سید الانبیاءﷺ اور قائدِاعظمؒ کا پاکستان

باباجی

محفلین
جن لوگوں کے نام اس فہرست میں نہیں کیا وہ بھی رائے دینے کے حق دار ہیں :)
جی بالکل
فوراً میرے ذہن جو نام آئے وہ میں نے لکھ دیے
یہ اوپن فورم ہے
سب لوگ یہاں رائے دے سکتے ہیں
آپ بھی لوگوں کو یہاں انوائیٹ کر سکتی ہیں مس@صائمہ شاہ
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب حسب حال شراکت
اس کالم میں مندرج قائد کا فرمان

" دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں ۔ ہماری تہذیبیں بھی اک دوسرے سے الگ ہیں ۔ ہمارا دین صرف مذہبی اصولوں تک محدود نہیں ۔ بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جوزندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی اس ضابطہ حیات کے مطابق بسر کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہی مطالبہ پاکستان کی بنیاد ہے ۔"۔۔۔۔۔۔۔

اپنے لفظوں کے انتخاب سے یہ واضع پیغام دے رہا ہے کہ
پاکستان کوئی " مسلمانستان " نہیں بلکہ " مذہبی رواداری " کا حامل ا ایسا مقام ہوگا ۔ جہاں مذہب اسلام کے مسلمانوں پر واجب کردہ فرائض مسلمانوں پر لاگو ہوں گے ۔ اور اسلام کا مکمل ضابطہ حیات جو کہ " سلامتی " پر مبنی ہے وہ اس پاکستان کے ہر شعبے میں بلا تخصیص مذہب سب کی رہنمائی کرے گا ۔
اور ہم مسلمان اپنی پوری زندگی اس ضابطہ حیات کے مطابق بسر کرتے ہر انسان کے لیئے سلامتی کا پیغام پھیلائیں گے ۔ کسی پر کوئی جبر نہیں ہو گا ۔
پاکستان کا مطلب کیا " لا الہ الا اللہ " تو سن 70 کے بعد زبان زد عام ہوا ۔ اور " لسانی مذہبی فرقہ واریت " کے جن نے کھلے عام نظریئہ پاکستان کا قتل عام کیا ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
لیکن افسوس کے جو پاکستان ہم نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا تھا ہم آج میں دو سو کروڑ قومیں بن کر جی رہے ہیں ہندو تو مذہبی اعتبار سے چار قوموں تقسیم تھا مگر ہم نے اسلام کی بنیاد پر ایک الگ قوم ہونے کی حیثیت سے پاکتسان کو بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا
وائے افسوس کہ وہ ہندو تو آج بھی چار ہی قوموں میں منقسم ہے مگر ہم اب مسلمان سے پہلے پاکستانی پھر اس سے بھی پہلے سندھی ،پنجابی،پٹھان اور بلوچی اور پھر اس سے بھی پہلے سرائیکی ،پوٹھاری ،گجراتی ،ہزاروی اور پھر اس سے بھی پہلے توکون میں یہ وہ کون وہ ،وہ یہ کون یہ فلاں ہے تقسیم در تقسیم در تقسیم اس قدر تقیسم کے سارے پیمانے ہی ختم ہوگئے انا للہ وانا الیہ راجعون
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ بابا جی!
ایک زبردست تحریر شیئر کی ہے آپ نے۔ اس تحریر نے ”پاکستانیوں“ کو یاد دلا دیا کہ انہوں نے کس مقصد جلیلہ کے لئے پاکستان حاصل کیا تھا اور آج وہ کس مقام پہ کھڑے ہیں۔ اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا کرے۔ آمین
 

حسان خان

لائبریرین
"ہندو اور مسلم دو مخلف تہذیبیں رکھنے والی دو مختلف قومیں ہیں" کے نظریے کا لازمہ یہ تو نہیں بنتا کہ اس نظریے (مسلم قوم پرستی) پر حاصل کیے گئے ملک میں اسلامی نظام یا شریعت بھی نافذ ہو۔
 
میرا جی چاہ رہا ہے کہ 6 نومبر 2012 کے جنگ اخبار مین شائع ہونے والی ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر پیش کروں
بے چارہ اسلام...صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif


اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھوں تو اسلام سے بیزار، لبرل اور سیکولر حضرات ناراض ہوتے ہیں کیونکہ ان کاموقف ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ نہیں بلکہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے۔ اسلام کے ذکرسے وہ بظاہر اس لئے بدکتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق موجودہ دہشت گردی اسلام کی پیداوار ہے۔ اگر ان سے جواباً پوچھاجائے کہ حضور اگر اسلام نے دہشت گردی پیدا کی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ دہشت گردی اسلام کی صدیوں پرانی تاریخ میں کہیں نظر نہیںآ تی۔ خود پاکستان میں بھی یہ دہشت گردی گزشتہ دہائی ڈیڑھ دہائی پرانی ہے ورنہ آج سے دو تین دہائیاں قبل تو اس کا نام و نشان تک موجود نہ تھا۔ لوگ پرامن زندگی گزار رہے تھے اور احساس تحفظ کے فقدان کی پرچھائیں تک نہیں تھی حتیٰ کہ دہشت گردی کی پہلی لہر جو شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں ظاہر ہوئی وہ بھی 80کی دہائی کے نصف کا قصہ ہے۔ اگر موجودہ تشدد اوردہشت گردی قرار داد مقاصد کاشاخسانہ ہے تو قراردادمقاصد تو مارچ 1949 میں پاس کی گئی تھی۔ اس کا شاخسانہ 55برس تک کہاں سویا رہا؟ اس وقت دنیا کے نقشے پر 56 اسلامی ممالک موجود ہیں۔ ان ممالک میں اسلام نے دہشت گردی کیوں پیدا نہیں کی؟ ہاں اگر آپ دلیل دینے کیلئے اکا دکا واقعات کا ذکرکریں توایسے واقعات دنیا کے ہر ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے نہ امریکہ اور برطانیہ مبراہیں اور نہ سویڈن، ناروے، جرمنی جیسے مادرپدرآزادمعاشرے محفوظ ہیں۔ ان ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کااکثر اوقات مذہب سے تعلق نہیں ہوا بلکہ وہ اپنے معاشرے کے خلاف ردعمل کے زمرے میں آتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی دہشت گردی ہماری سیاست کاشاخسانہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگی میں بہت سے عوامل شامل ہوگئے ہیں۔ بعض معاملات خدائی مار تھے جن میں نائن الیون بھی شامل ہے۔نائن الیون میں ایک بھی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔ مصر، سعودی عرب کے علاوہ جن ممالک کے مسلمان کردار اس میں شامل تھے ان ممالک نے تو بہتر نظام اور موثر انتظامی مشینری کے ذریعے اس مسئلے پر خاصی حد تک قابو پا لیا ہے لیکن ہم مسلسل دہشت گردی کی لہر کاشکار بنے ہوئے ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہونے کی سزابھگت رہے ہیں ۔سزا دینے والے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ گاہیں ڈھونڈ لیتے ہیں اور کمزور انتظام اور کمزور صلاحیت کا فائدہ اٹھا کر دونوں ممالک کے درمیان آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ درست کہ دنیا بھر کے جہادی جنرل ضیاء الحق کے اسلامی عہد ِ حکومت میں یہاں تشریف لائے اور روسی فوجوں کوشکست دینے کے بعد ”غازی“ کے تمغے سینوں پر سجا کر یہیں آباد ہوگئے۔ان مجاہدین کی اکثریت کو ان کے اپنے ممالک نے واپس لینے سے انکار کردیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن جہادیوں کو ان کے پیدائشی ممالک نے واپس لینے سے انکارکردیا انہیں ہم نے نہ صرف مہمان بنا کر رکھ لیا بلکہ یہاں شادیوں اور کاروبار کی اجازت دے کر قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی جاری کردیئے۔ ہماری بعض عسکری خفیہ ایجنسیوں کاخیال تھا کہ یہ تربیت یافتہ جہادی جہاد ِ کشمیر کے لئے کام آئیں گے۔ ان ایجنسیوں نے ان کی سرپرستی کی۔ ان کو بہرحال یہ بھی کریڈٹ دیناچاہئے کہ انہوں نے پاکستان کیلئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ پاکستان میں وہ پرامن زندگی گزارتے تھے اور ان کی توجہ اگر کہیں تھی تو وہ مقبوضہ کشمیر کی جانب… چنانچہ اگر آپ بغور صورتحال کا مطالعہ کریں تو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتوں اورگروہوں کے مضبوط ہونے کے باوجود، فرقہ واریت کو ہوا دینے کے باوجود اور فاٹا میں مذہبی عناصر کے عزائم کے باوجود ان جہادی عناصر کارویہ پاکستان کی جانب دوستانہ اور ہمدردانہ تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ان علاقوں پر خصوصاً توجہ اور خصوصی نگاہ رکھی جاتی اور مذہبی شدت پسندی کو شروع ہی سے پھلنے پھولنے نہ دیاجاتا۔ مذہبی کرداروں کو ان آزاد علاقوں میں اپنی مذہبی دکانیں کھولنے، صفیں ترتیب دینے اور عسکری تربیت و اسلحہ فراہمی کی اجازت نہ دی جاتی بلکہ سختی سے اس چیلنج کو جڑ پکڑنے سے روکا جاتاجس طرح سعودی عرب، ترکی اور بعض دوسرے ممالک نے کیاہے لیکن ہماری نااہل اور کم نظرحکومتیں مصلحتوں کا شکار رہیں اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت کسی بڑے اقدام سے گریزاں رہیں۔ اندرہی اندر لاوا پکتارہا اور مقامی مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے ایجنڈوں کے تحت عسکری تنظیمیں قائم کرلیں۔ ملک بھر سے لوگ بھرتی ہوتے رہے، انہیں کیمپوں میں تربیت دی جاتی رہی، ان کی برین واشنگ کی جاتی رہیں اور ہماری حکومتیں اور ایجنسیاں صرف ِ نظر کامظاہرہ کرتی رہیں۔ آج جو بڑے بڑے مذہبی اورجہادی گروہ اورتنظیمیں پاکستان کو خودکش حملوں اور دہشت گردی کا ٹارگٹ بنا رہی ہیں، ان میں وہ جہادی کہاں ہیں جو روس کے خلاف جہاد کے لئے آئے تھے۔ ان کی بڑی اکثریت تو ہماری اپنی زمین، ماحول اور معاشرے کی پیداوار ہے۔ اب جن بوتل سے نکل کر خوفناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ کوئی طاقتور گروہ پاکستان کے اندر اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے تو کوئی اپنا نظام نافذ کرنا چاہتاہے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ عسکری تنظیمیں قائم ہو رہی تھیں، پروان چڑھ رہی تھیں اس وقت پاکستان کے حکمران کہاں تھے؟ جن اسلامی ممالک کے حکمران بیدارمغز تھے انہوں نے ان جراثیم کو پرورش پانے سے پہلے ہی کچل دیا۔
ماہرین جو جی چاہے کہتے رہیں اور اندرونی معلومات اور زمینی حقائق کا دعویٰ کرتے رہیں لیکن میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر نائن الیون کا سانحہ نہ ہوتا اور امریکہ افغانستان و پاکستان کے معاملات میں دخیل نہ ہوتا تو آج جس دہشت گردی سے ہم خوفزدہ ہیں اس کا وجود بھی نہ ہوتا۔ موجودہ دہشت گردی، خودکش حملے اورڈرون حملے نائن الیون کا تحفہ ہیں اور انہیں اسلام کے کھاتے میں ڈالنا یا قراردادمقاصد کاشاخسانہ قراردینا دین بیزار لبرل سیکولر دانشوروں کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے جو موجودہ افسوسناک صورتحال کافائدہ اٹھا کر دہشت گردی کواسلام سے وابستہ کرکے لوگوں کو دین سے بیزار کرنا چاہتے ہیں لیکن جب ناموس رسالت کے مسئلے پر کروڑوں مسلمانوں کوسڑکوں پر احتجاج کرتے دیکھتے ہیں تو ناکامی پر آنسو بہاتے اورقراردادمقاصد کا رونا، رونا شروع کردیتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ دہشت گردی خالصتاً سیاسی اور بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ ہماری سیاسی غلطیوں کا شاخسانہ اور حکومتی نااہلی یا بے عملی کانتیجہ ہے اور اس گھمبیر صورتحال اور بیرونی مداخلت سے فائدہ اٹھا کر کچھ مذہبی عناصراپنی اپنی دکانیں چمکارہے ہیں۔ افسوس جو مذہب محبت، بھائی چارے ، اخوت، امن، برداشت اور احترام انسانیت کا درس دیتا ہے اسے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ اس میں بیچارے مذہب کاکیا قصور؟ یہ تو ہے ان لوگوں کا ذہنی فتور۔
آخر میں جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ جب الطاف بھائی نے قائداعظم کو سیکولر قراردیا تو میں نے لندن جانے اور انہیں چند کتابیں پیش کرنے کاعندیہ دیا تھا۔میری طالب علمانہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ قائداعظم کے منہ سے کبھی سیکولر کالفظ نہیں نکلا البتہ انہوں نے کم از کم 125بار پاکستان کو اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا اور وضاحت کی کہ اس کا ہرگز مطلب مذہبی ریاست نہیں۔ میں نے بے شمارقارئین کے مشورے پر لندن جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ لوگوں کا خیال تھا یہ سعی لاحاصل ہے جبکہ میں مایوس نہیں۔ اب ایم کیو ایم ”قائد کا پاکستان یا طالبان کا“ پر ریفرنڈم کروارہی ہے۔ 19کروڑ میں شاید 19حضرات بھی طالبان کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قائداعظم سیکولر پاکستان چاہتے تھے یااسلامی، جمہوری، فلاحی پاکستان؟ اگر ریفرنڈم کروانا ہی ہے تواس موضوع پر کروائیں تاکہ عوام کی رائے کھل کر سامنے آسکے۔
بشکریہ: جنگ
 

الف نظامی

لائبریرین
"ہندو اور مسلم دو مخلف تہذیبیں رکھنے والی دو مختلف قومیں ہیں" کے نظریے کا لازمہ یہ تو نہیں بنتا کہ اس نظریے (مسلم قوم پرستی) پر حاصل کیے گئے ملک میں اسلامی نظام یا شریعت بھی نافذ ہو۔
براہ کرم ملاحظہ کیجیے فرمودات قائد

بہت خوب حسب حال شراکت
اس کالم میں مندرج قائد کا فرمان
" دونوں قوموں میں صرف مذہب کا فرق نہیں ۔ ہماری تہذیبیں بھی اک دوسرے سے الگ ہیں ۔ ہمارا دین صرف مذہبی اصولوں تک محدود نہیں ۔ بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جوزندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی اس ضابطہ حیات کے مطابق بسر کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہی مطالبہ پاکستان کی بنیاد ہے ۔"۔۔۔ ۔۔۔ ۔

اپنے لفظوں کے انتخاب سے یہ واضع پیغام دے رہا ہے کہ
پاکستان کوئی " مسلمانستان " نہیں بلکہ " مذہبی رواداری " کا حامل ا ایسا مقام ہوگا ۔ جہاں مذہب اسلام کے مسلمانوں پر واجب کردہ فرائض مسلمانوں پر لاگو ہوں گے ۔ اور اسلام کا مکمل ضابطہ حیات جو کہ " سلامتی " پر مبنی ہے وہ اس پاکستان کے ہر شعبے میں بلا تخصیص مذہب سب کی رہنمائی کرے گا ۔
اور ہم مسلمان اپنی پوری زندگی اس ضابطہ حیات کے مطابق بسر کرتے ہر انسان کے لیئے سلامتی کا پیغام پھیلائیں گے ۔ کسی پر کوئی جبر نہیں ہو گا ۔
پاکستان کا مطلب کیا " لا الہ الا اللہ " تو سن 70 کے بعد زبان زد عام ہوا ۔ اور " لسانی مذہبی فرقہ واریت " کے جن نے کھلے عام نظریئہ پاکستان کا قتل عام کیا ۔
براہ کرم ملاحظہ کیجیے:-
پروفیسر اصغر سودائی نے 1944 میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی، "ترانۂ پاکستان" اور یہ بے مثال مصرع اسی نظم کا ہے۔ آپ سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ پوچھتے تھے کہ، مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے۔ اور یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے اور اسی لیئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ "تحریکِ پاکستان میں پچیس فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے۔"
 

حسان خان

لائبریرین
قائد کے فرمودات پر بحث نہیں کروں گا، کیونکہ ان فرمودات کی فی الحال کسی مصدقہ ذرائع سے تصدیق میرے لیے ممکن نہیں۔

میرا سوال نظریے سے متعلق ہے۔ کیا مسلم قوم پرستی کسی 'اسلامی ریاست' یا شرعی نظام کی بھی متقاضی ہے کہ نہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
قائد کے فرمودات پر بحث نہیں کروں گا، کیونکہ ان فرمودات کی فی الحال کسی مصدقہ ذرائع سے تصدیق میرے لیے ممکن نہیں۔

میرا سوال نظریے سے متعلق ہے۔ کیا مسلم قوم پرستی کسی 'اسلامی ریاست' یا شرعی نظام کی بھی متقاضی ہے کہ نہیں؟
حسان خان آپ کا سوال ایک تضاد لیے ہوئے ہے ، مسلمان صرف اللہ کی پرستش کرتے ہیں ، “قوم پرستی“ کی اصطلاح پر غور فرمائیں۔
جہاں تک نظریے اور نظام و قانون کا تعلق ہے تو مسلمان کے لیے قرآن و سنت ہی نظریہ ، نظام اور قانون ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان خان آپ کا سوال ایک تضاد لیے ہوئے ہے ، مسلمان صرف اللہ کی پرستش کرتے ہیں ، “قوم پرستی“ کی اصطلاح پر غور فرمائیں۔

قوم پرست وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کے جداگانہ تہذیبی و تاریخی تشخص کی بات کرتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ مسلمان ہندو یا عیسائی سے تہذیبی طور پر مختلف ہے تو یہ مسلم قوم پرستی ہے، اسلام پرستی یا خدا پرستی نہیں۔

جہاں تک نظریے اور نظام و قانون کا تعلق ہے تو مسلمان کے لیے قرآن و سنت ہی نظریہ ، نظام اور قانون ہے۔

چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے نہ قرآن قانون ہے نہ ہی سنت، بلکہ وہ ان چیزوں کو مانتے ہی نہیں، لیکن وہ خود کو فخر سے مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں۔ بتائیے ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
قوم پرست وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کے جداگانہ تہذیبی و تاریخی تشخص کی بات کرتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ مسلمان ہندو یا عیسائی سے تہذیبی طور پر مختلف ہے تو یہ مسلم قوم پرستی ہے، اسلام پرستی یا خدا پرستی نہیں۔
میں آپ کی بات سمجھ گیا۔ آپ مسلم قومیت کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے قوم پرستی بمعنی پرستش مراد لیا تھا اور جب مسلم قوم پرستی کہا جائے تو متضاد بات بن جاتی ہے کہ مسلمان اور قوم کی پرستش۔

چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے نہ قرآن قانون ہے نہ ہی سنت، بلکہ وہ ان چیزوں کو مانتے ہی نہیں، لیکن وہ خود کو فخر سے مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں۔ بتائیے ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ان لوگوں کا معاملہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے اور وہی حکم یا فیصلہ فرما سکتا ہے۔ ہمارے ذمہ بات پہنچانا ہے ، منوانا نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم بھائی آپ کی فراہم کردہ معلومات بلا شبہ مصدقہ ہیں ۔ مگر میں نے جو سن ستر کے بعد اس نعرے کی زبان زد عام ہونے کی بات کی ۔ وہ اپنی جگہ حقیقت ہے ۔ قیام پاکستان سے پہلے بلاشک و شبہ یہ نعرہ مسلم لیگی جلسوں کے جوش و جذبہ ابھارنے میں دیگر سب نعروں پر بھاری رہتا تھا ۔ اور بے انتہا مقبول تھا ۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد اس نعرے کا دوسرا جنم " نو ستاروں کےقومی اتحاد " میں ہوا اور جلوسوں مظاہروں میں " نفاذ اسلام " کے نعرے ساتھ نوجوان نسل کی زبان پر گونجنے لگا ۔ اور ضیاءالحق مرحوم کی مرتب کردہ مسلم لیگ نے اس نعرے کو بھرپور طریقے سے کیش کروایا ۔ اور اس نعرے کو بنیاد بناتے " نفاذ اسلام " کے نام پر سن ستتر سے اٹھاسی تک " مذہبی شدت پسندی " کو تقویت دی گئی ۔ جنہیں بھٹو کے خلاف نکلنے والا پہلا مال روڈ کا جلوس یاد ہے ۔ وہ یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ مرحوم اصغر سودائی کی یہ نظم اس جلوس کا سب سے پرجوش حصہ تھی ۔
اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ قائد اعظم کے بارے یہ کہنا کہ آپ پاکستان کو اک شدت پسند مذہبی اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے ۔اس کا واضح جواب قیام پاکستان سے پہلے کے مشہور علماء کے قیام پاکستان کی مخالفت سے حاصل کرنا بہت آسان ہے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
محترم بھائی آپ کی فراہم کردہ معلومات بلا شبہ مصدقہ ہیں ۔ مگر میں نے جو سن ستر کے بعد اس نعرے کی زبان زد عام ہونے کی بات کی ۔ وہ اپنی جگہ حقیقت ہے ۔ قیام پاکستان سے پہلے بلاشک و شبہ یہ نعرہ مسلم لیگی جلسوں کے جوش و جذبہ ابھارنے میں دیگر سب نعروں پر بھاری رہتا تھا ۔ اور بے انتہا مقبول تھا ۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد اس نعرے کا دوسرا جنم " نو ستاروں کےقومی اتحاد " میں ہوا اور جلوسوں مظاہروں میں " نفاذ اسلام " کے نعرے ساتھ نوجوان نسل کی زبان پر گونجنے لگا ۔ اور ضیاءالحق مرحوم کی مرتب کردہ مسلم لیگ نے اس نعرے کو بھرپور طریقے سے کیش کروایا ۔ اور اس نعرے کو بنیاد بناتے " نفاذ اسلام " کے نام پر سن ستتر سے اٹھاسی تک " مذہبی شدت پسندی " کو تقویت دی گئی ۔ جنہیں بھٹو کے خلاف نکلنے والا پہلا مال روڈ کا جلوس یاد ہے ۔ وہ یہ تصدیق کر سکتے ہیں کہ مرحوم اصغر سودائی کی یہ نظم اس جلوس کا سب سے پرجوش حصہ تھی ۔
اور جہاں تک یہ سوال ہے کہ قائد اعظم کے بارے یہ کہنا کہ آپ پاکستان کو اک شدت پسند مذہبی اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے ۔اس کا واضح جواب قیام پاکستان سے پہلے کے مشہور علماء کے قیام پاکستان کی مخالفت سے حاصل کرنا بہت آسان ہے ۔
نایاب بھائی اسلام اعتدال ، توازن اور امن کا دین ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے جو کہا وہ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ فیصلہ آپ خود کر لیجیے کہ قائد اعظم کیا چاہتے تھے۔

آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا :-​
" مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا "​
6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:-
" وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت "

قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:-
" قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "

10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :-
" ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی"

1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :-
" اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے "

14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"

13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"

یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :-
" میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے "


مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا:-
" اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"

25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"

آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-
" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "

یہ متن کتاب بعنوان "پاکستان بنانے کا مقصد ( افکار اقبال و قائد اعظم کی روشنی میں)" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری سے لیا گیا
 

حسان خان

لائبریرین
میں آپ کی بات سمجھ گیا۔ آپ مسلم قومیت کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے قوم پرستی بمعنی پرستش مراد لیا تھا۔

قوم پرستی کو میں انگریزی کے nationalism کے متبادل کے طور پر استعمال کر رہا ہوں، میری اس لفظ سے مراد یہ نہیں کہ قوم پرست اپنی قوم کی پرستش کرتا ہے۔

ان لوگوں کا معاملہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے اور وہی حکم یا فیصلہ فرما سکتا ہے۔ ہمارے ذمہ بات پہنچانا ہے ، منوانا نہیں۔

الف نظامی بھائی، بے شک ان کے بارے میں اللہ ہی فیصلہ صادر کر سکتا ہے۔ میں صرف یہ اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ لازمی نہیں کہ مسلم قوم پرست مذہبی بھی ہو، نہ ہی یہ لازمی ہے کہ مسلم قوم پرستی کے نام پر لیے گئے ملک میں اسلامی نظام نافذ رہے۔
 
Top