سوانح عمری فردوسی صفحہ 7

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
7


116p9gg.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از قیصرانی

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/#post-1537656


دولت شاہ نے لکھا ہے کہ چونکہ فردوسی نے ایاز کی طرف کبھی رخ نہیں کیا اس لئے اس نے دراندازی کی اور محمود کو یقین دلایا کہ فردوسی رافضی ہے، نظامی عروض کا بیان ہے کہ دربار کا بڑا گروہ وزیر اعظم حسن میمندی کا مخالف تھا، اور چونکہ فردوسی کا مربی اور سرپسرت وہی تھا اس لئے اس کی ضد پر اس گروہ نے محمود کے کان بھرے اور فردوسی کو متعزلی اور رافضی ثابت کیا، دیباچہ میں ہے کہ فردوسی کو خود حسن میمندی نے تباہ کیا جس کی وجہ یہ تھی غزنین اور اطراف و جوانب کے امراء فردوسی کو طرح طرح کے تحفے بھیجتے تھے، فردوسی بھی اشعار کے ذریعہ سے ان کا شکریہ ادا کرتا تھا، حسن کو یہ ناگوار معلوم ہوتا تھا لیکمن فردوسی کچھ پروا نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا،
من بندہ کز مبادی فطرت بنودہ ام مائل نہ مال ہرگز نو طامع بجاہ نیز
سوئے در و زیر چرا ملتفت شوم، چون فار غم زبار گہ بادشاہ نیز
حسن میمندی مذہباً خارجی تھا، اور فردوسی شیعہ۔ اس لئے بھی اس نے فردوسی کی مخالفت کی۔ ان متناقض روایتوں میں سے کس پر اعتبار کیا جائے۔1
دیباچہ نویسوں نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے، اور اس پر ان کو ناز ہے، وہ یہ کہ فردوسی نے شاہنامہ میں جابجا شرافتِ نسب کو بڑی آب و تاب سے لکھا ہے، اور یہ سلطان کو اس وجہ سے ناگوار ہوتا تھا کہ وہ غلام زادہ تھا اس لئے شرافت کی خوبی پر زور دینا گویا درپردہ اس پر چوٹ تھی،
تذکرہ نویسوں کا یہ فیصلہ ہے کہ محمود نے فردوسی کے شعیہ پن کی وجہ سے اس کی قدردانی میں کمی کی، لیکن اولاً تو محمود کے دربار میں بہت سے شیعی علما و فضلا تھے جو نہایت قدر و عزت سے بسر کرتے تھے، ابوریحان بیرونی جو علانیہ شیعہ تھا محمود نے خود فرمان بھیجکر اس کو بلایا تھا اور نہایت قدر دانی کرتا تھا، دربار میں ہندو عیسائی، یہودی ہر مذہب و ملت کے اہل کمال تھے، فردوسی نے کیا قصور کیا تھا۔
دیباچہ میں ایک اور وجہ بیان کی ہے اور وہ قرین قیاس ہے،
1۔ سلطان محمود کی مدت حکومت میں تین شخصوں کو وزارت کا رتبہ ملا (بقیہ حاشیہ صفحہ 82 پر ملاحظہ ہو)
 

حسان خان

لائبریرین
دولت شاہ نے لکھا ہے کہ چونکہ فردوسی نے ایاز کی طرف کبھی رخ نہیں کیا اس لئے اُس نے دراندازی کی اور محمود کو یقین دلایا کہ فردوسی رافضی ہے، نظامی عروضی کا بیان ہے کہ دربار کا بڑا گروہ وزیر اعظم حسن میمندی کا مخالف تھا، اور چونکہ فردوسی کا مربی اور سرپرست وہی تھا اس لئے اس کی ضد پر اس گروہ نے محمود کے کان بھرے اور فردوسی کو متعزلی اور رافضی ثابت کیا، دیباچہ میں ہے کہ فردوسی کو خود حسن میمندی نے تباہ کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ غزنین اور اطراف و جوانب کے امراء فردوسی کو طرح طرح کے تحفے بھیجتے تھے، فردوسی بھی اشعار کے ذریعہ سے ان کا شکریہ ادا کرتا تھا، حسن کو یہ ناگوار معلوم ہوتا تھا لیکمن فردوسی کچھ پروا نہیں کرتا تھا اور کہتا تھا،
من بندہ کز مبادی فطرت نبودہ ام
مائل بہ مال ہرگز و طامع بجاہ نیز
سوئے در وزیر چرا ملتفت شوم،
چون فار غم ز بارگہ بادشاہ نیز
حسن میمندی مذہباً خارجی تھا، اور فردوسی شیعہ۔ اس لئے بھی اس نے فردوسی کی مخالفت کی۔ ان متناقض روایتوں میں سے کس پر اعتبار کیا جائے۔(۱)
دیباچہ نویسوں نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے، اور اُسپر ان کو ناز ہے، وہ یہ کہ فردوسی نے شاہنامہ میں جابجا شرافتِ نسب کو بڑی آب و تاب سے لکھا ہے، اور یہ سلطان محمود کو اس وجہ سے ناگوار ہوتا تھا کہ وہ غلام زادہ تھا اس لئے شرافت کی خوبی پر زور دینا گویا درپردہ اُس پر چوٹ تھی۔
تذکرہ نویسوں کا یہ فیصلہ ہے کہ محمود نے فردوسی کے شعیہ پن کی وجہ سے اس کی قدردانی میں کمی کی، لیکن اولاً تو محمود کے دربار میں بہت سے شیعی علما و فضلا تھے جو نہایت قدر و عزت سے بسر کرتے تھے، ابوریحان بیرونی جو علانیہ شیعہ تھا محمود نے خود فرمان بھیجکر اُس کو بلایا تھا اور نہایت قدر دانی کرتا تھا، دربار میں ہندو عیسائی، یہودی ہر مذہب و ملت کے اہل کمال تھے، فردوسی نے کیا قصور کیا تھا۔
دیباچہ میں ایک اور وجہ بیان کی ہے اور وہ قرین قیاس ہے،
---------------------
۱۔ سلطان محمود کی مدت حکومت میں تین شخصوں کو وزارت کا رتبہ ملا (بقیہ حاشیہ صفحہ ۸۲ پر ملاحظہ ہو)
 
Top