سکوت - نزھت عباسی

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میری نیندوں میں اُجالے ہیں ترے خوابوں کے
دل میں گُلشن سے مہکتے ہیں تری باتوں کے

سرمئی شام میں رونق سی ہوئی جاتی ہے
قافلے گھر میں اُترتے ہیں تری یادوں کے

میرے ہونٹوں پہ سہی جبر پر اتنا تو بتا
باندھ کے رکھے بھلا کس نے یہ پر سوچوں کے

جانے کس کس سے ہیں آسودہ نگاہیں تیری
درمیاں میں تو نہیں شہر میں ان چہروں کے

جن کے لہجے میں کئی رنگ بدلتے ہی رہے
کیا رہیں گے وہی پابند کبھی وعدوں کے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دل میں تمہارے عکس ہمارا نہیں رہا
ہم کو بھی اب خیال تمہارا نہیں رہا

سود و زیاں کا دونوں کو رہتا رہا خیال
اپنی شکست میں بھی خسارا نہیں رہا

اک بار دیکھنے سے ہی بینائی چھن گئی
اچھا ہوا یہ جرم دوبارہ نہیں رہا

کچھ پر خلوص لوگ بھی راہوں میں مل گئے
رستہ تمہاری یاد میں سارا نہیں رہا

اب زندگی کو تیری ضرورت نہیں رہی
اچھا ہوا کسی کا سہارا نہیں رہا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پیروں میں ہیں زنجیریں ، ہیں لب پہ مرے پہرے
اک خواب تمنا کے ہیں زخم بہت گہرے

انجان نہیں لیکن یہ دوست نہیں میرے
میں ان کو سمجھتی ہوں پڑھ رکھے ہیں سب چہرے

طوفان سے کیا ڈرنا ، طوفاں ہی تو اپنا ہے
ساحل سے کہیں بہتر دریا یہ مرے گہرے

شاید کہ خریدے ہیں احباب نے سب میرے
اک روز نمائش میں رکھے تھے کئی چہرے

بینائی جو دی ہے تو کر چاک سبھی پردے
اس ایک تماشے پر کیا میری نظر ٹھہرے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
آپ جب ہم کلام ہوتے ہیں
حوصلے سب تمام ہوتے ہیں

زندگی کے ہزار ہنگامے
رات دن ، صبح و شام ہوتے ہیں

سب کو ہم ایک جا نہیں رکھتے
سب کے اپنے مقام ہوتے ہیں

یاد آتے ہیں کچھ کے کوشش پہ
کچھ کے ازبر بھی نام ہوتے ہیں

خاص ہوتی ہیں بعض باتیں ہی
ورنہ چہرے تو عام ہوتے ہیں

وہی ہاتھوں میں بھی پہنچ پائیں
گردشوں میں جو جام ہوتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس کا چہرہ کس قدر غم دیدہ تھا
دل تو اپنا بھی بہت رنجیدہ تھا

مل نہ پایا ایک بھی جس کا گواہ
جرم جو بھی ہو گیا پوشیدہ تھا

کون سنتا رمزِ بیداری کی بات
شہر کا ہر آدمی خوابیدہ تھا

وقت سے بھی جو سلجھ پایا نہیں
مسئلہ ایسا بھی کیا پیچیدہ تھا

ایک ہم ہی تو فقط روئے نہ تھے
جو بھی تھا اس شہر میں نم دیدہ تھا

رات کی تنہائی میں تھا خوف کیا
جسم کا اک اک رواں لرزیدہ تھا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہمارے واسطے گھر میں کہیں اماں بھی نہیں
کہ آستاں بھی نہیں کوئی آشیاں بھی نہیں

"کسے گواہ کروں کس سے منصفی چاہوں"
بجُز خدا کے میرا کوئی رازداں بھی نہیں

یہ میرے دردِ طلب کی ہے کون سی منزل
کہ یہ جہاں بھی نہیں اور وہ جہاں بھی نہیں

انہیں یہ شوق کہ ہر شے کو کر دیں خاکستر
میں خوش ہوں آج میرا کوئی گلستاں بھی نہیں

مقام وہ نہیں آیا کہ میں بھی سچ کہہ دوں
میں بے زباں سہی اتنی تو بے زباں بھی نہیں

تم اپنے قہر کو چاہے بڑھا بھی دو کتنا
یہ وقت اتنا کسی پر تو مہرباں بھی نہیں

روا ہے ظلم کی بستی میں زندگی کرنا
یہ جبرِ صبر نیا کوئی امتحاں بھی نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ان کے تیور بدل گئے ہوں گے
تیر و نشتر بدل گئے ہوں گے

ان کی نظروں کے اک بدلنے سے
کتنے منظر بدل گئے ہوں گے

اتنی مدت کے بعد جانا کیا
وہ گلی گھر بدل گئے ہوں گے

گردشیں ایک سی نہیں رہتیں
سارے محور بدل گئے ہوں گے

جو اُٹھاتے صلیب کاندھوں پر
ہاں وہی سر بدل گئے ہوں گے

اس نگر میں عجیب وحشت ہے
اب مرے ڈر بدل گئے ہوں گے

کر رہے ہوں گے اب بھی وہ سجدے
ہاں مگر در بدل گئے ہوں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ظلمتوں سے نکالتے کیسے
رنگِ ہستی اُجالتے کیسے

یہ بھی اِک پتھروں کی دنیا ہے
شیشہ دل سنبھالتے کیسے

اتنے راہوں کے پیچ و خم اُلجھے
ہم قدم کو سنبھالتے کیسے

ہر خوشی کو سنبھال کر رکھا
پھر اسے غم میں ڈھالتے کیسے

درد کوئی نیا تو دے جاتے
ایک ہی غم کو پالتے کیسے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بات کھونی ہے تو لب پہ بات کا لانا بھی کیا
تنگ جب گھر ہو گیا تو شہر میں رہنا بھی کیا

اب چلو چلتے ہیں ایسے جنگلوں میں جس جگہ
سوچتے رہ جائیں ایسی زیست کا کرنا بھی کیا

وصل کی ہے اب خوشی باقی نہ صدمہ ہجر کا
اب ترا آنا بھی کیا اور اب ترا جانا بھی کیا

خود ہی اپنے آپ کو تنہا نہ کر لینا کہیں
دل کی باتوں کو کسی کے سامنے کہنا بھی کیا

جو کھلے تھے واسطے تیرے محبت کے وہ در
ہو گئے ہیں بند ان پر دستکیں دینا بھی کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حکایتیں نہ داستاں ، بچا نہیں کوئی نشاں
انا کے کھیل میں دلوں کا ہو گیا بہت زیاں

نہ جانے بات کیا ہوئی جو آ گئی یوں درمیاں
کہ پھر کبھی نہ چُھٹ سکا غبارِ دل غبارِ جاں

کمالِ درد ہے مگر یہ خامشی عذاب ہے
ملا ہے ایسا غم جسے نہ کر سکیں کبھی بیاں

مُکر گیا تھا وہ تو یوں کہ بن گئی تھی جان پر
کہ مصلحت کے سامنے بدل گیا تھا وہ بیاں

مجھے لہُو رُلائے گی تمام عمر اک خلش
تجھے بھی یاد آئے گا رفاقتوں کا وہ سماں

کبھی تو تم بھی دیکھتے کبھی تو تم بھی سوچتے
یہ جان کیوں سُلگ اُٹھی یہ دل ہوا ہے کیوں دُھواں

جسے کہا تھا زندگی ، جسے کہا تھا ہے خوشی
وہ زندگی وہ اک خوشی نہ بن سکی قرارِ جاں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اپنوں میں مجھے کوئی بھی اپنا نہیں ملتا
اب درد تو ملتا ہے مسیحا نہیں ملتا

دیکھا ہے بہت غور سے ہر شخص کو میں نے
حیراں ہوں بھرے شہر میں تجھ سا نہیں ملتا

قدموں تلے جلتی ہوئی ریتلی زمیں ہے
تپتے ہوئے صحرا میں ہی سایا نہیں ملتا

ملنے کو تو ملتے ہیں کئی لوگ جہاں میں
دل جس سے ملے ایسا شناسا نہیں ملتا

ڈُوبیں تو اُبھرنے کی تمنا نہ ہو پیدا
ایسا بھی کسی ذات کا دریا نہیں ملتا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیا حسین یادیں تھیں ، کیا حسین باتیں تھیں
کیا عجیب سپنے تھے کیا عجیب راتیں تھیں

کیسا اک تماشا تھا آنکھ نے جو دیکھا تھا
جیت کس طرف کی تھی کس طرف کی ماتیں تھیں

کیسے فاصلے سارے اس طرح سمٹ جاتے
رنگ و نسل کی ساری درمیان ذاتیں تھیں

کیسے ان کو کہہ دیتے ، کیسے ان کو لکھ پاتے
جو چھپائی تھیں ہم نے راز کی وہ باتیں تھیں

ہر محاذ پر تنہا خود کو ہم نے پایا تھا
دشمنوں کی ہر جانب سو طرح کی گھاتیں تھیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شرار و برق سے ہم تو نئی بنیاد رکھیں گے
کہ خار و خس یونہی ہم کو سدا برباد رکھیں گے

نئی طرزِ ستم وہ بھی اگر ایجاد رکھیں گے
تو ہم اب کے نئی لے نالہ و فریاد رکھیں گے

ہمارے خوں سے لکھی جائے گی تاریخ گلشن کی
ہمیشہ یاد ہم کو دیکھنا صیاد رکھیں گے

رہے امید دل میں یہ بھی کیا ان کا کرم کم ہے
کبھی وہ لطف ہم پر اور کبھی بے داد رکھیں گے

قفس میں یہ نیا آئیں ہمارے بعد ہی ہوگا
کہ بلبل کو اسیری میں بھی وہ آزاد رکھیں گے

کہ سارے فیصلے اپنے انہیں کے ہاتھ میں ہوں گے
کبھی وہ شاد رکھیں گے کبھی نا شاد رکھیں گے

خزاں کا رنگ ہو گا کیوں بھلا فصلِ بہاراں میں
کہ دل کو ہم تری یادوں سے جب آباد رکھیں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ جو حادثوں سے سنور گیا
مرا دل بھی کیسے نکھر گیا

تری بات تھی تری یاد تھی
مرا دل جہاں میں جدھر گیا

کوئی خواب تھا کہ عذاب تھا
مری چشمِ تر میں اتر گیا

تری گفتگو میں وہ زہر تھا
ترا لہجہ دل میں اتر گیا

وہ جو ساتھ ہم بھی گذارتے
وہی وقت سارا گذر گیا

یونہی بے سبب تھیں مسافتیں
یونہی رائیگاں وہ سفر گیا

وہی لمحہ ایک جدائی کا
وہی آنکھ میں جو ٹھہر گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زیست سے ہم خفا نہ تھے ایسے
کبھی محوِ دعا نہ تھے ایسے

رو دیے کیسے بات بات پہ آج
ہم تو بے حوصلہ نہ تھے ایسے

دشت کی خامشی یہ کہتی ہے
پہلے گھر بے صدا نہ تھے ایسے

ڈوب جائیں ہماری سوچیں بھی
سیل دریا نما نہ تھے ایسے

خامشی مصلحت ہماری تھی
ویسے ہم بے نوا نہ تھے ایسے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کوئی خواہش کوئی حسرت بھی نہیں
زندگی تیری ضرورت بھی نہیں

بادباں کھول کے بیٹھے ہیں مگر
پار اترنے کی اجازت بھی نہیں

عشق کی آگ جلے بھی کیسے
جب کہ جذبوں میں حرارت بھی نہیں

لوگ ہنستے ہیں ہمارے غم پر
آپ کی اتنی عنایت بھی نہیں

درد اس درجے زیادہ کیوں ہے
اتنی تو ان سے رفاقت بھی نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
لکھتے ہوئے قلم بھی جو بے باک ہو گیا
پردہ ہی ان کے چہرے کا سب چاک ہو گیا

ہم حادثے کی زد سے تو محفوظ ہو گئے
اچھا ہے وقت پہ ہمیں ادراک ہوگیا

شیریں سخن کہا تھا جسے ہم نے بھی کبھی
اس کا بھی طرزِ گفتگو سفاک ہوگیا

آئی نہ راس اس کو نئی وضع بھی کوئی
خاکی تھا جسم آج وہی خاک ہو گیا

دل کو یہ آج کس کے دُکھوں نے رُلا دیا
کیسی وہ یاد تھی کہ جو غم ناک ہو گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وہ مجھ کو دھوپ میں اک سائبان گر دیتا
اذیتوں کا نیا کوئی پھر سفر دیتا

اُجالا جو مرے دل کی زمیں پہ کر دیتا
اک ایسا مہر ، اک ایسی بھی وہ سحر دیتا

نہ جانے کب سے یونہی پھر رہے ہیں رستے میں
کہ رہ نما کو کوئی جا کے یہ خبر دیتا

میں اس کو بھولنا چاہوں مگر بھلا نہ سکوں
مری دعاؤں میں یارب تو یہ اثر دیتا

یہ اک شجر جو مرے صبر کی علامت ہے
کبھی تو اس پہ بھی یارب کوئی ثمر دیتا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سارے چہرے سارے رشتے سارے در انجان ہوئے
ہم تو جیسے اپنے گھر میں آپ ہی اب مہمان ہوئے

سارے منظر چُپ چُپ ہیں اور ساری فضائیں ہیں خاموش
شہر کی ساری گلیاں سونی رستے سب سنسان ہوئے

ایک زمانے تک جو میرے زخموں کا ناسور بنے
وہی حوالے کیا اب میری ذات کی سب پہچان ہوئے

ریزہ ریزہ چُن چُن کر ہی جن کو ہم نے رکھا تھا
خوابوں کے وہ آنکھ دریچے یکدم ہی ویران ہوئے

زخم ہی مرہم بن جاتے ہیں جتنے زیادہ ہوتے ہیں
درد لگا کر دل سے رکھے درد ہی سب درمان ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دل کے زخموں کی ہے صورت کیسی
مل گئی ہے ہمیں دولت کیسی

غم ہی اک زندہ حقیقت اے دل
قصہ کیسا یہ حکایت کیسی

ہم بچھڑ جائیں تو اچھا ہی ہے
ساتھ رہنے سے محبت کیسی

تو نے منہ پھیر کے دیکھا بھی نہیں
آ گئی تجھ میں مروت کیسی

سانس لیتے ہوئے ڈر لگتا ہے
ہو گئی ہے مری حالت کیسی
 
Top