سوانح عمری فردوسی صفحہ 2

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سوانح عمری فردوسی
صفحہ
2



2yl5r84.jpg

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
(2)
چونکہ آبائی پیشہ زمینداری تھا ، اور جس گاؤں میں سکونت تھی ، خود اس کی ملک میں تھا ۔ اس لیئے معاش کی طرف سے فارغ البال تھا (1) ۔ وہ اطمینان کے ساتھ علمی مشغلوں میں بسر کرتا تھا اور کتب بینی کیا کرتا تھا ۔
شاہنامہ کی ابتداء اور دربار میں رسائی
یہ واقعہ جس قدر قطعی ہے اسی قدر اس کی تفصیل میں اختلاف ہے عام روایت یہ ہے کہ فردوسی داد رسی کے لیئے محمود کے دربار میں گیا ۔ یہاں اس کی شاعری کا جوہر کھلا ۔ اور شاہنامہ کی تصنیف پر مامور ہوا ۔ لیکن یہ قطعا غلط ہے ۔ فردوسی نے خود بیان کیا ہے کہ شاہنامہ کی تصنیف میں 35 برس صرف ہوئے ۔
سی و پنج سال از سرائے سپنج
بے رنج بردم بہ امید گنج
چو برباد دا دند گنج مرا
نبد حاصلے سی و پنج مرا
اور سلطان محمود کی کل مدت سلطنت 31 برس ہے ۔ شاہنامہ کے دیباچہ میں فردوسی نے خود سبب تصنیف بیان کیا ہے ۔ اس سے بھی اس روایت کی تکذیب ہوتی ہے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محمود کے دربار میں پہنچنے سے بہت پہلے وہ شاہنامہ شروع کر چکا تھا ۔ تفصیل ان واقعات کی شاہنامہ کے سبب تصنیف میں آگے آئے گی ۔
بہر حال اس قدر یقینی ہے کہ فردوسی نے وطن ہی میں شاہنامہ کی ابتدا کی اور ابو منصور نے جو طوس کا صوبہ دار تھا اس کی سرپرستی کی ۔ ابو منصور کے مرنے کے بعد طوس کا عامل سلان خان مقرر ہوا ۔ چونکہ شاہنامہ کا اب ہر جگہ چرچا پھیلتا جا رہا تھا ۔ سلطان محمود کو بھی خبر ہوئی ۔ سلان خان کے نام حکم پہنچا کہ فردوسی کو دربار میں بھیج دو ۔ فردوسی نے پہلے تو انکار کیا ۔ لیکن پھر شیخ معشوق کی پیشین گوئی یاد آئی ۔ اس لیئے راضی ہوگیا ۔ اور طوس سے چل کر ہرات آیا ۔ لیکن ادھر دراندازیاں شروع ہو گئیں ۔ دربار کا میر منشی بدیع الدین دبیر تھا ۔ اس نے عنصری سے کہا کہ بادشاہ کو مدت سے شاہنامہ کی تصنیف کا خیال تھا ۔ لیکن دربار کے شعراء میں سے کسی نے اس کی ہامی نہیں بھری ۔ اب اگر فردوسی سے یہ کام بن آیا تو تمام شعرائے دربار کی آبرو خاک میں مل جائے گی ۔ عنصری نے کہا بادشاہ سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ فردوسی کو الٹا پھیر دیجئے ۔ لیکن اس کی
(1) چہار مقابلہ صفحہ 60
 

حسان خان

لائبریرین
(۲)
چونکہ آبائی پیشہ زمینداری تھا ، اور جس گاؤں میں سکونت تھی ، خود اس کی ملک میں تھا۔ اس لئے معاش کی طرف سے فارغ البال تھا (۱) ۔ وہ اطمینان کے ساتھ علمی مشغلوں میں بسر کرتا تھا اور کتب بینی کیا کرتا تھا۔
شاہنامہ کی ابتداء اور دربار میں رسائی
یہ واقعہ جس قدر قطعی ہے اسی قدر اس کی تفصیل میں اختلاف ہے۔ عام روایت یہ ہے کہ فردوسی داد رسی کے لیئے محمود کے دربار میں گیا ۔ یہاں اس کی شاعری کا جوہر کھلا۔ اور شاہنامہ کی تصنیف پر مامور ہوا۔ لیکن یہ قطعاً غلط ہے۔ فردوسی نے خود بیان کیا ہے کہ شاہنامہ کی تصنیف میں ۳۵ برس صرف ہوئے۔
سی و پنج سال از سرائے سپنج
بسے رنج بردم بہ امید گنج
چو برباد دادند گنج مرا
نبد حاصلے سی و پنج مرا
اور سلطان محمود کی کل مدت سلطنت ۳۱ برس ہے۔ شاہنامہ کے دیباچہ میں فردوسی نے خود سبب تصنیف بیان کیا ہے۔ اس سے بھی اس روایت کی تکذیب ہوتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محمود کے دربار میں پہنچنے سے بہت پہلے وہ شاہنامہ شروع کر چکا تھا۔ تفصیل ان واقعات کی شاہنامہ کے سبب تصنیف میں آگے آئے گی۔
بہر حال اس قدر یقینی ہے کہ فردوسی نے وطن ہی میں شاہنامہ کی ابتدا کی اور ابو منصور نے جو طوس کا صوبہ دار تھا اس کی سرپرستی کی۔ ابو منصور کے مرنے کے بعد طوس کا عامل سلان خان مقرر ہوا۔ چونکہ شاہنامہ کا اب ہر جگہ چرچا پھیلتا جا رہا تھا۔ سلطان محمود کو بھی خبر ہوئی۔ سلان خان کے نام حکم پہنچا کہ فردوسی کو دربار میں بھیج دو۔ فردوسی نے پہلے تو انکار کیا۔ لیکن پھر شیخ معشوق کی پیشین گوئی یاد آئی۔ اس لیئے راضی ہوگیا۔ اور طوس سے چل کر ہرات آیا ۔ لیکن ادھر دراندازیاں شروع ہو گئیں۔ دربار کا میر منشی بدیع الدین دبیر تھا۔ اس نے عنصری سے کہا کہ بادشاہ کو مدت سے شاہنامہ کی تصنیف کا خیال تھا۔ لیکن دربار کے شعراء میں سے کسی نے اس کی ہامی نہیں بھری۔ اب اگر فردوسی سے یہ کام بن آیا تو تمام شعرائے دربار کی آبرو خاک میں مل جائے گی۔ عنصری نے کہا بادشاہ سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ فردوسی کو الٹا پھیر دیجئے۔ لیکن اس کی
------------------
(1) چہار مقابلہ صفحہ ۶۰
 
Top