شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ايک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ايک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا

جي مچلتا تھا ايک ايک شے پر مگر
جيب خالي تھي کچھ مول لے نہ سکا

لوٹ آيا لیے حسرتیں سینکڑوں
ايک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں

خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج ميلہ لگا ہے اسي شان سے

آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں

نارسائي کا اب جي ميں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں
(ابن انشاء)
 

سارہ خان

محفلین
ریت پر جو گھر بنائے ہم نے
ہوا کے ظلم آزمائے ہم نے
کتنی دفعہ یونہی مُسکرائے
کتنے غم یوں چُھپا ئے ہم نے
پیغامِ خوشی آئے ہمارے نام
غیروں کے پتے بتائے ہم نے
جب موت کی آہٹ سنائی دی
تو آس کے پنچھی اُڑائے ہم نے
نہ پُوچھ کہ خود ہمیں بھی خبر نہیں
تیرے خط کیوں جَلا ئے ہم نے
کانٹوں پر ہم نے ہاتھ رکھ دیا
دامن پُھولوں سے بچائے ہم نے
بس سُلجھانے کی کشمکش میں
مسئلے اور بھی اُلجھائے ہم نے
 

شمشاد

لائبریرین
ان کو سوچ میں گم ديکھ کر واپس پلٹ آئے
وہ اپنے دھيان میں بيٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو

جہاں تنہا ہوئے دل ميں بھنور سے پڑنے لگتے ہیں
اگرچہ مدتیں گزريں کنارے سے لگے ہم کو
 

شمشاد

لائبریرین
دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
مِلا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیئے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں یا آسماں کھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

یہ کس خوشی کی رُت پر غموں کی نیند آ گئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا

گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
اٹھو عمل کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
(ناصر کاظمی)
 

فرذوق احمد

محفلین
شمشاد بھائی بہت بہت شکریہ یہ بہت ہی اچھی غزل ہے

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دُشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا


گوکہ ساری غزل ہی بہت اچھی ہے میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں

شمشاد بھائی یہ شعر سنیں امید ہے آپ کو اچھا لگے گا ۔اس شاعر کے نام کا مجھے نہیں پتا

کیا غذب کے ہِجر کے دِن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں

اور ایک اور سنیں
جب بھی گلے ملتے ہیں دو بچھڑے ہوئے ساتھی
عدم“ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
farzooq ahmed نے کہا:
شمشاد بھائی بہت بہت شکریہ یہ بہت ہی اچھی غزل ہے

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دُشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا


گوکہ ساری غزل ہی بہت اچھی ہے میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں

شمشاد بھائی یہ شعر سنیں امید ہے آپ کو اچھا لگے گا ۔اس شاعر کے نام کا مجھے نہیں پتا

کیا غذب کے ہِجر کے دِن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں

اور ایک اور سنیں
جب بھی گلے ملتے ہیں دو بچھڑے ہوئے ساتھی
عدم“ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے

شکریہ کی کوئی بات نہیں فرذوق، میرے پاس لکھی ہوئی مل گئی اور میں نے پوسٹ کر دی۔

اور تم نے یہ جو شعر لکھا ہے :

کیا غذب کے ہِجر کے دِن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں

اس میں “ غذب “ لفظ صحیح نہیں ہے۔ یا تو یہ “ غضب “ ہے یا پھر “ عذاب “
ویسے مجھے یہ پہلا مصرعہ ہی گڑبڑ لگ رہا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین

تعلق تجھ سے اپنی جگہ برقرار بھی ہے
مگر یہ کیا کہ تیرے قُرب سے فرار بھی ہے

یونہی تو رُوح نہیں توڑتی حصارِ بدن
ضرور کوئی اپنا بادلوں کے پار بھی ہے

کرید اور زمیں ، موسموں‌کے مُتلاشی
یہی کہیں میری کھوئی ہوئی بہار بھی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
 

ظفری

لائبریرین

ٹُوٹ کر عہدِ وفا کی طرح
معتبر ہم رہے فردا کی طرح

شوقِ منزل تو بہت ہے لیکن
چلتے ہیں نقش کفِ پا کی طرح

دیکھ کر حال پریشاں اپنا
ہم بھی ہنس لیتے ہیں دُنیا کی طرح

اپنے دشمن سے ہوں واقف تابش
کسی دیرینہ شناسا کی طرح​
 

شمشاد

لائبریرین
درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے

دل میں ڈوبا ہوا جو نشتر ہے
میرے دل کی زباں نہ ہو جائے

دل کو لے لیجیئے جو لینا ہے
پھر یہ سودا گراں نہ ہو جائے

آہ کیجیئے مگر لطیف ترین
لب تک آ کر دعا نہ ہو جائے
(جگر مراد آبادی)
 

ماوراء

محفلین
سارہ خان نے کہا:
ریت پر جو گھر بنائے ہم نے
ہوا کے ظلم آزمائے ہم نے
کتنی دفعہ یونہی مُسکرائے
کتنے غم یوں چُھپا ئے ہم نے
پیغامِ خوشی آئے ہمارے نام
غیروں کے پتے بتائے ہم نے
جب موت کی آہٹ سنائی دی
تو آس کے پنچھی اُڑائے ہم نے
نہ پُوچھ کہ خود ہمیں بھی خبر نہیں
تیرے خط کیوں جَلا ئے ہم نے
کانٹوں پر ہم نے ہاتھ رکھ دیا
دامن پُھولوں سے بچائے ہم نے
بس سُلجھانے کی کشمکش میں
مسئلے اور بھی اُلجھائے ہم نے

:khoobsurat: :best:
 

ظفری

لائبریرین
نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کرتے تھے
وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے

آخرکار ہوئے تیری رضا کے پابند
ہم کہ ہر بات پر اصرار کیا کرتے تھے

اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں
لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے​
 

شمشاد

لائبریرین
درد اپناتا ہے پرائے کون
کون سنتا ہے اور سنائے کون

کون دہرائے وہ پرانی بات
غم ابھی سویا ہے جگائے کون​
 

حجاب

محفلین
ظفر ہم زندگی ہیں زندگی ایک بار ملتی ہے
اگر ہم مل جائیں تم کو تو پھر کھونا نہیں ہم کو
 

شمشاد

لائبریرین
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی

کیوں بڑھاتے ہو اختلاط بہت
ہم میں طاقت نہیں جدائی کی
 

ماوراء

محفلین

ہر سُو خیالِ یار کی چادر سی تان کر
تعمیر اپنے سر پہ نیا آسمان کر

آنکھوں پہ اعتماد کرو گے تو دیکھنا
پتّھر چنو گے ریذہء الماس جان کر

شاید وہ آسمان سے اُدھر بھی نہ مل سکے
اُس کے لیے کچھ اور بھی اُونچی اُڑان کر

اُس نے بھی جو سلوک کیا، عادتاً کیا
ہم بھی وہاں گئے تھے، کہا دِل کا مان کر

اپنے سوا کسے ہے خبر دردِ ہجر کی
یہ درد بھی ہماری زباں سے بیان کر

شاید اُداسیاں بھی تِرا دِل لبھا سکیں
صحرا پہ میرے شہر کا اِک دن گمان کر

محسن وہ شخص خواب نہیں ہے کہ محو ہو
اُس کو غزل سمجھ، اُسے وردِ زبان کر

محسن نقوی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top