سوانح عمری فردوسی صفحہ 58

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
kc1pg3.jpg
 

ماہی احمد

لائبریرین
شاہنامہ کو ہاتھ لگاتے ڈرتے تھے۔ فردوسی چونکہ معتوب شاہی تھا، اس لئیے بھی اس کی تصنیف مقبول عام نہیں ہو سکتی ۔
یہ سب تھا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ خراسان سے لے کر بغداد تک درو دیوار سے شاہنامہ کی صدا آنے لگی، تقریر، تحریر، تصنیف،تالیف، خلوت و جلوت، کوچہ و بازاراس کی بازگشت سے گونج اٹھے۔ لوگ جب کام سے فارغ ہو کر بیٹھتےتو کوئی خوش لہجہ شخص حفظ شاہنامہ کے اشعار پڑھتا، اور شجاعت جانبازی، دلیری حب وطن کا اثر تمام مجلس پر چھا جاتا۔
سینکڑوں برس تک، سلاطین و امراء کی باہمی خط و کتابت میں شاہنامہ کے اشعار جا بجا درج ہوتےتھے اوربہادری کے موقعوں پر بے ساختہ ایسے اشعار زبان سے نکل جاتے تھے۔ میدان جنگ میں رجز کی بجائے شاہنامہ کے اشعار پڑھے جاتے تھے۔ سلجوقیون کے اخیر فرمانروا اطغرل ارسلان نے میدانِ جنگ میں لڑ کر جان دی تو شاہنامہ کے یہ اشعار زبان پر تھے:

من آں گر زیک زخم برادشتم
سپہ راھمان جائے بگزاشتم

چنان؟برخروشیدم ازپشت زین
کہ چون آسیا شد،پریشان زمین
شاہنامہ ہی کے اثر نے سینکڑوں برس تک ایران کی شاعری کو غزل سے پاک رکھا ۔ امتداد زمانہ سے جب اس کا اثر گھٹا،اور عشق و عاشقی کے خیالات قوم میں پھیلنے لگےتو دفعتہً تاتاریون کے طوفان کے طوفان نے مسلمانوں کی خاک تک اڑا دی۔

شاہنامہ کی زبان
شاہنامہ کی زبان آجکل کی زبان سے اسقدر مختلف ہے کہ گویا دو زبانیں الگ الگ ہیں۔اور شاہنامہ کی تخصیص نہیں، اس زمانے کے شعرا کی عام زبان یہی تھی۔ لیکن چونکہ اور کسی شاعر نے اس قدر الفاظ استعمال نہیں کئیےاس لئیے فردوسی کی زبان اور شعرا کےزیادہ بے گانہ وغیر مانوس معلوم ہوتی ہے۔
شاہنامہ کی زبان کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:
اضمیرون کی ترکیب مثلاً
ع زشادی رخان شان چوگل برومید
اب یون کہین گےرُخ ہان ایشان۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہنامہ کو ہاتھ لگاتے ڈرتے تھے۔ فردوسی چونکہ معتوب شاہی تھا، اس لئے بہی اس کی تصنیف مقبول عام نہوسکتی ہو گی ۔
یہ سب تھا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ خراسان سے لے کر بغداد تک در و دیوار سے شاہنامہ کی صدا آنے لگی، تقریر، تحریر، تصنیف،تالیف، خلوت و جلوت، کوچہ و بازار اس کی بازگشت سے گونج اٹھے۔ لوگ جب کام سے فارغ ہو کر بیٹھتےتو کوئی خوش لہجہ شخص حفظ شاہنامہ کے اشعار پڑھتا، اور شجاعت، جانبازی، دلیری حب وطن کا اثر تمام مجلس پر چھا جاتا۔
سینکڑوں برس تک، سلاطین و امراء کی باہمی خط و کتابت میں شاہنامہ کے اشعار جا بجا درج ہوتےتھے اوربہادری کے موقعوں پر بے ساختہ ایسے اشعار زبان سے نکل جاتے تھے۔ میدان جنگ میں رجز کے بجائے شاہنامہ کے اشعار پڑھے جاتے تھے۔ سلجوقیون کے اخیر فرمانروا طغرل ارسلان نے میدانِ جنگ میں لڑ کر جان دی تو شاہنامہ کے یہ اشعار زبان پر تھے:

من آن گرز یک زخم برداشتم
سپہ راھمان جائے بگزاشتم

چنان؟ برخروشیدم از پشت زین
کہ چون آسیا شد،پریشان زمین
شاہنامہ ہی کے اثر نے سینکڑوں برس تک ایران کی شاعری کو غزل سے پاک رکھا ۔ امتداد زمانہ سے جب اس کا اثر گھٹا،اور عشق و عاشقی کے خیالات قوم میں پھیلنے لگےتو دفعتہً تاتاریون کے طوفان کے طوفان نے مسلمانوں کی خاک تک اڑا دی۔

شاہنامہ کی زبان
شاہنامہ کی زبان آجکل کی زبان سے اسقدر مختلف ہے کہ گویا دو زبانیں الگ الگ ہیں۔اور شاہنامہ کی تخصیص نہیں، اس زمانے کے شعرا کی عام زبان یہی تھی۔ لیکن چونکہ اور کسی شاعر نے اس قدر الفاظ استعمال نہیں کئے اسیلئے فردوسی کی زبان بہ نسبت اور شعرا کےزیادہ بیگانہ و غیر مانوس معلوم ہوتی ہے۔
شاہنامہ کی زبان کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:
ا ضمیرون کی ترکیب مثلاً
ع زشادی رخان شان چو گل بردمید
اب یون کہین گےرُخ ہان ایشان۔
 
Top