سید الانبیاءﷺ اور قائدِاعظمؒ کا پاکستان

حسان خان

لائبریرین
اس کا واضح جواب قیام پاکستان سے پہلے کے مشہور علماء کے قیام پاکستان کی مخالفت سے حاصل کرنا بہت آسان ہے ۔

مودودی صاحب کا بنیادی اعتراض ہی لیگیوں پر یہ تھا کہ یہ مغرب زدہ لوگ اسلام کو دین ماننے کے بجائے مسلمانوں کو دوسری قوموں کی طرح ایک قوم مانتے ہیں۔ اس سے اس کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ اکثر لیگیوں کا مدعا مسلم قوم پرستی تھا، اسلام یا اسلامی جمہوریہ نہیں۔ ورنہ سر آغا خان مسلم لیگ کے پہلے صدر کیسے بن گئے؟ جب کہ آغا خانی اسماعیلی کسی شریعت کو مانتے ہی نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی اسلام اعتدال ، توازن اور امن کا دین ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے جو کہا وہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ فیصلہ آپ خود کر لیجیے کہ قائد اعظم کیا چاہتے تھے۔
یہ متن کتاب بعنوان "پاکستان بنانے کا مقصد ( افکار اقبال و قائد اعظم کی روشنی میں)" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری سے لیا گیا
محترم بھائی بے چون و چرا متفق کہ " افکار قائد " ایسے ہی روشن و واضح ہیں ۔
مگر کیا ان " افکار قائد "سے مراد " اک شدت پسند مذہبی ریاست پاکستان " لی جا سکتی ہے ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

الف نظامی

لائبریرین
محترم بھائی بے چون و چرا متفق کہ " افکار قائد " ایسے ہی روشن و واضح ہیں ۔
مگر کیا ان " افکار قائد "سے مراد " اک شدت پسند مذہبی ریاست پاکستان " لی جا سکتی ہے ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جب افکار قائد روشن اور واضح ہیں تو ہمیں ابہام کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ ہی ہے۔
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را
 

ساجد

محفلین
اگر یہ کالم نگار اوریا مقبول جان کی غفلت نہیں ہے تو یقینا ایڈیٹر کی غلطی سے کالم کے ابتدائی حصے میں ایک سنگین ابہام پایا جاتا ہے۔ جس میں قائداعظم سے منسوب بات میں کہا گیا ہے کہ وہ لندن سے ہی اسلامی مملکت کے قیام کا ہدف لے کر آئے تھے۔ حقیقت میں قائداعظم نے 1904 میں کا نگریس میں شمولیت اختیار کر لی تھی جو کہ ظاہر ہے کہ 1947 تک پاکستان کے قیام کی مخالف رہی۔ بلکہ مسلم لیگ بھی اپنے قیام سے ہی قیام پاکستان کا نظریہ نہیں رکھتی تھی یہ 1906 میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی اور 1940 تک یہ مسلم ہندو اتحاد کی کسی نہ کسی طور پر حامی تھی اور مسلمانوں کے لئے اقتدار میں منصفانہ حصے کے لئے کو شش کر رہی تھی ، لکھنؤ پیکٹ اور قائداعظم کے 14 نکات اس کی واضح مثال ہے۔ خود قائداعظم مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد بھی ہند و مسلم اتحاد کے حامی تھے تا وقتیکہ 1940 میں جب مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فاصلے عداوت کی شکل اختیار کر گئے تو مسلم لیگ نےباقاعدہ ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور منٹو پارک میں قرارداد پاکستان منظور کی۔ اگر فی الواقعی یہ امر کوئی وجود رکھتا کہ قائداعظم ایک الگ اسلامی مملکت کا کوئی خاکہ لے کر برطانیہ سے واپس آئے تھے تو آپ ہندوستان واپسی پر کانگریس میں شمولیت اختیار نہ کرتے کہ جو تقسیمِ ہند کی زبردست مخالف تھی۔
کالم کے شروع کا ابہام ہی بعد میں لکھی گئی باتوں کی بنیاد بنایا گیا ہے جو کم از کم میرے خیال میں بعد میں بیان کئے گئے واقعات کے اثر کو بھی کم کرتا ہے حالانکہ وہ باتیں بڑی اہم ہیں۔۔ ہمیں تاریخ اور مذہب پر لکھتے ہوئے انتہائی باریک بینی سے تحقیق کرنے کی عادت اپنانا چاہئیے تا کہ ہمارا لکھا دوسروں کی نظر میں معتبر ٹھہرے۔
 
Top