تمہید میں لکھا ہے کہ احمد بن سہل کے دربار میں ایک بڈھا تھا جو سام نریمان کی اولاد تھا۔ اس کے پاس سلاطین ایران کی تاریخ تھی۔ اور رستم کی اکثر داستانیں اسکو زبانی یاد تھیں۔ شغاد کا قصہ میں نے اس سے لے کر نظم کیا
یکے پیر بُدنامش آذاد سرد
کہ با احمد سہل بود ہے بہ مرد
کجا نامہ خسروان واشتے
تن و پیکر پہلوان دشتے
بہ سام نریمان کشیدش نثراد
بسے داشتے رزم رستم بیاد
بگویم سخن انچر زویا فتم
سکن رایک اندرد گریا فتم
فردوسی کا دعویٰ ہے ،ہم کو انکار کی کوئی وجہ نہیں لیکن امر غور طلب ہے کہ فردوسی نے خود تیسری جلد میں دقیقی کے اشعار کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
یکے نام دیدم پُرازداستان
سخنہائے ان پرمش راستان
فانہ کہن بودومنشور بود
طبائع نہ پیوندا و دور بود
گزشتہ بروسالیان دو ہزار
گرایدون کہ برتر نیاید شمار
گرفتم بگویندہ بر آفرین
کہ پیوندرا راہ دادا ندرین
تیسرے شعر میں صاف تصریح ہے کہ کتاب مذکور دو ہزار برس کی تصنیف تھی یہ ظاہر ہے کہ دو ہزار برس پہلے ایران کی جو زبان تھی ، وہ فردوسی کے زمانے کی زبان نہ تھی بلکہ ژندی یا اس کے قریب قریب ہو گی جو سنسکرت سے ملتی جلتی ہے اور جو پہلوی زبان سے بھی بہت مختلف ہے۔ اس لئیے یہ ثابت ہونا بہت ضروری ہے کہ فردوسی اس زبان سے واقف تھا یا کوئی شخص ترجمہ کرتا جاتا تھا۔ لیکن تذکروں اور خود فردوسی کے بیان میں اسکی کوئی شہادت موجود نہیں۔
شاہنامہ کے ماخذ کے متعلق، دیباچہ میں اور چند روایتیں مذکور ہیں، واقعہ نگاری کے فرض کے لحاظ سے ہم اُن کو بھی نقل کرتے ہیں۔ لیکن جہاں ان میں بدیہی غلطی ہے ہم اس کی تغلیظ کر دینگے۔
ساماینوں کو ایران کی تاریخ مرتب کرنے کا ہمیشہ خیال رہا۔ انہیں سے نوشیروان کو سخت شغف تھا، چنانچہ تمام اطراف و دیار میں قاصد بھیج کر ہر جگی سے تاریخی ذخیرے جمع کئیے