شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۲۶
الجن والشیاطین للملوک و وغیرہھا مما یطول ذکرہ (جلد اول صفحہ ۷۰ مطبوعہ یورپ)۔
اِسی طرح ہفت خوان رستم کے ذکر میں لکھا ہے کہ یہ سب لغویات ہیں۔
ابو ریحان بیرونی آثار الباقیہ (صفحہ ۱۰۰ مطبوعہ یورپ) میں لکھتا ہے :
ولھم فی التواریخ القسم الاول و اعماد الملوک و افاعلیہم المشہورۃ عنہم ما یستلنفر عن استماعۃ القلوب و جمجہ الاٰذان ولا تقبلہ العقول۔
ترجمہ : ایرانیون نے پہلے زمانے کی جو تاریخ لکھی ہے اُسمین سلاطین کی عمرون اور اُنکے کارنامونکے متعلق ایسی باتین بیان کرتے ہین جنکو سننے سے دل اُچٹتا ہے کان اُنکو برداشت نہیں کر سکتے۔ عقل اُن کو قبول نہیں کرتی۔
بعض یورپین مورخین کے نزدیک شاہنامہ کی بے اعتباری کی وجہ یہ ہے کہ اس کے واقعات یونانیون کی تاریخ سے اکثر جگہ مخالف ہیں لیکن اس عقدہ کو علامی ثعلبی نے بہت پہلے حل کر دیا تھا وہ لکھتے ہیں، کہ "ہمارے پاس ایران کی تاریخ کے متعلق دو ماخذ ہیں۔ ایرانی اور یونانی ہم جانتے ہیں کہ دونون میں اختلاف ہے۔ لیکن یہ مسلم مسئلہ ہے کہ گھر کا حال گھر والا خوب جانتا ہے۔ اس لئے ہم نے یونانیون کے مقابلہ میں ایرانیون کا زیادہ اعتبار کیا۔"
محققین یورپ کی رائے : یورپ نے نہایت جد و جہد سے اسلام کے قبل کی ایرانی تصنیفات کثرت سے ڈھونڈ کر نکالین، اور اُن میں سے اکثر کو چھاپ کر شایع کیا، چنانچہ پروفیسر براؤن نے اپنی کتاب کی پہلی جلد میں ایک خاص عنوان قائم کیا ہے "پہلوی لڑیچر" اس کے ذیل میں ان تمام کتابوں کی فہرست اور اُن کے حالات لکھے ہیں۔ اُن میں بعض کتابین اسلام سے پان پان سے چھ چھ سے برس پہلے کی تصنیف ہیں، ان میں جو کتابین شاہان عجم کی تاریخ ہیں ان کا بیان حرف بہ حرف فردوسی سے مطابق ہے، اُنہیں میں ایک کتاب کا زمائک استخشتر ہے جو پہلوی زبان میں ہے اور ۶۰۰ء یعنے زمانہ اسلام سے کسی قدر پہلے کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب اصل پہلوی زبان میں مع جرمنی ترجمہ کے شایع کی گئی، اس کی نسبت براؤن صاحب لکھتے ہیں "جب اس کتاب کا شاہنامہ سے مقابلہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فردوسی نے بڑی ایمانداری برتی ہے۔ اور ہمارے نظر میں اس کی وقعت یہ دیکھ کر اور بڑھ جاتی ہے کہ
الجن والشیاطین للملوک و وغیرہھا مما یطول ذکرہ (جلد اول صفحہ ۷۰ مطبوعہ یورپ)۔
اِسی طرح ہفت خوان رستم کے ذکر میں لکھا ہے کہ یہ سب لغویات ہیں۔
ابو ریحان بیرونی آثار الباقیہ (صفحہ ۱۰۰ مطبوعہ یورپ) میں لکھتا ہے :
ولھم فی التواریخ القسم الاول و اعماد الملوک و افاعلیہم المشہورۃ عنہم ما یستلنفر عن استماعۃ القلوب و جمجہ الاٰذان ولا تقبلہ العقول۔
ترجمہ : ایرانیون نے پہلے زمانے کی جو تاریخ لکھی ہے اُسمین سلاطین کی عمرون اور اُنکے کارنامونکے متعلق ایسی باتین بیان کرتے ہین جنکو سننے سے دل اُچٹتا ہے کان اُنکو برداشت نہیں کر سکتے۔ عقل اُن کو قبول نہیں کرتی۔
بعض یورپین مورخین کے نزدیک شاہنامہ کی بے اعتباری کی وجہ یہ ہے کہ اس کے واقعات یونانیون کی تاریخ سے اکثر جگہ مخالف ہیں لیکن اس عقدہ کو علامی ثعلبی نے بہت پہلے حل کر دیا تھا وہ لکھتے ہیں، کہ "ہمارے پاس ایران کی تاریخ کے متعلق دو ماخذ ہیں۔ ایرانی اور یونانی ہم جانتے ہیں کہ دونون میں اختلاف ہے۔ لیکن یہ مسلم مسئلہ ہے کہ گھر کا حال گھر والا خوب جانتا ہے۔ اس لئے ہم نے یونانیون کے مقابلہ میں ایرانیون کا زیادہ اعتبار کیا۔"
محققین یورپ کی رائے : یورپ نے نہایت جد و جہد سے اسلام کے قبل کی ایرانی تصنیفات کثرت سے ڈھونڈ کر نکالین، اور اُن میں سے اکثر کو چھاپ کر شایع کیا، چنانچہ پروفیسر براؤن نے اپنی کتاب کی پہلی جلد میں ایک خاص عنوان قائم کیا ہے "پہلوی لڑیچر" اس کے ذیل میں ان تمام کتابوں کی فہرست اور اُن کے حالات لکھے ہیں۔ اُن میں بعض کتابین اسلام سے پان پان سے چھ چھ سے برس پہلے کی تصنیف ہیں، ان میں جو کتابین شاہان عجم کی تاریخ ہیں ان کا بیان حرف بہ حرف فردوسی سے مطابق ہے، اُنہیں میں ایک کتاب کا زمائک استخشتر ہے جو پہلوی زبان میں ہے اور ۶۰۰ء یعنے زمانہ اسلام سے کسی قدر پہلے کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب اصل پہلوی زبان میں مع جرمنی ترجمہ کے شایع کی گئی، اس کی نسبت براؤن صاحب لکھتے ہیں "جب اس کتاب کا شاہنامہ سے مقابلہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فردوسی نے بڑی ایمانداری برتی ہے۔ اور ہمارے نظر میں اس کی وقعت یہ دیکھ کر اور بڑھ جاتی ہے کہ