(4)
رہا تھا ۔ فردوسی نے برجستہ کہا ، ع مانند سنان گیو در جنگ پشن
سب نے گیو اور پشن کی تلمیح پوچھی ۔ فردوسی نے تفصیل بیان کی ۔ اس وقت تو سب نے اس کو شریک صحبت کر لیا ، لیکن رشک اور حسد ایشیائی قوموں کا خاصہ ہے ۔ سب نے سازش کی کہ فردوسی دربار تک نہ پہونچنے پائے ۔۔ (1)
بعض روایتوں میں ہے کہ یہ مشاعرہ خود سلطان محمود کے دربار میں ہوا تھا ، سلطان محمود کے ندیموں میں ماہک نام ایک شخص صاحب مذاق تھا ۔ اس سے یہیں باغ میں ملاقات ہوگئی تھی ۔ فردوسی کی شیریں زبانی اور قابلیت دیکھ کر گرویدہ ہوا اور اپنے گھر میں لا کر رکھا ۔ کھانے کے بعد فردوسی سے اس کا حال دریافت کیا ۔ اس نے اپنی ساری داستان بیان کی ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطان نے شاہنامہ کی تصنیف کا حکم دیا تھا ۔ اور سات شاعر یعنی " عنصری " فرخی " زینی " عسجدی " منجیک چنگ زن خرمی " ابوبکر " اسکاف " ترمذی " اس کام کے لیئے انتخاب ہوئے تھے ۔
ماہک نے فردوسی سے شاہنامہ کی تصنیف اور شعراء کے انتخاب کا ذکر کیا ۔ فردوسی نے کہا ۔ میں بھی شعر کہتا ہوں موقع ہو تو دربار میں میرا بھی ذکر کر دینا ۔ ماہک نے اسی دن دربار میں جا کر فردوسی کی تقریب کرنی چاہی لیکن موقع نہ ملا ۔ اس طرح ایک ہفتہ گزر گیا ۔ ایک دن ماہک نے دربار سے آ کر بیان کیا کہ آج تمام شعرا دربار میں حاضر تھے اور شاہنامہ کی مختلف داستانیں سنائی جا رہی تھیں ۔ عنصری ( رستم و سہراب کی داستان نظم کی تھی ) جب یہ دو شعر پڑھے ۔۔
ہر آنگہ کہ تشنہ شدی تو بخون
بیا لودی این خنجر آب گون
زمانہ نجون تو تشنہ شود
بہ اندام تو موے دشنہ شود
تو سلطان محمود نے نہایت پسند کیا اور حکم دیا کہ عنصری ہی اس خدمت کے لیئے مقرر کیا جائے ۔ فردوسی اس وقت چپکا ہو رہا ۔ اور خود یہ داستان نظم کرنی شروع کی ۔ رات کو جب معمول کے موافق کھانے پر بیٹھے تو فردوسی نے کہا عنصری سے پہلے شعرا نے رستم و
(1) یہ دیباچہ شاہنامہ کی روایت ہے ۔ دولت شاہ کا بیان ہے کہ اس امتحان کے بعد عنصری نے فردوسی کی تحسین کی اور خود دربار شاہی میں لیجا کر پیش کیا ،