سیٹھ پاپڑ والے کی تجوری
فرزانہ روحی
"بہت پاپڑ بیلے ہیں، جب جاکے یہ تجوری بھری ہے۔" یہ وہ جملہ تھا جو سیٹھ پاپڑ والے بات کے آخر میں کہتے۔ بات کسی بھی موضوع پر ہوتی، اس کا آغاز وہ احتتام کسی بھی انداز میں آخری جملہ وہ یہی کہتے: " بہت پاپڑ بیلے ہیں، جب جاکے یہ تجوری بھری ہے۔" تجوری کتنی بھری ہے کوئی نہیں جانتا تھا اور نہ کسی نے تجوری کو دیکھا تھا سوائے ان کی بیگم کے۔
محلے کی عورتیں کبھی کبھار تجوری کی سن گن لینے کی کوشش بھی کرتیں یا سیٹھ جی کی تجوری کے بارے میں پوچھتیں تو ان کی دور اندیش بڑی رازداری سے جواب دیتیں: "اے کیا بتاؤں تجوری میں کیسے کیسے بیش قیمت لعل و جواہر بھرے ہیں۔ آخر بھریں کیوں نا، ہماری منی اکلوتی اولاد۔ سب کچھ اسی کا ہی تو ہے۔"
پھر وہ کہتیں: " اے بہن! کسی کو بتانا نہیں۔ تم سے اپنے دل کا راز کہہ دیا ہے، تمھیں اپنا سمجھ کر۔ سیٹھ جی کو پتا چلا تو بہت ناراض ہوں گے۔"
سیٹھ جی کی گھر کے قریب ہی پاپڑ کی دکان تھی۔ وہ کئی برسوں سے پاپڑ کا کاربار کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاپڑ بنانے کے تمام نسخے بھی جدی پشتی ہیں۔ اللہ نے سیٹھ جی کو بڑی منت مرادوں بعد بیٹی سے نوازا تھا، جو دیکھنے والوں کو کسی طرح بھی سیٹھ جی کی بیٹی نہیں لگتی تھی، اس لیے کہ سیٹھ اور ان کی بیگم سرخ و سفید رنگت کے تھے، جب کہ بچی کی رنگت کالی تھی اور قد بھی چھوٹا تھا۔ صحت ہونے کی وجہ سے دیکھنے والے سے اسے پیٹھ پیچھے "فٹ بال" کہتے تھے۔ تب سیٹھ جی بڑے دکھی ہوتے لیکن جلد ہی خود کو سنبھالے لیتے اور شکر ادا کرتے کہ وہ صاحب اولاد تو ہیں۔ منی کو چاند کا ٹکڑا قرار دیتے، اس کو تعلیم و تربیت، علم و ہنر میں یکتا بنانے کی منصوبی بندی کرتے رہتے۔