائی ہم غریب بھی کیا کریں۔ اب ایک چیز آتی نہیں، تو اس میں کیڑے نکالنے کے علاوہ، اور کر بھی کیا سکتے ہیں!! بات ہے ذرا سوچنے کی!!!! آج ذرا مزاح کا موڈ ہے تو ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ ذرا پڑھیے میرا دو سطری تعارف یہاں۔
 
اس فقیر کی پوٹلی میں ایک نسخہ ہے، بلکہ ’’گدڑسِنگی‘‘ ہے۔

کسی بحر کا آخری رکن ہجائے بلند پر مکمل ہوتا ہو، تو اُس کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کا اضافہ یا کمی بلا اِکراہ جائز ہے۔
وتد مجموع: ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند کا مجموعہ ہوتا ہے، لہٰذا یہ گدڑسنگی تسبیغ اور اذالہ دونوں صورتوں میں یکساں کارآمد ہے۔

اصطلاحات کی افادیت کے پیشِ نظر اِس فقیر نے ایسی کمی کو ’’قلتِ صُغریٰ‘‘، اور ایسے اضافے کو ’’مدِ اصغر‘‘ کا نام دیا ہے۔
مزید تفصیلات پھر کبھی (موقع محل کے مطابق) سہی۔
 

متلاشی

محفلین
اس فقیر کی پوٹلی میں ایک نسخہ ہے، بلکہ ’’گدڑسِنگی‘‘ ہے۔

کسی بحر کا آخری رکن ہجائے بلند پر مکمل ہوتا ہو، تو اُس کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کا اضافہ یا کمی بلا اِکراہ جائز ہے۔
وتد مجموع: ایک ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند کا مجموعہ ہوتا ہے، لہٰذا یہ گدڑسنگی تسبیغ اور اذالہ دونوں صورتوں میں یکساں کارآمد ہے۔

اصطلاحات کی افادیت کے پیشِ نظر اِس فقیر نے ایسی کمی کو ’’قلتِ صُغریٰ‘‘، اور ایسے اضافے کو ’’مدِ اصغر‘‘ کا نام دیا ہے۔
مزید تفصیلات پھر کبھی (موقع محل کے مطابق) سہی۔
استاذ محترم ذرا وضاحت فرمائیں۔۔ یہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کیا ہوتا ہے ؟
 
استاذ محترم ذرا وضاحت فرمائیں۔۔ یہ ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کیا ہوتا ہے ؟
اس سے پہلے کہ استاد صاحب بتائیں میں بتادیتا ہوں تاکہ اگر میرے ذہن میں غلط ہو تو اس کی اصلاح ہوجائے۔
ہر وہ دو حروف جن میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو انھیں ہجائے بلند کہتے ہیں جیسے: اب سب جب کل لب دل سر۔
کسی بھی جملے میں ہجائے بلند کے علاوہ تمام حروف ہجائے کوتاہ کہلاتے ہیں جیسے: اسامہ میں الف اور متلاشی میں م اور ت۔
 
جواب نمبر 13 میں سید شہزاد ناصر صاحب نے 1 اور 2 کے اشاریے سے کام لیا ہے۔ 1 ہجائے کوتاہ ہے اور 2 ہجائے بلند۔ یہی اشاریہ محمد وارث صاحب کے ہاں مستعمل ہے۔ اس فقیر کے ہاں ہجائے کوتاہ (۰) اور ہجائے بلند (۱) ہے۔
سبب خفیف اور ہجائے بلند ایک ہی چیز ہے (پہلا حرف متحرک، دوسرا مجزوم یا ساکن: تب اُس دِن تینوں سببِ خفیف ہیں) ۔
سبب ثقیل دو ہجائے کوتاہ کا مجموعہ ہوتا ہے (دو متواتر حرف جو خواہ متحرک ہوں خواہ ساکن مگر سبب خفیف نہ بناتے ہوں)۔

تفصیل کے لئے ’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ ملاحظہ فرمائیے گا۔
بہت آداب۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
آپ پتا نہیں کیوں اتنی مشکل مشکل چیزوں سے کام لیتے ہیں۔ کبھی تسبیغ، کبھی اذالہ۔ میں تو سب صورتوں میں ایک ہی حرف علت سے کام چلا لیتا ہوں!!!!
لیکن حرف علت کا استعمال فقرے کے آخر میں کیونکر ممکن ہے؟؟؟؟؟؟
 
محترم جناب مزمل شیخ بسمل صاحب!
آداب عرض ہے۔
تسبیغ سے متعلق ایک سوال ہے۔
آپ نے بتایا:
تسبیغ در اصل عروض میں ایک "علت" کا نام ہے۔ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی سالم بحر کے آخری رکن یعنی "عروض" یا "ضرب" کے آخر میں اگر سبب خفیف (دو حرفی) ہو اس کے بعد ایک ساکن حرف کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
یاد رکھنے کی شرائط:
1۔ بحر اور ارکان سالم ہوں
2۔ آخری رکن سبب خفیف پر ختم ہوتا ہو۔ (وتد مجموع پر نہیں)
3۔ تسبیغ صرف آخری رکن پر کار آمد ہے، یا پھر مقطع بحور جو مثمن ہوں ان میں ہر دوسرا رکن تسبیغ کو ہضم کر سکتا ہے۔

نیز جناب وارث صاحب کی یہ بات پڑھی:
اس بحر کے وزن میں میں کچھ رعائیتیں اور اجازتیں دی گئی ہیں جس سے اس بحر کا حسن بہت بڑھ جاتا ہے اور ایک ہی بحر میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کے اور فصیح سے فصیح تر الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اجازتیں کچھ اسطرح سے ہیں۔
1- اس بحر یعنی خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع کو بحر خفیف مسدس کی ہی ایک اور مزاحف صورت 'خفیف مسدس مخبون محذوف' کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس بحر کا وزن 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' ہے (فعِلن میں ع کے کسرے یا زیر کے ساتھ)۔
2- ان دونوں مسدس بحروں یعنی مخبون محذوف مقطوع اور مخبون محذوف کے صدر و ابتدا (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے رکن اور دوسرے مصرعے کے پہلے رکن) اور عروض و ضروب (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے آخری رکن اور دوسرے مصرعے کے آخری رکن) میں ان اوزان کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔
اول۔ صدو ابتدا میں جو اس بحر میں 'فاعلاتن' ہے کو اس رکن کی مخبون شکل یعنی 'فعِلاتن' کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اور ایک شعر میں دونوں اوزان لا سکتے ہیں۔
دوم۔ عروض و ضروب میں جو اس بحر میں فعلن (عین کے سکون کے ساتھ) ہے کو فعِلن (عین کے کسرہ کے ساتھ) اور ان دونوں کی ہی مسبغ اشکال یعنی فعلان (عین کے سکون کے ساتھ) اور فعِلان (عین کے کسرہ کے ساتھ) کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔

نیز آپ نے بحور والی لڑی میں بتایا:
مربع اشتر مقبوض مضاعف: فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن
(اسے مربع مضاعف کرنے کی وجہ صرف دوسرا رکن مفاعلان مسبغ لانے کی اجازت کو برقرار رکھنا ہے)

میرا اشکال یہ ہے کہ اگر ہم تسبیغ کے لیے سالم رکن کی شرط لگاتے ہیں تو پھر "فاعلاتن مفاعلن فعلان" میں "فعلان" کیسے حاصل ہوا؟
اب
  1. یا تو تسبیغ کے لیے سالم رکن کی شرط نہیں ہونی چاہیے۔
  2. یا پھر خفیف میں فعلن سے فعلان اور ہزج مربع اشتر مقبوض مضاعف میں مفاعلن سے مفاعلان میں جو اضافہ ہورہا ہے اس کا کوئی اور نام ہے؟
  3. یا پھر کوئی اور بات جو میری سمجھ میں نہیں آرہی۔
رہنمائی کا منتظر ہوں۔
 
محترم جناب مزمل شیخ بسمل صاحب!
آداب عرض ہے۔
تسبیغ سے متعلق ایک سوال ہے۔
آپ نے بتایا:


نیز جناب وارث صاحب کی یہ بات پڑھی:


نیز آپ نے بحور والی لڑی میں بتایا:


میرا اشکال یہ ہے کہ اگر ہم تسبیغ کے لیے سالم رکن کی شرط لگاتے ہیں تو پھر "فاعلاتن مفاعلن فعلان" میں "فعلان" کیسے حاصل ہوا؟
اب
  1. یا تو تسبیغ کے لیے سالم رکن کی شرط نہیں ہونی چاہیے۔
  2. یا پھر خفیف میں فعلن سے فعلان اور ہزج مربع اشتر مقبوض مضاعف میں مفاعلن سے مفاعلان میں جو اضافہ ہورہا ہے اس کا کوئی اور نام ہے؟
  3. یا پھر کوئی اور بات جو میری سمجھ میں نہیں آرہی۔
رہنمائی کا منتظر ہوں۔

میری اپنی تحقیق آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ :)
بحر خفیف مسدس سالم کے ارکان:
فاعلاتن مستفعلن فاعلاتن
پہلا رکن سالم
دوسرا مخبون یعنی مُتَفعِلُن بوزن مفاعلن۔
تیسرا رکن فاعلاتن ہے جسے زحاف حذف سے فاعلا بوزن فاعلن بنایا جاتا ہے اور خبن سے الف ساقط کر کے فعِلا بوزن فعِلُن بنایا جاتا ہے۔
لیکن اگر اسی رکن یعنی فاعلاتن سے نون کو ساقط کردیا جائے اور ت کو ساکن کردیں تو فاعلات ت ساکن سے بوزن فاعلان بن جائے گا۔ اس عمل کو قصر کہتے ہیں۔ اور فاعلان کا الف خبن سے گر گیا فعِلان بچا۔ اس طرح بحر کا نام بحرِ خفیف مسدس مخبون مقصور ہوا۔ اس کا خلط خفیف مسدس مخبون محذوف کے ساتھ جائز ہے۔
 
آخری تدوین:
آگے آپ نے فرمایا:
" ہزج مربع اشتر مقبوض مضاعف میں مفاعلن سے مفاعلان میں جو اضافہ ہورہا ہے اس کا کوئی اور نام ہے؟"

مفاعلن اور مفاعلان کا مسئلہ سمجھ لیجئے۔
مفاعیلن سالم ہے۔ اس پر تسبیغ لگائیں گے تو مفاعیلان ہو جائے گا۔ اور اس پر جب قبض کا زحاف لگتا ہے تو پانچواں ساکن یعنی ی کو ساقط کردیا جاتا ہے۔تو مفاعلان ہوجاتا ہے۔
سمجھنے والی بات یہ ہے کہ زحاف ہمیشہ ایک ہی وقت میں مکمل رکن پر لگتا ہے۔ کبھی ایک کے بعد ایک نہیں لگتا۔
جیسے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فاعلاتن سالم پر پہلے حذف لگایا تو فاعلن ہوا۔ پھر اس پر اذالہ لگایا تو فاعلان ہوا۔ ایسا ممکن نہیں کہ یہ عروضی رویہ نہیں ہے۔ فاعلاتن سے فاعلان کا طریقہ اوپر بتایا گیا ہے۔
 

واسطی خٹک

محفلین
قصر کا کام ایسا رکن جو سبب خفیف پر ختم ہوتا ہو اسکے آخری ساکن کو ساقط کرکے اس سے ماقبل کو ساکن کرنا قصر کہلاتا ہے۔
نہ آئیں گے تری گلیوں میں نظر آج کے بعد
نہ رکھیں گے تمہاری ہم بهی خبر آج کے بعد

شعر غلط ہوگا یا صحیح
عمل تسبیغ کا استعمال کیا گیا ہے
جواب کا انتظار رہے گا
 
آخری تدوین:
نہ آئیں گے تری گلیوں میں نظر آج کے بعد
نہ رکھیں گے تمہاری ہم بهی خبر آج کے بعد

شعر غلط ہوگا یا صحیح
عمل تسبیغ کا استعمال کیا گیا ہے
جواب کا انتظار رہے گا


یہ شعر شروع سے ہی وزن سے خارج ہے۔
"نہ آئیں گے" کو فاعلاتن کے برابر کیسے باندھا ہے آپ نے؟
 
Top