سیما غلام رضا رند دختر غلام رضا رند زوجہ غلام حیدر جاکھرانی اور سیما زوجہ سچن مینا کی کہانی اور اس سےآپ نے کیا سیکھا؟؟؟

2002 میں کوٹ ڈجی قلعے اور کھجوروں کے لئے مشہور ضلع خیر پور میں پیدا ہونے والی سیما رند جو رند بلوچ قبیلے کے غلام رضا رند اور زرینہ کے گھر میں پیدا ہوئی ۔ علاقہ غریب کسانوں کا تھا ۔ سیما رند کا بچپن یقینا غربت اور مسلسل جدو جہد کے ماحول میں گزرا ۔ بچی پیدا تو ہو گئی لیکن نہ تو کسی قسم کی دینی تعلیم کا گھر میں گزران تھا نہ دو چار جماعت سے زیادہ اسے دوسری تعلیم ہی دلائی گئی ایسے میں شخصیت کیا بنتی؟ غلام حیدر جاکھرانی نامی ایک نوجوان سے دل لگ گیا اور نتیجے میں دوہزار چودہ میں بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر آنے والی سیما غلام رضا کی شادی عدالت میں غلام حیدر جاکھرانی سے ہو جاتی ہے ۔ گاؤں سے دونوں میاں بیوی کراچی منتقل ہو جاتے ہیں جہاں غلام حیدر جاکھرانی کے اہل خانہ و خاندان رہتے ہیں ۔ گلستان جوہر کراچی اور رند حاجانو ، تحصیل کوٹ ڈجی ، ضلع خیر پور کے ماحول میں فرق ، دین سے لاعلمی ، خاندانی تانے بانے پرمشتمل ایسے نظام کا عدم وجود جو اخلاقی یا معاشرتی یا مذہبی تربیت کر پاتا ایک ایسا خلا پیدا کر دیتا ہے جو کسی سانحے کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے ۔ نہ خود کبھی نماز پڑھی نہ کسی کو پڑھتے دیکھا ، نہ کسی نے پڑھنے کو کہا ۔ خاوند کے ساتھ الگ رہنے کی وجہ سے وہ معاشرتی دباؤ بھی موجود نہ تھا جو کسی طرح کی اخلاقی خرابی کی صورت میں اسے کوئی اور بہتر مثال دکھا سکتا ۔ اپنے خاوند سے اس کا لگاؤ اس قدر زیادہ تھا کہ تین برس میں چار بچے پیدا ہوگئے ۔ خاوند چوتھے بچے کی پیدائش سے کچھ پہلے سعودی عرب چلا گیا لہذا گھر میں موجود واحد نگران بھی سر پر نہ رہا اب سیما چوتھے بچے کی پیدائش کے بعد گھر میں اکیلی تھی ۔ آمدن کا مسئلہ بھی نہ تھا ۔ خاوند سعودی عرب سے پیسے بھیج رہا تھا ۔ گھر ان پیسوں سے بنا چکی تھی لیکن جس معاملے کی طرف کسی کی توجہ نہ جا سکی وہ اس کی اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کی خواہش اور ضرورت تھی ۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے خاوند کو کہا واپس آجاؤ ۔ پتہ چلا کرونا کی وجہ سے سفری پابندیوں کی وجہ سے سفر ممکن نہیں ہے ۔ادھر ادھر دوستیاں لگانے کی کوشش کی تو ہر دوستی لگانے والا ٹائم پاس کرنے اور مالی فوائد اٹھانے والا ملا ۔ جسم کی ضرورت پوری ہوتی تو وہی دوست عزت نہ دیتے جو اس ضرورت کو پورا کرتے ۔ کیوں سمجھتا سیما کی ضرورت کو کوئی ؟ اس دوران موبائل پر اشتہار چلنے پر انسٹال ہونے والی پب جی نامی گیم کھیلنا شروع کی اور پتہ چلا کہ اس میں تو لوگ ایک دوسرے سے باتیں بھی کر سکتے ہیں تو توجہ ہٹانے اور خود کو ذہنی طور پر مصروف رکھنے کے لئے لوگوں سے ہیلو ہائے شروع کی ، ایک شخص اچھا لگا جو لاہور سے تھا۔ سوچا عزت دے گا اس سے دوستی کی اور جب اپنے اس کے گھر جانے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے ارادے کو اس پر ظاہر کیا تو اس نے اپنی مجبوریاں سنا کر کنارہ کر لیا کون ہے جو چار بچوں کے ساتھ سیما کو عمر بھر کے لئے اپنائے ؟ غلام حیدر جو اس کا خاوند تھا وہ پیسہ کمانے میں مصروف تھا ۔ لیکن چار بچوں کے بعد شاید سیما کو وقت دینے کے لئے اس کے پاس وقت نہیں تھا ۔چلتے چلتے سیما کی ملاقات اسی گیم پلیٹ فارم پر سچن مینا سے ہوئی جس نے اسے عزت سے بلایا ، اسے عزت دی اور اس میں سیما کو اپنا وہ خلاء پر کرنے کا سامان نظر آیا جو غلام حیدر اسے نہ دے سکا تھا ۔ ٹی وی ڈراموں میں دیکھ دیکھ کر ہندوستان اور وہاں کے رسوم و رواج سے تعارف تو ہو ہی چکا تھا ۔ ڈرتے ڈرتے آخر پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن بچوں کو چھوڑنا بھی ممکن نہ تھا اور سچن کی حقیقت سے آگاہی بھی نہ تھی۔ پتہ چلا ہندوستان کا ویزہ ملنا آسان نہیں ہے یو ٹیوب پر ڈھونڈا اور بذریعہ نیپال ہندوستان بارڈر کراسنگ کا رسک لینے کا سوچا۔ جب پہلے خود پاکستان سے نیپال جانے کا فیصلہ کیااور بذریعہ امارات نیپال پہنچ گئی تو سچن کو براہ راست ملی اس نے نہ صرف بہت عزت سے برتاؤ کیا بلکہ اسے ایک ہفتے تک ایک شہزادی کی طرح رکھا ۔ اس دوران اس کی زندگی میں جو خلا غلام حیدر کی عدم موجودگی کی وجہ سے موجود تھا اسے سچن نے نہ صرف اچھی طرح پر کیا بلکہ اسے اس کے بچوں سمیت اپنانے کا بھی اقرار و پیمان کر لیا اور سیما سے مقامی مندر میں ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی کرلی اور نیپال سے اپنے نئے مستقبل کے گھر تک پہنچنے کا مکمل راستہ ، طریقہ اور راستے کے مسائل سمجھا کر واپسی کا قصد کیا۔ اب سیما کے سامنے ایک مقصد تھا جو اپنے بچوں کو ساتھ لے کر واپس نیپال پہنچنے کا قصد کیا جائے ۔ اس کے مطابق غلام حیدر سے شادی ختم کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا ۔ اور سچن ہندو تھا جس سے شادی کے لئے نہ تو اسے غلام حیدر سے طلاق لینی پڑتی نہ واپس پاکستان جانا پڑتا اور وہ دونوں ہنسی خوشی ہندوستان میں رہتے اپنی زندگی گزار دیتے ۔ سیما واپس پاکستان آتی ہے اور غلام حیدر کی کمائی سے بنا ہوا گھر جو اس (سیما) نے خریدا تھا بارہ لاکھ میں فروخت کر دیا بچوں کو ساتھ لے کر بذریعہ دبئی دوبارہ نیپال پہنچ گئی اور سچن کے بتائے ہوئے راستوں اور طریقوں سے اس تک پہنچ گئی ۔ یہ تو تھا وہاں تک پہنچنے کا قصہ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب میڈیا ، یو ٹیوب اور اخبارات کے توسط سے ہم تک پہنچ چکا ہے۔
ا یاد رہے کہ اس گفتگو میں مذھبی /وطنی /ملکی حیثیت کی بحث ہی نہیں ہے کیوں کہ
(1) اگر سیما کے لئے مذہب کی کوئی اہمیت ہوتی تو وہ اسلام ترک ہی نہ کرتی اور یہ سب قصہ شروع سے جنم ہی نہ لیتا ۔
(2) انسانی جذبات میں پاکستانیت کوئی ایسا فیکٹر نہیں ہے کہ کسی انسان کو دوسرے انسان سے محبت کرنے سے روک سکے یا اس سے تعلق رکھنے نہ رکھنے کی وجہ ہو سکے ۔
(3) کاغذات میں پایا جانےوالا فرق مختلف وجوہات کی بناء پر ہو سکتا ہے ۔ عدالتوں میں جھوٹے بیان حلفی داخل کیئے جانے ممکن بھی ہیں اور ایسا ہوتا بھی ہے لہذا اس بات پر بحث کہ وہ انیس سو ننانوے میں پیدا ہوئی یا دو ہزار دو میں اس مسئلے کی انسانی حیثیت میں کوئی کمی یا اضافہ نہیں کرتا۔
_________________________________________________________________________________________________________________________________________________________

1۔ کیا سیما کی جسمانی ضرورت سمجھنا اور اس کا خیال رکھنا غلام حیدر کی ذمہ داری نہیں تھی ؟؟ اور کیا اس سب میں انسانی نقطہ نظر سے صرف سیما ہی قصور وار ہے؟
2۔ کیا اس مسئلے کو ملکی یا مذہبی غیرت کا رنگ دینا کسی طرح بھی مناسب عمل ہے؟؟ اس سے مذہب یا ملک کا کیا فائدہ ہوگا یا نقصان ہوا جس کا دکھڑا رویا جائے ۔؟
3۔ اس کہانی میں جو انسانی کوتاہیاں نظر میں آتی ہیں ان کو آپ کیسے شناخت کرتے ہیں اور ان سے اپنی زندگی یا زیر اثر معاشرے میں بچنے کے لئے آپ کیا راہ عمل تجویز کرتے ہیں۔ ؟
4۔سیما کی لاعلمی/جہالت یا انسانی جبلت کے مطابق اس ساری کہانی سے آپ نے کیا سیکھا؟؟

سیما /سچن/غلام حیدر کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس مسئلے کو خالصتا اپنے لئے ایک ٹسٹ کیس سمجھتے ہوئے آپ سے تجاویز اور آپ کی رائے کا سوال کیا جاتا ہے۔

تصاویر ساتھ لف ہیں
bihar-affidevit.jpg

90660ed71b.jpg

2023_7$largeimg_432416248.JPG


101500623.jpg


_130303865_330bf870-1b20-11ee-87d1-5feb7aae5bea.png
 

زیک

مسافر
یہ تو تھا وہاں تک پہنچنے کا قصہ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب میڈیا ، یو ٹیوب اور اخبارات کے توسط سے ہم تک پہنچ چکا ہے۔
محفل پر بھانت بھانت کے دنیا بھر سے لوگ ہیں۔ اس لئے یہ فرض نہ کریں کہ اکثر کو ان باتوں کا علم ہو گا۔
 

سید عمران

محفلین
۔ کیا سیما کی جسمانی ضرورت سمجھنا اور اس کا خیال رکھنا غلام حیدر کی ذمہ داری نہیں تھی ؟؟ اور کیا اس سب میں انسانی نقطہ نظر سے صرف سیما ہی قصور وار ہے؟
باقی کے سوالات اٹھتے ہی نہیں اگر بیوی کو شوہر کا ساتھ نصیب ہوتا...
شادی ہونے کے بعد جب خاندان بن گیا پھر اس سے دور رہنا بہت تکلیف دہ امر ہے...
خدا نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے یعنی وہ ایک دوسرے کی زندگی خوشگوار بنانے، زمانے کے گرم و سرد سے بچانے، ایک دوسرے کے عیبوں کی پردہ پوشی کا سبب بننے اور خامیوں کا مداوا کرنے کا باعث بنتے ہیں ...
لہذا حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں ورنہ دونوں ہی کے لیے پاکیزگی کے راستے سے بھٹکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں!!!
 
آخری تدوین:
Top