سوئٹزرلینڈ کی غیر جانبداری اور مساجد

جیسبادی

محفلین
up09.gif


اوپر کسی نے ٹرنیڈاڈ میں ٹیریر کی خبر لگائ ہے۔ کم از کم خبر ہی کسی عقل کی جگہ سے پڑھ لیا کریں۔

http://wsws.org/articles/2007/jun2007/jfk-j07.shtml
 

مہوش علی

لائبریرین
جیسبادی نے کہا:
up09.gif


اوپر کسی نے ٹرنیڈاڈ میں ٹیریر کی خبر لگائ ہے۔ کم از کم خبر ہی کسی عقل کی جگہ سے پڑھ لیا کریں۔

http://wsws.org/articles/2007/jun2007/jfk-j07.shtml

بہت شکریہ جیسبادی، اور باقی سب سے بہت معذرت
واقعی ہم سے غلطی ہوئی کیونکہ جنگ اخبار کی مختصر خبر میں تفصیل نہیں تھی بلکہ صرف "عبدالنور" کا نام تھا اور اسی بنیاد پر یہ غلط فہمی ہوئی اور چونکہ آجکل پاکستانی سیاست محورِ توجہ ہے اس لیے اس خبر کی تحقیق بھی نہیں کر سکی۔
 
مہوش علی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
مہوش علی نے کہا:
ابوشامل برادرؒ:

۔۔۔۔۔تو مقامی و غیر ملکی مسلمانوں کی تعداد میں‌ روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے تو ان کے لیے عبادت گاہوں کی ضرورت ہے لیکن آپ کا یہ نقطۂ نظر کہ انہیں تعمیر نہیں کرنے ‌دیا جا رہا تو ٹھیک کیا جا رہا ہے، لیکن جہاں ضروری ہی نہیں وہاں ‌بنانے پر زور۔ یہ دوغلہ نقطۂ نظر آخر کیوں؟

بھائی جی،
میں نے کب کہا ہے کہ مسلمانوں کو یورپ میں مساجد تعمیر نہیں کرنے دیا جا رہا ہے تو ٹھیک کیا جا رہا ہے؟؟؟ بھائی جی مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہو رہی ہے بلکہ اکثر آپ سے گفتگو کے دوران مجھے آپ کے آرگومنٹ سمجھ نہیں آ پاتے ۔ شاید میری عقل کا ہی قصور ہو۔ اور اللہ بہتر جاننا والا ہے۔


ابو شامل برادر:

ویسے کچھ عرصہ قبل ہی لاہور میں‌ایک مندر (کٹاس راج مندر) کا افتتاح ہوا ہے اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟ (اس بارے میں بھی بتائیے گا کہ مساجد گرا کر مندروں کو آباد کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟)

اگر مسجد گرا کے مندر آباد کرنے کی بات ہے تو شاید آپ بابری مسجد کی بات کر رہے ہیں۔
تو بھائی جی،
میرا نظریہ تو ہمیشہ بہت صاف رہا ہے کہ "انتہا پسندی" جہاں بھی جس طبقے اور قوم میں بھی آ جاتی ہے، وہ فتنہ ہے۔ چاہے یہ مسلمان انتہا پسندی کا فتنہ ہو یا ہندو، عیسائی، یہودی انتہا پسندی کا۔۔۔۔۔ یا پھر لسانی و علاقائی انتہا پسندی کا۔ ۔۔۔۔ یہ سب انتہا پسندیاں فتنہ ہیں۔


ابو شامل برادر:


مجھے آپ کے اس امر سے اختلاف ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ نئی اقلیتی عبادت گاہوں کے قیام کا مخالف ہے اور نہ ہی میرے علم میں یہ ہے کہ مودودی نے اپنی کسی کتاب میں ان پر پابندی لگانے کا ذکر کیا بلکہ میری معلومات کے مطابق "اسلامی ریاست" نامی کوئی کتاب مولانا نے نہیں لکھی۔

مولانا مودودی کی اس کتاب کا نام اگر "اسلامی ریاست" نہیں تو پھر "حکومت اسلامی" تھا، اور میں نے خاص طور پر یہ انکی یہ کتاب غیر مسلمین کے حوالے سے پڑھی تھی۔ اس کے علاوہ بھی میرے مطالعہ میں علماء حضرات کی آراء آتی رہی ہیں (اگرچہ کہ میرے پاس ابھی ریفرنس موجود نہیں) کہ غیر مسلمین کو نئی عبادت گاہیں آباد نہ کرنی دی جائیں۔

بہرحال اس مسئلے کو ٹھوس ثبوت آنے تک مؤخر کرتے ہیں۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور میں نے مسلمان کالم نگار پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

اگر سوئٹزر لینڈ میں صرف 4 مساجد ہیں تو اسکی تعداد کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے، مگر مسلم ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے کہ انہیں زبردستی روکا گیا ہوا ہے کہ وہ مزید مساجد نہ بنا سکیں۔

تو اسکے جواب میں آپ نے کچھ عجیب ہی آرگومنٹ دیا ہے جو یہ ہے:

آپ ہی بتائیں میں کیا کہوں! آپ لوگ آخر ہر چیز کا ذمہ دار مسلمانوں کو ہی کیوں ٹھہراتے ہیں۔ دیکھیں معتدل نقطہ نظر یہ نہیں ہوتا کہ آپ معاملات کو ایک ہی نظر سے دیکھیں، نائن الیون، سیون الیون، سیون سیون، میڈرڈ بم دھماکے، مساجد کا معاملہ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز کارٹون ہر معاملے میں مسلمان قصور وار اور دیگر تمام بری الذمہ! واہ کیا neutral نقطۂ نظر ہے!

پہلی بات تو یہ کہ آپکا یہ جواب کہیں بھی میرے اعتراض سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔
دوم یہ کہ میری نظر کے متعلق آپ پوچھ رہے ہیں تو نائن الیون، میڈرڈ بم دھماکے مسلمان انتہا پسندوں کی غلطی اور اُن مسلمان انتہا پسندوں کی بھی جو آج تک اسکا دفاع کر رہے ہیں۔
جبکہ کارٹوں کا شائع کرنا اہل مغرب کی زیادتی۔

تو جو میرا نظریہ ہی نہیں تھا آپ نے کیسے اُسے مجھ پر لاگو کر دیا۔ یا حیرت۔

تو جب یورپ میں رہنے والے مسلم احمقانہ حرکتیں کریں گے تو اسکا خمیازہ انہیں مغرب میں نفرت کی صورت میں ہی ملے گا اور تبلیغ کی جو آسانی ملی ہوئی ہے، وہ بھی جاتی رہے گی۔

مثلا آج ہی جنگ اخبار کی خبر ہے

up09.gif


تو مجھے جیسے لوگ تو اسکی کھل کر مخالفت کرتے ہیں، مگر ابو شامل بھائی آپ جیسے حضرات کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ایسی حرکتوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہوتے ہیں یا پھر خاموش ہوتے ہیں (یعنی مغرب کی غلطیوں پر فورا احتجاج آتا ہے مگر مسلم انتہا پسندی کی صورت میں کبھی مذمت دیکھنے کو نہیں آتی)۔ بہرحال یہ میری رائے تھی جو شاید آپ کے انفرادی معاملے میں غلط ہو، مگر اکثریت اسی دو رخے کردار میں مبتلا ہے۔

\\\\\\\\\\\\\\\\\\

میناروں کے متعلق میں پہلے ہی لکھ چکی ہوں کہ میں خود اسکی تعمیر کے حق میں ہوں۔ شاید اگر نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں یورپ میں شاید اتنی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور آسانی سے مینار بنانے کی اجازت مل جاتی۔

(مثلا جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں ابھی ایک مسجد کا نقشہ بمع میناروں کے منظور ہوا ہے اور شہر کے جرمن ناظم نے خود دلچسپی لے کر یہ نقشہ منظور کروایا ہے کیونکہ سڑک کے دوسری طرف ایک کلیسا اپنے بلند مینار کے ساتھ موجود تھا۔


بہرحال شاید پاکستان میں رہنے والے یہ بات نہ سمجھ سکیں، مگر یورپ میں امریکہ جیسا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر شہر کے تعمیر کا ایک مزاج ہے اور اس میں ہمیشہ میناروں جیسی عمارتوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ تو آجکل مساجد کے مینار تعمیر کرنے کی مخالفت صرف مذھبی عناد کی وجہ سے نہیں ہے (جیسا کہ پاکستانی قلم کار تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں) بلکہ اصل آرگومنٹ تمام قسم کی میناروں جیسی عمارتوں کی تعمیر کا ہے۔ (یعنی آپ کو مسجدیں بنانے کی مکمل آزادی ہے جہاں آپ کھل کر عبادت و تبلیغ کریں، مگر صرف مینار نہ بنائیں)۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\

اور یورپ کی عوام کو صلیبی جنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے (سوائے شاید بہت ہی قلیل اقلیت کے)۔ بلکہ عوام کی اکثریت جنگ کو برا سمجھتی ہے اور امن کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان انتہا پسند اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو یہ چیز وقت کے ساتھ ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ صلیبی انتہا پسند پھر سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور انہیں عوام کی حمایت بھی ملنا شروع ہو جائے گی۔ (جبکہ آج ان صلیبی انتہا پسندوں کو یورپ کی عوام کوئی وقعت نہیں دیتی )۔

مولانا مودودی کی کتاب کا نام ‘اسلامی ریاست‘ ہی ہے اور یہ کتاب میرے پاس بھی ہے۔ میں نے یہ کتاب پوری نہیں پڑھی ہے ، مہوش آپ کو یاد ہے کہ کس باب میں مولانا مودودی نے اقلیتیوں کی عبادت گاہیں تعمیر نہ کرنے کی بات کی ہے تاکہ کم از کم اس بات کی تصدیق ہو جائے اسی بحث کے دوران۔

محب،
اس کتاب میں "اقلیتوں کے حقوق" کے متعلق پورا ایک باب تھا۔ اسی میں آپکو عبادت گاہوں کا مسئلہ بھی مل جائے گا۔

مہوش ،

کتاب لاہور میں ہے اور میں یہ پورا باب پڑھ کر یہاں وہ عبارت نقل کردوں گا سیاق و سباق کے ساتھ۔ مولانا مودودی نے اگر کوئی دلیل قرآں و حدیث نہ دی ہوئی تو کم از کم میں ان سے اختلاف رکھتا ہوں اس معاملے میں۔
 

ابوشامل

محفلین
بہت شکریہ جیسبادی، اور باقی سب سے بہت معذرت
واقعی ہم سے غلطی ہوئی کیونکہ جنگ اخبار کی مختصر خبر میں تفصیل نہیں تھی بلکہ صرف "عبدالنور" کا نام تھا اور اسی بنیاد پر یہ غلط فہمی ہوئی اور چونکہ آجکل پاکستانی سیاست محورِ توجہ ہے اس لیے اس خبر کی تحقیق بھی نہیں کر سکی۔

اللہ بھلا کرے محب صاحب کا نہیں تو آپ تو ہمارے خلاف ایک پوائنٹ اسکور کر چکی تھیں :wink:

اسلامی ریاست کتاب کے بارے میں آپ نے جو کہا ہے، اس کو سیاق و سباق کے ساتھ جلد پیش کریں۔
 
Top