امن وسیم
محفلین
❓ آزمایش اور بلند مراتب
سوال: مفتی شفیع صاحب سورۂ انبیاء کی تفسیر میں حضرت ایوب علیہ السلام کے قصے کے ذیل میں ایک روایت نقل کرتے ہیں: ’اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الصالحون ثم الامثل فالامثل‘۔ سوال یہ ہے کہ جس مومن پر سخت آزمایش نہیں آتی، اس کا مقام اللہ کے نزدیک بہت چھوٹا ہے۔ وضاحت فرمادیں۔ (وحدت یار)
جواب: اگر بڑی آزمایش یا سخت آزمایش کا مصداق صرف جسمانی تعذیب کو قرار دیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعواے ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی، معاشی بھی ہوتی ہیں اور معاشرتی بھی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو طائف کے سفر میں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہرا دی اور وہ دوزخ میں چلا گیا ، آخرت کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو دونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں، دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔
حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعویٰ ہے۔ ظاہر ہے انبیا جس سطح پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخ رو ہو کر نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انھیں یقیناً اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوگا، لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماً بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
____________
سوال: مفتی شفیع صاحب سورۂ انبیاء کی تفسیر میں حضرت ایوب علیہ السلام کے قصے کے ذیل میں ایک روایت نقل کرتے ہیں: ’اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الصالحون ثم الامثل فالامثل‘۔ سوال یہ ہے کہ جس مومن پر سخت آزمایش نہیں آتی، اس کا مقام اللہ کے نزدیک بہت چھوٹا ہے۔ وضاحت فرمادیں۔ (وحدت یار)
جواب: اگر بڑی آزمایش یا سخت آزمایش کا مصداق صرف جسمانی تعذیب کو قرار دیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ بات زیر بحث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دعواے ایمان کو آزمایشوں سے گزارتے ہیں تاکہ دل کا کھوٹ یا ایمان کی کمزوری واضح ہو جائے اور کسی عذر کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ یہ آزمایشیں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی بھی، معاشی بھی ہوتی ہیں اور معاشرتی بھی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو طائف کے سفر میں بھی ایک ابتلا پیش آئی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگی تو وہ بھی ایک ابتلا تھی۔ اگر آزمایش کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ایک ہی درجے کی ہیں۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو غربت کی آزمایش نے ایمان کی بازی ہرا دی اور جہنم میں چلا گیا اور وہ آدمی جس کی دولت نے ایمان کی بازی ہرا دی اور وہ دوزخ میں چلا گیا ، آخرت کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو دونوں بڑی آزمایش سے گزرے۔ ہاں، دنیا میں ہمیں دھوکا ہوتا ہے کہ دولت والے پر کوئی آزمایش نہیں آئی۔
حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول آزمایش کا بیان ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ایمان کو پرکھتے ہیں تو اسی سطح پر پرکھتے ہیں جس سطح کا دعویٰ ہے۔ ظاہر ہے انبیا جس سطح پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں، اسی سطح کے مطابق ان پر امتحان بھی آتے ہیں اور وہ ان امتحانات سے سرخ رو ہو کر نکلتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسرے نیک لوگوں کا بھی ہے۔ جو ان امتحانات میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انھیں یقیناً اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوگا، لیکن یہ بات قیامت کے دن ظاہر ہو گی۔ دنیا میں بڑی تکلیف کا آنا لازماً بلند مرتبہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
____________