شادی یا نکاح

یوسف-2

محفلین
بہت سے اہم قومی رہنما کہہ رہے تھے کہ شادی تو بس ایسی ہی سادگی سے ہونی چاہئے۔ یہ حضرات سید منور حسن کے صاحبزادے کی شادی کی تقریب میں شریک تھے۔ اس تقریب میں کھانے کے نام پر بس اللہ کا نام تھا۔ یعنی سادے سے بسکٹ اور جلیبی، ساتھ میں چائے ۔
سادگی کی حمایت کرنے والے کچھ تو دل سے یہ بات کہہ رہے تھے لیکن کچھ اس لئے کہ چلو اسی بہانے کمپنی کی مشہوری ہو جائے گی، لیکن ان لوگوں کے اپنے جشن ہائے شادی کیسے ہوتے ہیں۔ ایسے کہ ان کی وڈیو قارون اور ہامان دیکھیں تو اپنی ’’غربت‘‘ پر رو پڑیں۔ شادیاں کیا ہوتی ہیں، خرافات کا میلہ اور ظلم کی نمائش۔ ایک وفاقی وزیر نے اپنے بیٹے کی شادی کی تو اپنے گھر آنے والی ساری سڑک پر قبضہ کر کے اسے بقعۂ نور بنا دیا۔ کروڑوں کی رقم کھانے پر اور کروڑوں کی رقم سجانے پر اڑائی جاتی ہے۔ طرح طرح کی رسموں پر اتنی رقم لگا دیتے ہیں کہ ساری جمع کی جائے تو آئی ایم ایف کا قرضہ سود سمیت ایک ہی بار میں چکا دیا جائے۔ شادی کو چھوڑیئے، اب تو دعوت نامے ایسے ایسے بننے لگے ہیں ایک مزدور سارے مہینے کا محنتانہ اکٹھا کرے تب بھی ایسا ایک دعوت نامہ نہ خرید سکے۔ اور چراغاں کے ایسے ایسے ڈھنگ نکلے ہیں کہ لگتا ہے شیطانی ذہن نے دولت لٹانے کے بہانے ڈھونڈے ہیں۔ پھر ہوائی فائرنگ، ایک سے ایک شیطانی کام۔ جشن شادی کاہے کا ہوا، شغل شیطاں کا ہوا، اور یہی لوگ غریبوں کی مدد کی بات ہو تو جیب سے ایک دھیلہ نہیں نکالتے۔
ایک زمانہ تھا شادی گھروں میں ہوتی تھی، اس وقت زندگی کا طور کچھ الگ تھا اور مڈل کلاس کے مکان اتنے چھوٹے نہیں ہوتے تھے اور زمین کے اوپر ہی ہوتے تھے۔ ٹاوروں اور پلازوں کی شکل میں زمین و آسمان کے بیچ نہیں جھولتے تھے۔ گھروں کے صحن میں تقریب ہوتی تھی۔ پرانے ڈھنگ کی دعوت اب تو بھولے بسروں زمانوں کی بات ہو گئی اور کچھ خرافات نے اور کچھ عہد جدید کے لوازمات نے رنگ ہی بدل ڈالا۔ ارب پتی مراعات یافتہ طبقے اور اعلیٰ سرکاری افسروں کی، جن کی روزانہ ’’آمدنی‘‘ ان کی ماہانہ تنخواہ سے سوگنا زیادہ ہوتی ہے، تو بات ہی چھوڑیئے۔ مڈل کلاس بھی اپنی شادیوں پر اسراف کا وہ بازار گرم کرتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ جذبہ اسراف کی سیرابی کیلئے رسوم کا ایک انبار ہے، اور ان میں بہت سی تو برہمن کی بخشی ہوئی ہیں۔ تیل، مہندی اور ہلدی کے جلوس آ رہے ہیں، جلوس جا رہے ہیں۔ لباس کیلئے ایک سے ایک فیشن ہے، بچیوں کو اتنے ملکوں کے نام نہیں آتے جتنے فیشن ڈیزائنروں، بیوٹی پارلروں اور ٹیلر ماسٹروں کے یاد ہوتے ہیں۔ وہ بے تکلف گیت جو باپ تنہائی میں بھی نہیں سنتے تھے، اب ان کی بیٹیوں کی شادی پر جدید ساؤنڈ سسٹم پر بجتے ہیں، وہ بھی سنتے ہیں، ان کے سمدھی بھی، دلہا بھی اور دلہن بھی اور وہ بچے بھی جو ٹی وی اور بھارتی فلمیں دیکھ دیکھ کر اتنے پرم پرائی ہو چکے ہیں کہ بیاہ کو وواہ اور دلہا کو جیجا جی کہتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ نہ تو اگن جلی نہ پھیرے ہوئے اور نہ ہی پنڈت آیا، نہ ہی سواہا بواہا کا منتر پڑھا گیا، پھر شادی کیسے ہو گئی؟
علماء کرام کا کام کیا ہے، ظاہر ہے سیاست لیکن اسلام نے تو ان کے ذمے کچھ اور ہی ذمے داری لگائی تھی اور وہ تھی معاشرے کو ٹھیک کرنا، ان کا کام یہ بتانا تھا کہ شادی کا لفظ ہی غلط ہے، یہ نکاح ہے اور اسے دیسی زبان میں بیاہ کہا جاتا ہے۔ یہ ذمہ داری ہے، شادمانی کا جشن نہیں او رولیمے کا مطلب پیسہ ضائع کرنا ہے نہ نام بنانا۔ اس کا مطلب صرف لوگوں کو یہ اطلاع دینا ہے کہ یہ جوڑا ازدواجی بندھن میں پرویا گیا۔ یہ علماء چاہتے تو قانون بنوا سکتے تھے کہ ولیمے میں دو درجن سے زیادہ لوگ نہ آئیں اور جہیز اگر سنت ہے تو جتنا جہیز صاحبِ سنّتؐ نے دیا تھا، اسی کو ’’نصاب‘‘ بنا دیا جائے۔ یہ علماء لوگوں کو بتاتے کہ شادی پر ہوائی فائرنگ بھی گناہ ہے، چراغاں بھی ظلم ہے اور مہنگے کھانے دینا بھی خدا کی ناراضی مول لینا ہے اور مہنگے شادی کارڈ تو سراسر ’’ڈیول ورشپ‘‘ ہیں۔
امیر محلّوں کی بات کچھ اور ہے جہاں ہر کوئی کالے دھن کی نمائش کرنے کو صحت مند تفریح سمجھتا ہے۔ لیکن ملی جلی آبادی یا مڈل کلاس محلوں میں غریب گھرانے بھی ہوتے ہیں۔ وہاں نمودونمائش والی شادیاں دیکھ کر ان غریب افراد کے دل پر کیا گزرتی ہے؟ وہ دکھوں اور مایوسیوں کے اندھیروں میں اور زیادہ ڈوب جاتے ہیں پھر انہی گھرانوں کے کچھ بچے محرومیوں سے نجات کیلئے جرم کی راہ چن لیتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں شادی عیسائی اصولوں کے مطابق ہوتی ہے، بہت ہی مختصر طبقے کو چھوڑ کر جو بڑے بڑے کاروباری اداروں اور مافیاؤں کے سربراہوں پر مشتمل ہے، باقی سب لوگ چرچ میں ایجاب و قبول کرتے ہیں اور پھر ایک مختصر سی پارٹی جس میں قریبی رشتہ دار اور منتخب دوست ہوتے ہیں، کچھ کھانا، تھوڑی شراب اور موسیقی، بس! چراغاں، تیل، مہندی، مایوں‘ فائرنگ اور ایسی بے تحاشا دوسری خرافات کا کوئی تصور ہی نہیں۔ اور یہ تو کوئی وہاں سوچتا بھی نہیں کہ دولت اور تعلقات کی نمائش کرنی ہے۔ ہر معاملے میں یورپ اور امریکہ کو ماڈل بنانے والے شادی بیاہ میں بھارت کے برہمن کلچر کو پتہ نہیں کیوں ماڈل بنا لیتے ہیں۔ شاید یہ بھی برہمن کی بھاشا عرف امن کی آشا کے کھیل کا حصہ ہے۔
اللہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی مغفرت کرے اور ان کے درجات بلند کرے، بہت عرصہ پہلے انہوں نے اسلامی نکاح کو فروغ دینے کی مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے1980ء یا 1981ء میں شادی کی اصلاح کیلئے ایک انقلابی جہاد کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ وہ آئندہ کسی بارات میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ یہ ہندو رسم ہے۔ نیز وہ نکاح پر کھانے کی کسی دعوت میں بھی شریک نہیں ہوں گے کیونکہ سنّت صرف ولیمہ ہے اور نیز یہ کہ وہ نکاح کی ایسی کسی تقریب میں بھی شریک نہیں ہوں گے جو مسجد میں نہ ہو رہی ہو۔
یہ ایک بڑا جہاد تھا جس نے ان کے حلقے میں تو اثرات مرتب کئے لیکن عوام بالعموم بے خبر ہی رہے۔ آج بھی ان کے صاحبزادے حافظ عاکف سعید اس جہاد کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔ ایسا ہو سکتا تھا کہ دوسرے دینی قائدین بھی اس تحریک کو آگے بڑھاتے لیکن جو ہو سکتا تھا اور ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا۔ اب سید منور حسن نے جو مثال قائم کی ہے وہ انفرادی لگتی ہے۔ وہ اسے جماعتی بنا دیں اور دوسری دینی جماعتیں بھی اس تحریک کو چلائیں اور اعلان کریں کہ ان کے کارکن کوئی بارات لے کر جائیں گے، نہ نکاح پر کھانا دیں گے اور نکاح صرف مسجد میں ہو گا۔
ایسا کریں گے تو وہ اپنے منصب سے انصاف کریں گے لیکن بہت مشکل لگتا ہے کہ وہ ایسا کریں۔ بعض مذہبی رہنما تو شاید اس سے ناراض ہو جائیں کہ اکثر اوقات ان کی شبینہ ضروریاتِ خوردنی یہ شادیاں ہی پوری کرتی ہیں لیکن امید ہے کہ کوئی نہ کوئی مرد خدا ضرور اصلاح کا جھنڈا لے کر اٹھے گا، کیا پتہ مولانا طارق جمیل کا وعظ ہی کسی ایسے مرد میدان کو میدان میں لے آئے۔ لیکن کہاں، وہ تو خود ایسی شادیوں میں شرکت کرتے ہیں، اگرچہ تالیف قلوب کیلئے اور تبلیغ کا موقع سمجھ کر لیکن شاید اب اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ اسراف سو معاشرتی اور روحانی بیماریوں کی ماں ہے۔ سو روگ کی ایک ہی کالی ماتا، اس سے مُکت ہونا پڑے گا۔
(تحریر:عبداللہ طارق سہیل ۔روزنامہ نئی بات۔ 30 دسمبر 2012)
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں، پہلے تو جہیز کی لعنت ہی کم نہ تھی اب ایسے ایسے ڈھنگ نکل آئے ہیں کہ بیان کرنے مشکل ہیں۔
 
Top