سوانح عمری فردوسی صفحہ 5

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی

صفحہ
5


25q9hyo.jpg
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹائپنگ از نیرنگ خیال
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سوانح-عمری-فردوسی.73980/page-2#post-1538786

سہراب کی داستان نظم کی چنانچہ خود میرے پاس ایک نظم موجود ہے جس کے آگے عنصری کے اشعار کی کچھ حقیقت نہیں، یہ کہکر نظم حوالہ کی، سرنامہ تھا،
کنون خورد باید مئے خوشگوار کہ می بوئے مشک آرد از جوئبار
ہوا پُرخروش و زمین پرزجوش خنک آنکہ دل شاد و اروبہ نوش
ہمہ بوستان زیر برگ گل است ہمہ کوہ پرلالۂ و سنبل است

ماہک نے سلطان محمود کی خدمت میں جا کر تمہید کے ساتھ پیش کی محمود نے پوچھا کہ یہ جواہر کہا ں سے ہاتھ آئے، ماہک نے فردوسی کا نام لیا، اُسی وقت طلبی ہوئی محمود نے نام و نشان پوچھا، فردوسی نے کہا طوس کا باشندہ ہوں محمود نے اُسکے حالات پوچھے اور اسی سلسلہ میں پوچھا کہ طوس کب سے آباد ہے اور کس نے آباد کیا، فردوسی نے تفصیل سے تمام واقعات بیان کئے، محمود نے شعرائے سبعہ کو بلوایا، اور فردوسی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ رستم و سہراب کی داستان اسی نے نظم کی ہے فردوسی نے اسی کے اشعار سُنائے تو سب حیرت زدہ رہ گئے، محمود نے خلعت عطا کیا، شعرا نے تحسین کی صدا بلند کی، عنصری نے بڑھ کر، فردوسی کے ہاتھ چوم لئے اس زمانہ میں امردپرستی عیب نہیں سمجھا جاتا، محمود نے فردوسی سے فرمایش کی کہ ایاز کے سبزۂ خط کی تعریف میں کچھ کہے، فردوسی نے برجستہ کہا
مست است بتا اچشم تو‍ؤتیربہ دست بس کس کہ زیر چشم مست تو نجست
گر پوشید عارضت زرہ عذرش است کزتیربترسدہمہ کس خاصہ زمست

یعنی معشوق کی آنکھیں مست اور تیر بکف ہیں اُن تیروں نے ہزاروں کے دل چھلنی کر دیے ہیں اِس لئے اُن سے بچنے کے لئے رخساروں نے زرہ پہن لی ہے (خط کو زرہ سے تشبیہ دی ہے) کیونکہ مست سے سبھی ڈرتے ہیں، خصوصا جب اس کے ہاتھوں میں تیر ہو۔
محمود نہایت محظوظ ہوااور شاہنامہ کی تصنیف کی خدمت سپرد کی، ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوا کہ فردوسی کو ایوان شاہی کے قریب ایک مکان دیا جائے، جو تمام ضروری سازوسامان سے آراستہ ہو، اور آلات جنگ، اسلحۂ حرب، شاہان عجم اور بہادروں اور پہلوانوں کے مرقعوں اور تصویروں سے سجا دیا جائے، ایک ایک شعر پر ایک ایک اشرفی صلہ مقرر ہوا اور
 

حسان خان

لائبریرین
سہراب کی داستان نظم کی چنانچہ خود میرے پاس ایک نظم موجود ہے جس کے آگے عنصری کے اشعار کی کچھ حقیقت نہیں، یہ کہکر نظم حوالہ کی، سرنامہ تھا،
کنون خورد باید مئے خوشگوار
کہ می بوئے مشک آرد از جوئبار
ہوا پُرخروش و زمین پر ز جوش
خنک آنکہ دل شاد دارد بہ نوش
ہمہ بوستان زیر برگ گل است
ہمہ کوہ پر لالۂ و سنبل است
ماہک نے سلطان محمود کی خدمت میں جا کر تمہید کے ساتھ پیش کی محمود نے پوچھا کہ یہ جواہر کہا ں سے ہاتھ آئے، ماہک نے فردوسی کا نام لیا، اُسی وقت طلبی ہوئی محمود نے نام و نشان پوچھا، فردوسی نے کہا طوس کا باشندہ ہوں محمود نے اُسکے حالات پوچھے اور اسی سلسلہ میں پوچھا کہ طوس کب سے آباد ہے اور کس نے آباد کیا، فردوسی نے تفصیل سے تمام واقعات بیان کئے، محمود نے شعرائے سبعہ کو بلوایا، اور فردوسی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ رستم و سہراب کی داستان اسی نے نظم کی ہے فردوسی نے اسی کے اشعار سُنائے تو سب حیرت زدہ رہ گئے، محمود نے خلعت عطا کیا، شعرا نے تحسین کی صدا بلند کی، عنصری نے بڑھ کر، فردوسی کے ہاتھ چوم لئے، اس زمانہ میں امرد پرستی عیب نہیں سمجھا جاتا، محمود نے فردوسی سے فرمایش کی کہ ایاز کے سبزۂ خط کی تعریف میں کچھ کہے، فردوسی نے برجستہ کہا
مست است بتا چشم تو‍ ؤ تیر بہ دست
بس کس کہ ز تیر چشم مست تو بخست
گر پوشد عارضت زرہ عذرش است
کز تیر بترسد ہمہ کس خاصہ ز مست
یعنی معشوق کی آنکھیں مست اور تیر بکف ہیں اُن تیروں نے ہزاروں کے دل چھلنی کر دیے ہیں اِس لئے اُن سے بچنے کے لئے رخساروں نے زرہ پہن لی ہے (خط کو زرہ سے تشبیہ دی ہے) کیونکہ مست سے سبھی ڈرتے ہیں، خصوصا جب اس کے ہاتھوں میں تیر ہو۔
محمود نہایت محظوظ ہوا اور شاہنامہ کی تصنیف کی خدمت سپرد کی، ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوا کہ فردوسی کو ایوان شاہی کے قریب ایک مکان دیا جائے، جو تمام ضروری سازوسامان سے آراستہ ہو، اور آلات جنگ، اسلحۂ حرب، شاہان عجم اور بہادروں اور پہلوانوں کے مرقعوں اور تصویروں سے سجا دیا جائے، ایک ایک شعر پر ایک ایک اشرفی صلہ مقرر ہوا اور
 
Top