سوانح عمری فردوسی صفحہ 55

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
20qdhjb.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
دکشتہ ہمہ دشت آور کاہ تن دوست و سر بو دو ترک و کلاہ

بجو شید دشت و بتو فید کوہ زجوشِ سواران ہر دو گروہ،

تو گفتی کہ روی زمین آہن ست زتیرہ ہوا نیز در جوش است

شاہنامہ میں لڑائی کے سامان اور اسلحہ جنگ کی اسقدر تفصیل پائی جاتی ہے کہ ہم بہ تفصیل بتا سکتے ہیں کہ، آج سے دو ہزار برس قبل آلات جنگ کیا تھے۔ پہلوان اور بہادر کیا کیا ہتھیار لگاتے تھے۔ لباس جنگی کیا کیا تھے۔ مثلاً لڑائی کے وقت جو باجے استعمال ہوتے تھے، ان کے نام یہ ہیں۔ بتیرہ۔ گاؤ دم۔ خرمہرہ۔ کوس۔ طبل۔ نقارہ۔ کرنائے۔ سرغین

اسلحہ جنگ یہ تھے۔ زرہ۔ جوشن۔ خود۔ معفر۔ چار آئینہ۔ خفتان۔ ترک۔ بیربیان۔ برگستوان۔

آلات و سامان جنگ یہ تھے۔ گوپال۔ گرز۔ تیغ۔ سپر۔ درفہ۔ خنجر۔ ژوپین۔ ناوک۔ خشت تیر۔ خدنگ۔ کمند۔ سنان۔ نیزہ۔ ژوپن۔ پرتاب۔ بترزین۔ دبوس۔ قارورہ۔ شراع۔ عرادہ۔ رایت۔ علم۔ درفش۔ اختر سرا پردہ۔

اقسام فوج۔ قلب۔ میمنہ۔ میسرہ۔ طلایہ۔ ساقہ دمدار۔

اس زمانہ میں مجموعی فوج کے لڑانے کا فن نہ تھا اس لئے یہ پتہ نہیں لگتا کہ سپہ سالار کس طریقہ سے فوج کو لڑاتے تھے، رستم اگرچہ سپہ سالار تھا اور شاہنامہ سرتاسر گویا اسکی داستان ہے تاہم کہیں یہ پتہ نہیں لگتا۔ کہ اس نے فوج کو کیونکر لڑایا۔ طریقہ جنگ یہ تھا کہ ایک ایک پہلوان میدان میں آتا تھا اور معرکہ آرا ہوتا تھا۔ ان معرکہ آراائیوں کو فردوسی اس تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ سمان باندھ دیتا ہے۔

لڑائی کے جتنے طریقے تھے، یعنی کشتی لڑنا، تلوار چلانا، تیر مارنا، کمند پھینکنا، برچھی چلانا وغیرہ وغیرہ شاہنامہ میں سب بہ تفصیل پائے جاتے ہیں۔ اور جس چیز کو جہان لکھا ہے،ا س طرح لکھا ہے کہ اس کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔

تہمتن زالوی شدد ردمند زفتراک بکشاد پیچان کمند

کمند اندازی چو آہنگ رزم یلان داشے کمندے و گرزے گران داشتے
 

حسان خان

لائبریرین
ز کشتہ ہمہ دشت آوردگاہ
تن و دست و سر بود و ترک و کلاہ

بجوشید دشت و بتوفید کوہ
زجوشِ سواران ہر دو گروہ،

تو گفتی کہ روی زمین آہن ست
زتیرہ ہوا نیز در جوشن است

شاہنامہ میں لڑائی کے سامان اور اسلحہ جنگ کی اسقدر تفصیل پائی جاتی ہے کہ ہم بہ تفصیل بتا سکتے ہیں کہ، آج سے دو ہزار برس قبل آلات جنگ کیا تھے۔ پہلوان اور بہادر کیا کیا ہتھیار لگاتے تھے۔ لباس جنگی کیا کیا تھے۔ مثلاً لڑائی کے وقت جو باجے استعمال ہوتے تھے، ان کے نام یہ ہیں۔ بتیرہ۔ گاؤ دم۔ خرمہرہ۔ کوس۔ طبل۔ نقارہ۔ کرنائے۔ سرغین

اسلحہ جنگ یہ تھے۔ زرہ۔ جوشن۔ خود۔ معفر۔ چار آئینہ۔ خفتان۔ ترک۔ بیربیان۔ برگستوان۔

آلات و سامان جنگ یہ تھے۔ گوپال۔ گرز۔ تیغ۔ سپر۔ درفہ۔ خنجر۔ ژوپین۔ ناوک۔ خشت تیر۔ خدنگ۔ کمند۔ سنان۔ نیزہ۔ ژوپن۔ پرتاب۔ بترزین۔ دبوس۔ قارورہ۔ شراع۔ عرادہ۔ رایت۔ علم۔ درفش۔ اختر ۔سرا پردہ۔

اقسام فوج۔ قلب۔ میمنہ۔ میسرہ۔ طلایہ۔ ساقہ دمدار۔

اس زمانہ میں مجموعی فوج کے لڑانے کا فن نہ تھا اس لئے یہ پتہ نہیں لگتا کہ سپہ سالار کس طریقہ سے فوج کو لڑاتے تھے، رستم اگرچہ سپہ سالار تھا اور شاہنامہ سرتاسر گویا اسکی داستان ہے تاہم کہیں یہ پتہ نہیں لگتا۔ کہ اس نے فوج کو کیونکر لڑایا۔ طریقہ جنگ یہ تھا کہ ایک ایک پہلوان میدان میں آتا تھا اور معرکہ آرا ہوتا تھا۔ ان معرکہ آرائیوں کو فردوسی اس تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ سمان باندھ دیتا ہے۔

لڑائی کے جتنے طریقے تھے، یعنی کشتی لڑنا، تلوار چلانا، تیر مارنا، کمند پھینکنا، برچھی چلانا وغیرہ وغیرہ شاہنامہ میں سب بہ تفصیل پائے جاتے ہیں۔ اور جس چیز کو جہان لکھا ہے،ا س طرح لکھا ہے کہ اس کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔

کمند اندازی
تہمتن زالوی شد دردمند
ز فتراک بکشاد پیچان کمند

چو آہنگ رزم یلان داشے
کمندے و گرزے گران داشتے
 
Top