سید انصر (مت سمجھئے کہ پذیرائی بہت ملتی ہے )

مت سمجھئے کہ پذیرائی بہت ملتی ہے

مت سمجھئے کہ پذیرائی بہت ملتی ہے
سچ کہا جائے تو رسوائی بہت ملتی ہے

بزمِ احباب میں جانے کا سبب یہ بھی ہے
ایسی تقریب میں تنہائی بہت ملتی ہے

تجھ کو مرہم کی توقع ہے؟جہاں خلقتِ شہر
رستے زخموں کی تماشائی بہت ملتی ہے

اے حسیں شخص ادھر دیکھ کہ بیماروں کو
تیری آنکھوں سے مسیحائی بہت ملتی ہے

کیا ہی اچھا ہے اگرصاحبِ کردار بھی ہوں
جن کے اشعار میں دانائی بہت ملتی ہے

آنکھ ایسے کسی منظر سے جڑی ہے جس کو
دیکھتے رہنے سے بینائی بہت ملتی ہے

ہم پہ ان کی ہے نظر جن کی توجہ کے طفیل
سنگ ریزوں کو بھی گویائی بہت ملتی ہے

دوستو ! وردِ زباں رکھا کرو نامِ حسین
اس سے جذبوں کو توانائی بہت ملتی ہے

نسل در نسل صداقت کا صلہ ہے انصر
مجھ میں جو سطوتِ آبائی بہت ملتی ہے

سید انصر​
 
Top