لیکن فردوسی باوجود اسکے کہ اس کو تقدس کا دعویٰ نہیں ایسے موقعوں پر آنکھ نیچی کئے ہوئے آتا ہے اور صرف واقعہ نگاری کے فرض کے لحاظ سے ایک سرسری غلط انداز نگاہ ڈالتا ہوا گزر جاتا ہے۔ بیژن اور میترہ کی صحبت عیش کو جہان لکھا ہے، کہتا ہے
نشستنگہ رود دمی ساختند زبیگانہ خرگہ بپرد اختند
پرستندگان ایستادہ بہ پائے ابا بربط و چنگ و رامش سرائے
بہ دیباز میں کردہ طاؤس رنگ زدینار و دیبا جو چشتِ پلنگ
چہ از مشک و عنبر چہ یاقوت و زر سرا پردہ آراستہ سر بسر
مے سالخوردہ بہ جام بلور برآور دہ بابیژن گیوزور
سہ روز سہ شب شاد بودہ بہم گرفتہ براد خوابِِ ہستی ستم
زال اور رودابہ کے عاشقانہ اختلاط میں زیادہ پھیلا ہے، پھر بھی یہ رنگ ہے
گرفت آن زمان دست دستان دست برفتند ہر دو بکرد ارمست
سوئے خانہ زرنگار آمدند بدان مجلس شاہوار آمدند
شگفت اندران ماہ بار زال زر بدان روئے و بالا و آن موی وفر
دو رخسارہ چون لالہ اندر چمن سر جعد زلفش شکن در شکن
زدید نش رودابہ می نارمید بہ ردزیدہ دروے ہمی بنگرید
ہمی بود بوس و کنار و بنید نگر شیر۱ کو گور را نشکر ید
۴۔ عام خیال ہے کہ فردوسی بزم اچھی نہیں لکھتا بے شبہ یوسف زلیخا میں اس کی شاعری کا رتبہ بہت گھٹ گیا ہے، لیکن یہ اس کے رنج و غم اور دل شکستگی کا زمانہ تھا، جب اس کے تمام جذبات افسردہ ہو چکے تھے، یوسف زلیخا لکھنے سے اس کا مقصد صرف مذہبی جماعت کو خوش کرنا تھا۔ جو اتنی بات پر فردوسی سے ناراض تھے اسنے مجوسیوں کی مدح و ثنا میں کیوں اسقدر اوقات صرف کی، لیکن شاہنامہ میں جہان جہان بزم کا موقع آیا ہے، شاعری کا چمن زار نظر آتا ہے۔
زوال رو دابہ پر عاشق ہوا ہے،اسکے شوق میں گھر سے نکلا ہے۔ اسکو خبر ہوتی ہے وہ