ابن آدم
محفلین
سوره الحجرات قرآن کی بہت ہی چھوٹی، جامع اور ایک عام مسلمان کی انفرادی اور ایک اسلامی معاشرے کے اجتماعی کردار کے لئے انتہائی اہم سورت ہے.لیکن قرآن کے ذریعہ پروپیگنڈا کرنے والوں نے اس سورت کو بھی نہیں بخشا.
سورت کا آغاز ہی مسلمانوں کو یہ حکم دے کر ہو رہا ہے کہ الله اور نبی کریم کے احکامات سے پیش قدمی نہ کرو اور اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے پست رکھو کہ کہیں تمھارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں. آگے پھر سورت مسلمانوں کو سماجی بیماریوں سے منع کر رہی ہےکہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو. تجسس نہ کرو. غیبت نہ کرو تو اس کی آیت ٦ میں ایک اہم بات ائی کہ اگر کوئی فاسق تمھارے پاس خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو.
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَ۔۔هَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ
اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو ، پھر تم کو اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔ (ترجمہ از مولانا وحید الدین)
اب اس آیت کے ساتھ ایک واقعہ/شان نزول اکثر تفسیروں میں ملتا ہے جس کی رو سے حضرت ولید بن عقبہ کو فاسق قرار دیا جاتا ہے. تفسیر تفہیم القرآن کے حاشیہ نمبر ٨ میں اتا ہے
اب یادرہےکہ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے اور جب جزیرہ نما عرب پر نبی کریم(ص) کی حاکمیت قائم ہو گئی تھی اور بڑی تعداد میں صحابہ کرام(رض) موجود تھے. آیت ٦کہتی ہے کہ جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے، نہ کہ جب کوئی شخص خبر لے کر آئے، یعنی ایک ایسا شخص جس کے فاسق ہونے کا کم ازکم کچھ لوگوں کو علم ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت ولید بن عقبہ واقعی فاسق تھے اور کچھ لوگوں کو معلوم بھی تھا تو پھر نبی کریم (ص) نے ان کو زکات کی وصولی کی ذمہ داری ہی کیوں دی؟ کیا اس وقت اور صحابہ کرام (رض) نہیں موجود تھے اور کیا الله کا حکم نہیں کہ لوگوں کو کام ان کی اہلیت کے حساب سے دو؟
اس واقعہ سےتو یہ لگتا ہے کہ نبی کریم (ص) نعوذ باللہ بغیر کسی اہلیت اور قابلیت کی جانچ پڑتال کے اور ان کے مزاج اور پرانے جھگڑوں کو جانے بغیر صحابہ میں کام تقسیم کر دیتے تھے؟ اور کیا نبی کریم (ص) کسی فاسق کو وہ بھی اس وقت جب ان کے پاس بہت سے صحابہ کرام موجود ہیں، زکات لینے بھیج سکتے تھے؟
دوسری طرف سورت کےعمومی مزاج کا تعین کیا جائےتواس میں تمام باتیں عام اور نئے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کی جارہی ہیں کہ گمان نہ کرو، نسلی تفاخر نہ کرو بدوؤں کو کہا جا رہا ہے کہ رسول کی فرمانبرداری کرو. جبکہ واقعہ تویہ بتا رہا ہےکہ نبی نے فوراً یقین کر لیا اور فوج کو تیاری کاحکم دے دیا یعنی واقعہ کی رو سے غلطی عام مسلمانوں کی نہیں بلکہ نعوز باللہ نبی کریم (ص) کی ہے .
مزید یہ کہ اگر ایسی کچھ غلطی ہوئی ہوتی تو الله کیا نبی کریم (ص) کو صحیح لوگوں کو صحیح کام پر معمور کرنے کا نہیں کہتے؟ کیونکہ زیادہ بڑی غلطی تو ایک فاسق کو زکات اکھٹا کرنے کے لئے چننا ہے. جب کہ آیت ایسی کسی بات کی طرف اشارہ نہیں کر رہی. بلکہ اس سے اگلی ہی آیت میں کہا جا رہا ہے کہ
"خوب جان رکھو کے تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ۔" یعنی الله کے نبی (ص) بہت سمجھ بوجھ اور حکمت کے ساتھ چلتے ہیں. جبکہ روایت اس کے بالکل برعکس نقشہ کھینچ رہی ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ روایت کیوں ائی؟
اسلام کی مخالفت کے لئے ایک گروہ نے حضرت عثمان اور بنو امیہ کو ڈھال بنایا. اب مقصد اسلام میں تفرقہ ڈال کر اس کو روکنا تھا. یاد رہے کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا اور ساسانیوں کی سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا اور ان کی اشرافیہ کی عیاشیوں اور قدرومنزلت تیزی سے گھٹ رہی تھی. تو وہ کھل کر اسلام سے لڑ تو سکتے نہیں تھے لیکن اسلام کو کمزور کرنے کے لئے فتنہ و فساد کا سہارا لے رہے تھے. کیونکہ اس وقت بنو امیہ کے پاس خلافت تھی تو ان کے لوگوں کے متعلق جھوٹی روایات بنا کر پھیلا دی جاتی اور اسلام کو کمزور کرنے کے لئے بغاوت اور حکمرانوں سے نفرت کو بڑھکایا جاتا.
بہت سےسادہ لوح مسلمان اس وقت بھی ان روایات میں بہک جاتے اور اب بھی بہک جاتے ہیں لیکن ان پر تھوڑے سے غور سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ من گھڑت تو ہیں ہی لیکن انکو ماننے سےانسان نعوذ باللہ نبی کی بھی تکذیب اور فیصلوں پر سوالات اٹھا رہا ہے اور نبی (ص) کو بہترین رہنما کی بجائے ایک جذباتی انسان مان رہا ہے
ہمارے لئے سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا ہم اپنے نبی کریم(ص) جن کے اسوہ کو الله نے ہمارے مشعل راہ کہہ دیا، ایسا سمجھتے ہیں؟ کہ وہ انتخاب ٹھیک نہیں کرتے، پھر فوراً ردعمل میں فوج بھیج دیتے ہیں؟ اور کیا ہم ایسے نظریات رکھ کر قیامت کے دن نبی کریم (ص) کی شفاعت کے حقدار بن سکتے ہیں؟ جس آیت میں الله نےہم کوتحقیق کاحکم دیا ہےاسی آیت پر ہی ہم نے تحقیق نہیں کی اوراسی آیت کے ذریعہ ہی اسلام مخالفوں نے پروپیگنڈا پھیلایا. ایسے ہی الله نے قرآن میں نہیں کہا کہ قیامت کےدن نبی کہیں گےکہ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.
الله ہمیں قرآن کو سمجھنے اور اس کو ماننے کی توفیق دے. امین
سورت کا آغاز ہی مسلمانوں کو یہ حکم دے کر ہو رہا ہے کہ الله اور نبی کریم کے احکامات سے پیش قدمی نہ کرو اور اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے پست رکھو کہ کہیں تمھارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں. آگے پھر سورت مسلمانوں کو سماجی بیماریوں سے منع کر رہی ہےکہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو. تجسس نہ کرو. غیبت نہ کرو تو اس کی آیت ٦ میں ایک اہم بات ائی کہ اگر کوئی فاسق تمھارے پاس خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو.
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَ۔۔هَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ
اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو ، پھر تم کو اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔ (ترجمہ از مولانا وحید الدین)
اب اس آیت کے ساتھ ایک واقعہ/شان نزول اکثر تفسیروں میں ملتا ہے جس کی رو سے حضرت ولید بن عقبہ کو فاسق قرار دیا جاتا ہے. تفسیر تفہیم القرآن کے حاشیہ نمبر ٨ میں اتا ہے
اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ قبیلہ بنی المصطلق جب مسلمان ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ کو بھیجا تاکہ ان لوگوں سے زکوۃ وصول کر لائیں۔ یہ ان کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اہل قبیلہ سے ملے بغیر مدینہ واپس جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کردی کہ انھوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ حضور یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ارادہ کیا کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لیے ایک دستہ روانہ کریں بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے وہ دستہ روانہ کردیا تھا اور بعض میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ روانہ کرنے والے تھے۔ بہرحال اس بات پر سب متفق ہیں کہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ضرار (ام المومنین حضرت جویریہ کے والد) اس دوران میں خود ایک وفد لے کر حضور کی خدمت میں پہنچ گئے اور انھوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں کجا کہ زکوۃ دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا کوئی سوال پیدا ہو، ہم ایمان پر قائم ہیں اور ادائے زکوۃ سے ہمیں ہرگز انکار نہیں ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس قصے کو امام احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس، حارث بن ضرار، مجاہد، قتادہ، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان، ضحاک اور مقاتل بن حیان سے نقل کیا ہے۔ حضرت ام سلمہ کی روایت میں یہ پورا قصہ بیان تو اسی طرح ہوا ہے مگر اس میں ولید کے نام کی تصریح نہیں ہے۔
اب یادرہےکہ یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے اور جب جزیرہ نما عرب پر نبی کریم(ص) کی حاکمیت قائم ہو گئی تھی اور بڑی تعداد میں صحابہ کرام(رض) موجود تھے. آیت ٦کہتی ہے کہ جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے، نہ کہ جب کوئی شخص خبر لے کر آئے، یعنی ایک ایسا شخص جس کے فاسق ہونے کا کم ازکم کچھ لوگوں کو علم ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت ولید بن عقبہ واقعی فاسق تھے اور کچھ لوگوں کو معلوم بھی تھا تو پھر نبی کریم (ص) نے ان کو زکات کی وصولی کی ذمہ داری ہی کیوں دی؟ کیا اس وقت اور صحابہ کرام (رض) نہیں موجود تھے اور کیا الله کا حکم نہیں کہ لوگوں کو کام ان کی اہلیت کے حساب سے دو؟
اس واقعہ سےتو یہ لگتا ہے کہ نبی کریم (ص) نعوذ باللہ بغیر کسی اہلیت اور قابلیت کی جانچ پڑتال کے اور ان کے مزاج اور پرانے جھگڑوں کو جانے بغیر صحابہ میں کام تقسیم کر دیتے تھے؟ اور کیا نبی کریم (ص) کسی فاسق کو وہ بھی اس وقت جب ان کے پاس بہت سے صحابہ کرام موجود ہیں، زکات لینے بھیج سکتے تھے؟
دوسری طرف سورت کےعمومی مزاج کا تعین کیا جائےتواس میں تمام باتیں عام اور نئے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کی جارہی ہیں کہ گمان نہ کرو، نسلی تفاخر نہ کرو بدوؤں کو کہا جا رہا ہے کہ رسول کی فرمانبرداری کرو. جبکہ واقعہ تویہ بتا رہا ہےکہ نبی نے فوراً یقین کر لیا اور فوج کو تیاری کاحکم دے دیا یعنی واقعہ کی رو سے غلطی عام مسلمانوں کی نہیں بلکہ نعوز باللہ نبی کریم (ص) کی ہے .
مزید یہ کہ اگر ایسی کچھ غلطی ہوئی ہوتی تو الله کیا نبی کریم (ص) کو صحیح لوگوں کو صحیح کام پر معمور کرنے کا نہیں کہتے؟ کیونکہ زیادہ بڑی غلطی تو ایک فاسق کو زکات اکھٹا کرنے کے لئے چننا ہے. جب کہ آیت ایسی کسی بات کی طرف اشارہ نہیں کر رہی. بلکہ اس سے اگلی ہی آیت میں کہا جا رہا ہے کہ
"خوب جان رکھو کے تمہارے درمیان اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہو جاؤ۔" یعنی الله کے نبی (ص) بہت سمجھ بوجھ اور حکمت کے ساتھ چلتے ہیں. جبکہ روایت اس کے بالکل برعکس نقشہ کھینچ رہی ہے
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ روایت کیوں ائی؟
اسلام کی مخالفت کے لئے ایک گروہ نے حضرت عثمان اور بنو امیہ کو ڈھال بنایا. اب مقصد اسلام میں تفرقہ ڈال کر اس کو روکنا تھا. یاد رہے کہ اسلام تیزی سے پھیل رہا تھا اور ساسانیوں کی سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا اور ان کی اشرافیہ کی عیاشیوں اور قدرومنزلت تیزی سے گھٹ رہی تھی. تو وہ کھل کر اسلام سے لڑ تو سکتے نہیں تھے لیکن اسلام کو کمزور کرنے کے لئے فتنہ و فساد کا سہارا لے رہے تھے. کیونکہ اس وقت بنو امیہ کے پاس خلافت تھی تو ان کے لوگوں کے متعلق جھوٹی روایات بنا کر پھیلا دی جاتی اور اسلام کو کمزور کرنے کے لئے بغاوت اور حکمرانوں سے نفرت کو بڑھکایا جاتا.
بہت سےسادہ لوح مسلمان اس وقت بھی ان روایات میں بہک جاتے اور اب بھی بہک جاتے ہیں لیکن ان پر تھوڑے سے غور سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ من گھڑت تو ہیں ہی لیکن انکو ماننے سےانسان نعوذ باللہ نبی کی بھی تکذیب اور فیصلوں پر سوالات اٹھا رہا ہے اور نبی (ص) کو بہترین رہنما کی بجائے ایک جذباتی انسان مان رہا ہے
ہمارے لئے سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا ہم اپنے نبی کریم(ص) جن کے اسوہ کو الله نے ہمارے مشعل راہ کہہ دیا، ایسا سمجھتے ہیں؟ کہ وہ انتخاب ٹھیک نہیں کرتے، پھر فوراً ردعمل میں فوج بھیج دیتے ہیں؟ اور کیا ہم ایسے نظریات رکھ کر قیامت کے دن نبی کریم (ص) کی شفاعت کے حقدار بن سکتے ہیں؟ جس آیت میں الله نےہم کوتحقیق کاحکم دیا ہےاسی آیت پر ہی ہم نے تحقیق نہیں کی اوراسی آیت کے ذریعہ ہی اسلام مخالفوں نے پروپیگنڈا پھیلایا. ایسے ہی الله نے قرآن میں نہیں کہا کہ قیامت کےدن نبی کہیں گےکہ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.
الله ہمیں قرآن کو سمجھنے اور اس کو ماننے کی توفیق دے. امین