ٹائپنگ از شمشاد
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/page-2#post-1537781
صفحہ ۹
تو باطنیوں کا ایک گروہ عظیم اسکے ساتھ تھا اِن اسباب سے محمود کو دیلمیوں کے ساتھ نہ صرف مذہبی بالکہ پولیٹکل دشمنی تھی، اِس لئے وہ فردوسی کے ساتھ فخر الدولہ دیلمی کی خط و کتابت کو مصالح مُلکی کے لحاظ سے بھی گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ (ابن الاثیر واقعات ۴۲۰ھ)
بہر حل وجہ کچھ ہو، واقعہ یہ ہے کہ محمود نے فردوسی کی قدردانی کا حق ادا نہ کیا۔ فردوسی حمام میں نہا رہا تھا کہ شاہنامہ کا صلہ پہنچا۔ فردوسی حمام سے نکلا تو ایازؔ نے روپے کی تھیلیان پیش کیں، فردوسی نے بڑی بیتابی سے دست شوق بڑھایا لیکن سونیکے پھل کے بجائے چاندی کے پھول تھے، فردوسی کے دل سے بیساختہ آہ نکلی، تھیلیان کھڑے کھڑے لٹا دین۔ اور ایاز سے کہا کہ بادشاہ سے کہنا کہ "میں نے یہ خون جگر اِن سفید دانوں کے لئے نہیں کھایا تھا۔ ایاز نےمحمود سے ساری کیفیت بیان کی۔ محمود نے میمندی کو بلا کر ناراضی ظاہر کی اور کہا تیری اندازی نے مجھکو بدنام کر دیا۔ میمندی نے کہا کہ حضور خاک کی چٹکی بھیجدیتے تب بھی فردوسی کو آنکھوں سے لگانا تھا، انعام شاہی کا رد کرنا بڑی گستاخی ہے، اس چبھتے ہوئے فقرہ نے محمود کے دلمین بھی اثر کیا، اور برہم ہو کر کہا کہ کل میں اس قرمطی کو اس گستاخی کا مزہ چکھاؤنگا۔ فردوسی کو خبر ہوئی تو سخت پریشان ہوا، صبح کو محمود باغ میں آیا۔ تو فردوسی نے دوڑ کر پاؤں پر سر رکھدیا اور بدیہہ یہ اشعار پڑھے :
چو در ملک سلطان کہ چرخش ستود
بسے ہست ترساد گبرو یہود
گرفتند در ظل عاد طش قرار
شدہ ایمن از گردش روز گاز
چہ باشد کہ سلطان گر دون شکوہ
رہے راشما ردیکے زان گردہ
سلطان محمود کو رحم آیا، اور اُسکی تقصیر معاف کی۔
غزنینؔ سے چلتے وقت فردوسی نے ایاز کو ایک لفافہ سر بہ مہر دیا اور کہا کہ میرے جانیکے ۲۰ دن بعد بادشاہ کو دینا۔ فردوسی ہرات کو روانہ ہوا، محمود نے لفافہ کی مُہر کھولی تو ہجو کے اشعار تھے۔
یکے بندگی کردم اے شہریار
کہ ماندز تو در جہان یاد گار