سمندر عشق

نور وجدان

لائبریرین
عینک ڈھونڈتا رہتا ہے حالانکہ عینک تو اس نے اپنی آنکھوں پر لگا رکھی ہوتی ہے ۔“اس کی باتوں میں ایسا ردھم ہوتا تھا کہ کسی موسیقی کا سا گمان ہوتا تھا میں نے اس سے پوچھا باتوں میں ترتیب کا فن کیسے آتا ہے ؟کہنے لگا تم نے کبھی محبت کی ہے ؟ نہیں کی تو کرلو۔محبت کرتے ہی انسان کی گفتگو میں شاعرانہ پن آجاتا ہے اس کی تحریر و تقریرمیں دریاﺅں کی سی روانی، گفتگو میں چشموں کی سی جولانی اور لہجے میں شیرینی ٹپک آتی ہے
میں نے اسے کہا کہ محبت تو سراسر گھاٹے کا سودا ہے اپنی اناکو کسی کے قدموں میں تذلیل کرانا کہاں کی عقلمندی ہے ۔ہمیں تو اپنی خودی عزیز ہے کہنے لگا کسی کی چاہت میں اسکے سامنے اپنی انا کو قربان کر نا اور سر خم تسلیم کرنے میں بھی اپنا ہی مزہ ہے جو صرف اہل دل کو ہی سمجھ میں آتا ہے کبھی نماز کا فلسفہ سمجھوتو جانو کی محبت کیا ہے جب ایک نمازی اپنے محبوب حقیقی کی بارگاہ میں اپنا سر جھکاتا ہے توجو سکون اسے اس لمحے محسوس ہوتا ہے وہ تنی ہوگردن اور اکڑے ہوئے جسم میں نہیں ملتا میں نے کہا یہ تو محبت حقیقی کی بات ہے لیکن ہم مجازی محبت کی بات کر رہے ہیں کہنے لگا ”کب کوئی مجازی محبت کامسافر حقیقی محبت کی طرف گامزن ہوجائے کون جانے ؟“
میں نے کہا مجھے محبت کے بارے کچھ اور بتاﺅ ۔یہ کونسا شعلہ ہے جو عقل و شعور کے سارے خرمن جلا دیتا ہے یہ کونسی آگ ہے جو ارادوں اور توانائیوں کو پگھلا کے راکھ کر دیتی ہے یہ کونسا دیوانہ پن ہے جو گلیوں میں دھول اڑانے ، جوگ لینے اور صحراﺅں کی ریت چھاننے میں لذت دیتی ہے اور ایسا کیوں ہوتاہے کہ محبت کی اکثر داستانوں میں محبت کرنے والوں کو ناکامی یا جدائی کا کرب سہنا پڑتاہے ؟
کہنے لگا محبت کا سفر ہے ہی درد کا سفر ، محبت کا اور درد کا بڑا گہر ا تعلق ہے محبت کا صحیح ادراک ہی اس وقت ہوتا ہے جب محب جدائی کی بھٹی میں سے گزرتا ہے کیونکہ انسان بڑا متکبر ہے اس کا دل میسرو موجود سے بہلتا نہیں ہے یہ اکثر اسی کی تلا ش میں سرگرداں رہتا ہے کہ جو اس کی دسترس سے باہر ہویہ اسی سے کلام کا خواہشمند رہتا ہے جو بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہوں اس کی نظر میں آئیڈیل ہی وہی ہے جس کا حصول مشکل ہو
کہنے لگا میری محبت کی داستان بھی کچھ ایسی ہی عجیب ہے مجھے بھی محبت کی سمجھ اس وقت آئی جب وہ مجھے چھوڑ کر جاچکی تھی میرے تجسس بھرے استفسار پر اس نے کہا کہ ”میں سمندر عشق کے کنارے بیٹھ کر اس کی آتی جاتی موجوں کو دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا ادیبو ں کی کہانیوں اور شاعروں کی شاعری کو محض افسانوی کرداروں کے قصے خیال کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ محبت کا یہ تجربہ حقیقی زندگی میں کبھی ممکن نہیں ہوسکتا
لیکن پھر وہ ایک ملاح کی طرح آئی اس نے مجھے سمجھایا کہ اس پریم ساگر کا اصل لطف تو اس کی اندر اترنے میں ہے اور اس کی بل کھاتی موجوں میں تیر نے میں ہے اس نے مجھے کچھ ایسے اپنے پن سے منایا کہ میں جو دین و دل کو عزیز رکھتا تھا خودکواس کے حوالے کر بیٹھا، اس نے ایک ماہر ملاح کی طرح مجھے سفینہءچاہت میں سوار کرایا اور پریم ساگر کے گہرے پانیوں میں پہنچا دیا ، سمندر کی خوبصورتی واقعی موجوں کے درمیان ہوتی ہے اس کے گہرے نیلگوں پانی میں آنکھوں کو کیسی تراوٹ ملتی ہے اس کی لہروں میں سماعتوں کو کیسی موسیقی نصیب ہوتی ہے کشتی کے ہچکولوں میں بچپن کے جھولوں کے کیسا مزا محسوس ہوتا ہے ،شام کے پہلے پہر پانی کو بوسہ دیتے سورج کا نظارہ کیسے دم بخود کردیتا ہے مچھلیوں سے آنکھ مچولی کھیلتے پرندوں کی اڑان کتنی سحر انگیز ہوتی ہے ،صاف پانیوں میں ڈولفن کا رقص کتنا دل نشین ہوتا ہے اور سمندری ہوائیں بدن کے کونے کونے کو کیسے شاد کرتی ہیں اس کا اندازہ ساحل پر کھڑے ہوکرکیا ہی نہیں جا سکتا لیکن میں ابھی ان تمام نظاروں سے بہرطور بحرہ ور ہی نہیں ہوا تھا کہ میری بے خودی کی سی کیفیت چکنا چور ہوگئی اوروہ مجھے زندگی کی دوپہر، بیچ سمندر گہرے بھنور میں میں چھوڑکر چلی گئی “
میں نے پوچھا کیوں ؟ایسا کیوں ہوا ؟وہ جس نے تمہیں محبت کے اتنے دلنشین تجربہ سے آشنا کرا یا وہ تمہیں بیچ بھنور میں چھوڑ کر کیوں چلی گئی؟ وہ کہنے لگا ”دراصل میں نے محبت میں محنت اس بڑھیا کی طرح کی تھی جس نے بہت وقت لگا کر سوت کاتا اور پھر اپنے ہی ہاتھوں سے اسے الجھا دیا، میں نے یہ محنت تھکن میں چور اس اسٹوڈنٹ کی طرح کی تھی جس نے بڑی محنت سے کمپیوٹر پر اپنا پراجیکٹ تیار کیا لیکن عین اس وقت جب اس نے فائل سیو کرنے کے آپشن پر” یس “کلک کرنا تھاغلطی سے ”نو “ کلک کردیا “
کہنے لگا” میری ایک بات پلے باندھ لو۔۔ محبت اظہار مانگتی ہے ، اور اس میں لمحوں کی تاخیر سالوں کی سزا کے نتیجے میں بھگتنا پڑتی ہے مجھ سے بھی یہی غلطی ہوئی میں سمندر عشق کے دلفریب نظارے میں اتنا محو ہوا کہ اپنی محسن ملاح کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شکریہ ادا کرنے میں تاخیر کر گیا یہی وہ غلطی ہے جو اکثر مردوں سے ہوتی ہے وہ عورتوں کی محبت سمجھنے میں ہمیشہ دیر کر دیتے اور سمجھ نہیں پاتے کہ عورت اعتماد سے بھر پور مردوں کو پسند کرتی ہیں تم نے کبھی غور کیا ہے کہ عورتیں اکثر فلرٹ قسم کے مرد وں کی محبت کے جال میں کیسے پھنس جاتی ہیں اور چکر باز مردہی عورتوں کو محبت میں بے وقوف بنانے میں کامیاب کیوں ہوجاتے ہیں ؟کیونکہ ان کے پاس صرف ایک ہتھیار ہوتاہے اور وہ ہوتا ہے اعتماد کا اوربروقت اظہار کا۔ فلرٹ مرد اظہار میں کمال اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہیں تو وہ چاہے جھوٹ ہی بول رہے ہوں عورتیں ان کے دام میں آجاتیں ہیں “
مجھے اس کی کہانی میں دلچسپی محسوس ہونا شروع ہو گئی میں نے اس سے پوچھا کہ پھر کیا ہوا ؟ کیا وہ کبھی لوٹ کر نہیں آئی ؟ کیا اس نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا کیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی ؟ کیا تم نے اسے ہاتھ پکڑ کر روکنے کی کوشش نہیں کی ؟میرے اتنے سارے ایک ساتھ سوالو ں کو جواب میں اس نے مسکرا کر کہا” عورت جب جانے کا ارادہ کرلے تو اس کا ہاتھ پکڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانے کا اظہار کرنے سے پہلے پہلے جاچکی ہوتی ہے اور جہاں تک لوٹ آنے کی بات ہے تو یاد رکھو۔۔۔۔
ایک دفعہ تو سب ہی لوٹ کر ضرورآتے ہیں، کوئی یہ بتانے کیلئے آتا ہے کہ وہ تمہاری زندگی سے جا چکا ہے او ر اس کا انتظارفضول ہے ، کوئی ایک بار پھر سے تمہیں برباد کرنے اور دوبارہ چھوڑ جانے کیلئے آتا ہے ، کوئی تمہاری آخری مسکراہٹ ،تو کوئی تمہارآخری آنسو چرانے آتا ہے ، کوئی تمہیں بڑے تکبر سے یہ بتانے آتا ہے کہ تمہارے بغیر وہ بڑے مزے میں رہ رہا ہے حالانکہ حقیقت میں وہ تمہیں پانے کے لیے مرے جارہا ہوتا ہے ، کوئی تمہیں یہ بتانے آتا ہے کہ اس نے تمہیں پیار تو کیا تھا لیکن اب و ہ تمہیں پیار نہیں کرتا ، کوئی تمہیں آخری بارایک دفعہ گلے لگانے آتا ہے کیونکہ جو مزہ اسے تمہارے دامن سے لپٹنے میں آیا تھا اتنی گرمجوشی اسے کسی اور معانقے میں نہیں ملی ہوتی ، کوئی نئے سرے سے تمہاری توہین کرنے آتا ہے اور تمہیں کمال شائستگی سے اپنی بے عزتی کرواتے ہو، کوئی تم سے معافی مانگنے آتا ہے اور تم سے اپنے دل کے دروازے کھولنے کی التجا کرتا ہے کیونکہ اسے سمجھ آچکی ہوتی ہے کہ تمہارے بغیراسکی زندگی دھندلی سی ہے اور یہ کہ وہ تمہارے بغیر جی نہیں سکتا“اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ”کہ ایک دفعہ تو سارے ہی لوٹ کر آتے ہیں بس دیکھنا یہ ہے کہ تم اس وقت کیا فیصلہ کرتے ہو۔۔۔“
میں نے پوچھا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ لوٹ کر آئی اس نے کہا کہ ہاں وہ لوٹ کر آئی جب میری ساڑھ ستی ختم ہوئی تو وہ لوٹ کر آئی میں نے حیرت سے پوچھا ” ساڑھ ستی؟“ اسنے مسکر ا کر کہاں ہاں وہ ٹھیک سات سال بعد لوٹ کر آئی میں نے برا سا منہ بنا کر کہاکہ اتنے انتظار کے بعد آئی بھی تو اس کے آنے کا کیا فائدہ ؟کہنے لگا محبت میں فائدہ و نقصان نہیں دیکھا جاتا اور محبت میں وقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اگر محبت روح سے کی جائے تو جسمانی ساخت ، زمان و مکان اوروقت کی حدود و قیود کا کوئی معنی نہیں رہتا میں نے کہا پھر بھی جدائی اور کرب کے جو سات سال تم نے گزارے اس کا حساب کون دے گااور اس کے اتنے مدت بعد لوٹ آنے پر بھی تم اتنے شاداں و فرحاں کیوں ہو
وہ کہنے لگا ”تم نے کبھی کرکٹ میں سنچری بنانے والے بیٹسمین کوچہرے کو د یکھا ہے کبھی اس کی مسرت کا اندازہ لگایا ہے جب وہ اپنے سو رنز پورے کر لیتا ہے تو اسے یہ یاد بھی نہیں رہتا ہے کہ کتنی دفعہ وہ کیچ آﺅٹ ہوتے ہوتے یا اپنی دوڑ پوری کرنے کی چکر میں رن آﺅٹ ہوتے ہوتے بچا ہے اسی طرح اگر منزل محبوب ہو تو اسے پالینے کے بعد یہ یاد نہیں رہتا کہ اس کی دوری میں کتنا کرب اور کتنا دکھ تھابلکہ اس کی قربت میں ایک ایک پل سہانہ محسوس ہوتا ہے جب محبوب سمندر عشق کی سیر کراتا ہے تواس کی ہمراہی میں سات پل کیسے سات سالوں کے سفر کی تھکن غائب کردیتی ہے اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے جسے محبت نصیب ہوتی ہے
محمود اصغر چوہدری ایڈیٹر جذبہ اٹلی
 
Top