سلمان تاثیر قتل میں ضعیف روایت کا کردار

مہوش علی

لائبریرین
اس بات میں اختلاف ہے کہ پاکستان کا موجودہ توہین رسالت قانون قرآن و حدیث کے مظابق ہے یا نہیں۔

۔1۔ امام ابو حنیفہ کا فتوی

امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں سورۃ توبہ کی آیت 12 کے ذیل میں، اور عون المعبود میں "باب الحکم فیمن سِب النبی" کے ذیل میں امام المنذری کے حوالے درج ہے کہ:۔


أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا" الآية.


یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم رسول (ص) کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا)۔


۔2۔ رسول (ص) کی اپنی ثانبت شدہ سنت

صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
' اورحضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشرکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے کوگوارا نہیں کرتا۔ میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنےایسے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ' ' ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی '' میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور '' اچھا فرمایا ۔ '' ( صحیح مسلم ) ۔

چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر جناب ابو ہریرہ نے اپنی والدہ کو قتل نہیں کر ڈالا کہ انہوں نے بدکلامی کی، بلکہ آپ رسول (ص) سے انکے لیے دعا کرانے کے لیے پہنچ گئے۔

اور رسول خدا (ص) نے بھی اس پر جناب ابو ہریرہ کو برا بھلا نہیں کہ کہ اپنی ماں کو توہینِ رسالت مین قتل کرنے کی بجائے میرے پاس کیوں آ گئے ہو۔

نہیں، بلکہ اللہ کے رسول (ص) نے جناب ابو ہریرہ کی والدہ کو قتل کرنے کی بجائے انکی ہدایت کی دعا فرمائی۔



علماء حضرات کا سلمان تاثیر شہید کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار

سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھی جائے نہ ہلاکت پر افسوس کیاجائے، علماء
۔۔۔پانچ سو سے زائد علماء ومفتیان کرام نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی عبرتناک موت پر اپنے مشترکہ بیان میں مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ نہ کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھے نہ پڑھانے کی کوشش کرے اور گورنر کی ہلاکت پر کسی قسم کے افسوس یا ہمدردی کا اظہار ہرگز نہ کیا جائے۔ گستاخ رسول کا حمایتی بھی گستاخ ہے۔ قائدین علماء اہلسنت نے کہاکہ گورنر کو ہلاک کرنے والے عاشقِ رسول غازی ملک ممتاز حسین قادری کی جرأت، بہادری ایمانی غیرت ودینی حمیت کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس جانباز نے امت کی چودہ سو سالہ روایت کو باقی رکھا اور دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ قائدین وعلماء اہلسنت نے کہاکہ قانون ناموس رسالت کی مخالفت اور گستاخان رسول کی حمایت کرنے والے وزراء سیاستدان، نام نہاد دانشور، اینکر پرسن ودیگر گورنر پنجاب کی موت سے عبرت حاصل کریں۔ ۔۔۔

یہ چیز مناسب نہیں ہے کہ کوئی طبقہ بھی دین کا ٹھیکیدار بن بیٹھے اور نماز جنازہ کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرنے لگے۔

سلمان تاثیر کے قتل اور نمازِ جنازہ نہ پڑھانے کی دلیل

سلمان تاثیر مرحوم پر یہ لوگ براہ راست تو توہین رسالت کا کوئی الزام لگا کر انکے قتل اور نمازِ جنازہ سے انکار کا کوئی جواز تو پیش نہ کر سکے۔

آخر میں جب ان حضرات کے اس فیصلے پر تنقید ہوئی کہ جس میں انہوں نے سلمان تاثیر کا نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا، اور ممتاز قادری کے قتل کی مذمت نہ کی، تو انہوں نے جواب میں ان حضرات نے اپنے طرز عمل کے حق میں فقط یہ 1 دلیل پیش کی، اور یہ دلیل ہے حضرت عمر کا واقعہ، جسکی تفصیل ان علماء حضرات کی ہی زبانی سنیے:۔

اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریمﷺ نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول ﷺ! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )
[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.


یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریمﷺ کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے۔ چنانچہ سلمان تاثیر نے نبی (ص) کے فیصلے سے عدم اتفاق کیا ہے اور اس لیے ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل بالکل درست کیا ہے، اور اسی لیے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ نہیں ۔

جواب: علماء حضرات کی طرف سے پیشکردہ حضرت عمر والا واقعہ "ضعیف" ہے

حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:۔

  1. یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
  2. یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
  3. یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
  4. اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ ﷺ کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول ﷺ کی وفات کے 117 سال کے بعد)


یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ مگر چونکہ ان لوگوں کو فساد پھیلانا ہے، اس لیے اس “صحیح” حدیث کو چھپا کر ایک ایسی روایت کے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے بیٹھے ہیں جو کہ غریب اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منکر بھی ہے اور ان سب کو اسکا علم بھی ہے۔ مگر اس علم کے باوجود یہ منافقت جاری ہے۔

سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔
اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)۔
امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی روایت کا لنک یہ ہے۔ دوسری روایت کا لنک یہ ہے۔

سلمان تاثیرمرحوم کا قتل فقط اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے

ممتاز قادری اکیلا نہیں ہے، بلکہ اس وقت لاکھوں ممتاز قادری جیسے انتہا پسند موجود ہیں جو مسلسل سلمان تاثیر مرحوم کے قتل کو بالکل حق بجانب کہہ رہے ہیں اور انکی دلیل یہی ضعیف اور منکر روایت ہے۔

سلمان تاثیر مرحوم پر تو وہ براہ راست گستاخیِ رسول ثابت نہیں کر پائے کہ اسکی بنیاد پر انکے قتل کو حق بجانب قرار دیتے۔ مگر اب انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔

چنانچہ یاد رکھیے کہ سلمان تاثیر مرحوم کا قتل توہین رسالت کی پاداش میں نہیں ہوا بلکہ اسکی وجہ علماء حضرات کا صحیح روایت کو چھوڑ کر مسلسل یہ ضعیف اور منکر روایت کا بیان کرنا اور اسے عام مسلمانوں کے ذہنوں میں بٹھا کر انکی برین واشنگ کر دینا ہے، اور اسکے بعد آپ یونہی ماروائے عدالت قتل ہوتے دیکھیں گے جہاں بس الزام لگانے کی دیر ہے اور پھر انسان کو کوئی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا اور نہ کسی گواہوں کی ضرورت ہو گی، بلکہ جنگل کے قانون کی مانند کشت و خون کیا جا رہا ہو گا۔

اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
نوٹ: یہ آرٹیکل براہ راست "توہین رسالت کے موجودہ قانون" کے متعلق نہیں ہے، بلکہ فقط قرآن و حدیث سے کھلواڑ کرنے کے متعلق ہے، وہ کھلواڑ جسکے ذریعے ممتاز قادری جیسے قاتل کو ہیرو بنایا گیا، وہ کھلواڑ جسکے ذریعے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کیا گیا، ان کے بہیمانہ قتل کو افسوسناک قرار دینے کو اسلام کے خلاف قرار دیا گیا۔

اگر کسی نے بذات خود اس "موجودہ توہین رسالت قانون" کے متعلق پڑھنا ہے کہ یہ کیسے قران و حدیث کی مخالفت کر رہا ہے، تو اس لنک پر آپ بہت تفصیل سے یہ تمام ثبوت و دلائل پڑھ سکتے ہیں۔

موجودہ توہین رسالت قانون قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔

تفصیلی آرٹیکل یہاں ملاحظہ فرمائیے (لنک)۔


امید تو ہے کہ اس تفصیلی آرٹیکل کے بعد کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے گا۔ مگر پھر بھی کسی کو بذات خود اس موجودہ قانون پر بحث کرنی ہے تو اسکے لیے علیحدہ لڑی کھول لیجئے، مگر سلمان تاثیر والی اس لڑی میں غیر متعلقہ بحث نہ چھیڑئیے۔
 
نوٹ: یہ آرٹیکل براہ راست "توہین رسالت کے موجودہ قانون" کے متعلق نہیں ہے، بلکہ فقط قرآن و حدیث سے کھلواڑ کرنے کے متعلق ہے، وہ کھلواڑ جسکے ذریعے ممتاز قادری جیسے قاتل کو ہیرو بنایا گیا، وہ کھلواڑ جسکے ذریعے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کیا گیا، ان کے بہیمانہ قتل کو افسوسناک قرار دینے کو اسلام کے خلاف قرار دیا گیا۔

اگر کسی نے بذات خود اس "موجودہ توہین رسالت قانون" کے متعلق پڑھنا ہے کہ یہ کیسے قران و حدیث کی مخالفت کر رہا ہے، تو اس لنک پر آپ بہت تفصیل سے یہ تمام ثبوت و دلائل پڑھ سکتے ہیں۔

موجودہ توہین رسالت قانون قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔

تفصیلی آرٹیکل یہاں ملاحظہ فرمائیے (لنک)۔


امید تو ہے کہ اس تفصیلی آرٹیکل کے بعد کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے گا۔ مگر پھر بھی کسی کو بذات خود اس موجودہ قانون پر بحث کرنی ہے تو اسکے لیے علیحدہ لڑی کھول لیجئے، مگر سلمان تاثیر والی اس لڑی میں غیر متعلقہ بحث نہ چھیڑئیے۔
نوٹ: یہ آرٹیکل براہ راست "توہین رسالت کے موجودہ قانون" کے متعلق نہیں ہے، بلکہ فقط قرآن و حدیث سے کھلواڑ کرنے کے متعلق ہے، وہ کھلواڑ جسکے ذریعے ممتاز قادری جیسے قاتل کو ہیرو بنایا گیا، وہ کھلواڑ جسکے ذریعے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کیا گیا، ان کے بہیمانہ قتل کو افسوسناک قرار دینے کو اسلام کے خلاف قرار دیا گیا۔

اگر کسی نے بذات خود اس "موجودہ توہین رسالت قانون" کے متعلق پڑھنا ہے کہ یہ کیسے قران و حدیث کی مخالفت کر رہا ہے، تو اس لنک پر آپ بہت تفصیل سے یہ تمام ثبوت و دلائل پڑھ سکتے ہیں۔

موجودہ توہین رسالت قانون قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔

تفصیلی آرٹیکل یہاں ملاحظہ فرمائیے (لنک)۔


امید تو ہے کہ اس تفصیلی آرٹیکل کے بعد کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے گا۔ مگر پھر بھی کسی کو بذات خود اس موجودہ قانون پر بحث کرنی ہے تو اسکے لیے علیحدہ لڑی کھول لیجئے، مگر سلمان تاثیر والی اس لڑی میں غیر متعلقہ بحث نہ چھیڑئیے۔
محترمہ غیر متعلقہ بحث تو چھیڑی بھی نہیں گئی، حوالہ مانگا گیا تھا یہ تحقیق کہاں سے آئی؟ آپ کو خود ہی نقل کرتے ہوئے حوالہ فراہم کر دینا چاہیے تھا اصول کے مطابق
 

مہوش علی

لائبریرین
مراسلہ نمبر 3 میں میں نے آپ کی بات کا جواب نہیں دیا تھا، بلکہ ایک اضافی نوٹ درج کیا تھا کہ سلمان تاثیر کے قتل کے متعلق بحث علیحدہ ہے، اور بذات خود اس قانون کے حوالے سے بحث علیحدہ ہے۔
حوالہ میں نے احادیث رسول کی روشنی میں پیش کر دیا ہے۔ کیا یہ حوالہ کافی نہیں؟
 
مراسلہ نمبر 3 میں میں نے آپ کی بات کا جواب نہیں دیا تھا، بلکہ ایک اضافی نوٹ درج کیا تھا کہ سلمان تاثیر کے قتل کے متعلق بحث علیحدہ ہے، اور بذات خود اس قانون کے حوالے سے بحث علیحدہ ہے۔
حوالہ میں نے احادیث رسول کی روشنی میں پیش کر دیا ہے۔ کیا یہ حوالہ کافی نہیں؟
محترمہ!حدیث رسول پر جو تحقیق کی گئی ہے کہ ضعیف و منکر ہے آپ کے کہنے سے کون مانے گا؟ اسی حوالے کی بات کی تھی اس میں غصہ کرنے والی کوئی بات نہیں۔ اب آپ نے اپنی تحقیق کا حوالہ پیش کر دیا تو آپ کی شان میں کمی بھی نہیں آ گئی۔
 

x boy

محفلین
نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے والى لونڈى كو قتل كرنے والے اندھے شخص كى حديث كے متعلق اشكال


سوال؟

برائے مہربانى سنن ابو داود كى اس حديث كى شرح اور سبب بيان كريں جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے والے غلام كو اس كے مالك نے قتل كر ديا تھا، اور اسے اس كى سزا نہيں دى گئى، كيا اس كا سبب يہ تھا كہ كفار كے اولياء كو جو مسلمانوں كو اذيت ديں ديت نہيں دى جائيگى ؟


جواب:

الحمد للہ:

سوال ميں مقصود قصہ وہ ہے جسے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

" ايك اندھے كى لونڈى تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.

راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور حركت كرتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4361 ).

سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب ميں اس قصہ كے صحيح ہونے كى بيان كيا جا چكا ہے، اور يہ بھى بيان ہوا ہے كہ يہ كئى ايك الفاظ اور واقعات كے ساتھ مروى ہے جو سب اس حادثہ كے واقع ہونے پر دلالت كرتے ہيں باوجود اس كے كہ بعض جملے اور عبارات ميں تردد ہے.

اور اس عورت كا قتل اس ليے نہيں كہ وہ ذمى تھى بلكہ اس ليے قتل كى گئى كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرتى اور سب و شتم كرتى تھى، تو اس بنا پر وہ قتل كى مستحق ٹھرى، اور اگرچہ وہ مسلمان بھى ہوتى تو اس سب و شتم كى بنا پر كافر ہو كر بھى قتل كى مستحق تھى.

صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے اور سب و شتم كرنے والے كو قتل كرنے كى دليل اور اس كے خون كى كوئى قدر و قيمت نہيں كى دليل يہ ہے اگرچہ وہ مسلمان بھى ہو تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا اور آپ كى توہين كرنا يہ اتداد ہے يعنى اس سے مرتد ہو جاتا ہے اس بنا پر وہ قتل ہو گا، ابن بطال كہتے ہيں كہ بغير توبہ كرائے ہى اسے قتل كيا جائيگا.

ديكھيں: سبل السلام ( 3 / 501 ).

اس نابينا شخص كا اس عورت ۔ جو قتل كى مستحق تھى ۔ كو قتل كرنے والے قصہ ميں حكمران اور امام كى اجازت كے بغير قتل كرنے كا جو اشكال پيدا ہوتا ہے اس ميں ہم شيخ الاسلام كا جواب نقل كر چكے ہيں، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس قصہ ميں مسلمانوں كے اہل كتاب كے ساتھ عدل كى بھى دليل پائى جاتى ہے جو ان كے ساتھ كيا جاتا تھا، اور جسے شريعت جہانوں كے ليے رحمت بنا كر لائى، معاہدہ كرنے والے يہوديوں كے حقوق محفوظ ہيں اور ان كا خيال ركھا جاتا ہے، اور كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ انہيں تكليف اور اذيت ديں، اسى ليے جب لوگوں نے يہودى عورت كو مقتول پايا تو اس كا معاملہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك لے كر گئے، جنہوں نے انہيں معاہدہ اور امان دے ركھى تھى، اور ان سے جزيہ نہيں ليتے تھے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غضبناك ہوئے اور مسلمانوں كو اللہ كى قسم دى كہ وہ ايسا عمل كرنے والوں كو سامنے لائيں، تا كہ وہ اس كى سزا ديكھيں، اور اس كے معاملے كا فيصلہ كريں، ليكن جب انہيں معلوم ہوا كہ اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور سب و شتم كر كے معاہدہ بار بار توڑا تو وہ سب حقوق سے محروم ہو گئى، اور اس حدقتل كى مستحق ٹھرى جو شريعت ہر اس شخص پر لاگو كرتى ہے جو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرے، چاہے وہ ذمى ہو يا مسلمان، يا معاہدہ والا، كيونكہ انبياء كرام كى توہين كرنا اور ان پر سب و شتم كرنا اللہ كے ساتھ كفر ہے، اور ہر حرمت اور حق اور معاہدہ كو توڑ ديتا اور ختم كر ديتا ہے، اور يہ عظيم خيانت ہے جو شديد ترين سزا كى مستوجب ہے.

اہل ذمہ كے احكام ديكھنے كے ليے آپ ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 22809 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس قصہ كى صحيح توجيہ اور فہم سليم يہى ہے، نہ كہ وہ جو حقد و بغض سے بھرے ہوئے اور شريعت كے حكم ميں طعن و تشنيع كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلاف باتيں بنانے والے نشر كرتے پھرتے ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كو اس طريقہ سے قتل نہيں كيا، ليكن جب وہ معاہدہ توڑنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے كى پاداش ميں بطور حد قتل كى مستحق ٹھرى تو اسے قتل كرنے والے سے قصاص نہيں ليا گيا، وہ اسے بہت زيادہ اور بار بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم سنا چكى تھى حتى كہ وہ اس كے روكنے اور منع كرنے كے باوجود نہيں ركى حتى كہ اس كے صبر كا پيمانہ لبريز ہو گيا اور وہ صبر نہ كر سكا اور اس نے اپنى دين اور نبى كے سلسلہ ميں اذيت دينے والى آواز كو خاموش كر كے ركھ ديا.

اور ناحق ذمى كو قتل كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور اس ميں شديد وعيد آئى ہے، جيسا كہ صحبح بخارى ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو قتل كيا وہ جنت كى خوشبو نہيں پائيگا، حالانكہ اس كى خوشبو چاليس برس كى مسافت سے پائى جاتى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3166 ) امام بخارى نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں " بغير كسى جرم كے معاہد كو قتل كرنا " كا باب باندھا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

امام بخارى نے باب كے عنوان ميں اسى طرح قيد لگائى ہے حديث ميں قيد نہيں، ليكن يہ شرعى قواعد اور اصول سے حاصل كردہ ہے، اور ابو معاويہ كى آنے والى حديث ميں بيان ہے جس ميں " بغير حق " كے لفظ ذكر ہوئے ہيں، اور نسائى اور ابو داود كى حديث جو ابو بكرہ سے مروى ہے اس ميں يہ الفاظ ہيں:

" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو بغير حلال كے قتل كيا اللہ تعالى اس پر جنت كو حرام كر ديتا ہے " اھ۔

واللہ اعلم .
 

مہوش علی

لائبریرین
پھر وہی ہوا جو کہ ان حضرات کا وطیرہ ہے ۔۔۔ اور وہ یہ کہ موضوع کا جواب موجود نہیں تو بحث کو اصل موضوع سے بھٹکا دو۔

یہ لڑی سلمان تاثیر کے قتل میں آپ لوگوں کی طرف سے استعمال ہونے والی ضعیف روایت کے متعلق ہے۔ اگر آپ کو توہین رسالت کے موجودہ قانون پر بحث کرنی ہے تو براہ مہربانی اسکے لیے نئی لڑی کھولئے۔
 

زیک

مسافر
نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے والى لونڈى كو قتل كرنے والے اندھے شخص كى حديث كے متعلق اشكال


سوال؟

برائے مہربانى سنن ابو داود كى اس حديث كى شرح اور سبب بيان كريں جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے والے غلام كو اس كے مالك نے قتل كر ديا تھا، اور اسے اس كى سزا نہيں دى گئى، كيا اس كا سبب يہ تھا كہ كفار كے اولياء كو جو مسلمانوں كو اذيت ديں ديت نہيں دى جائيگى ؟


جواب:

الحمد للہ:

سوال ميں مقصود قصہ وہ ہے جسے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں:

" ايك اندھے كى لونڈى تھى جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم اور توہين كرتى تھى، اس نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا ليكن وہ نہ ركى، اور وہ اسے ڈانٹتا ليكن وہ باز نہ آئى.

راوى كہتے ہيں: ايك رات جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے لگى اور سب و شتم كيا تو اس اندھے نے خنجر لے كر اس كے پيٹ پر ركھا اور اس پر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا، اس كى ٹانگوں كے پاس بچہ گرگيا، اور وہاں پر بستر خون سے لت پت ہو گيا، جب صبح ہوئى تو اس كا ذكر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كيا گيا اور لوگ جمع ہو گئے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں اس شخص كو اللہ كى قسم ديتا ہوں جس نے بھى يہ كام كيا ہے اس پر ميرا حق ہے وہ كھڑا ہو جائے، تو وہ نابينا شخص كھڑا ہوا اور لوگوں كو پھلانگتا اور حركت كرتا ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيٹھ گيا اور كہنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا مالك ہوں! وہ آپ پر سب و شتم اور آپ كى توہين كيا كرتى تھى، اور ميں اسے روكتا ليكن وہ باز نہ آتى، ميں اسے ڈانٹتا ليكن وہ قبول نہ كرتى، ميرے اس سے موتيوں جيسے دو بيٹے بھى ہيں اور وہ ميرے ساتھ بڑى نرم تھى، رات بھى جب اس نے آپ كى توہين كرنا اور سب و شتم كرنا شروع كيا تو ميں نے خنجر لے كر اس كے پيٹ ميں ركھا اور اوپر وزن ڈال كر اسے قتل كر ديا.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

خبردار گواہ رہو اس كا خون رائيگاں ہے اس كى كوئى قدر و قيمت نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4361 ).

سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب ميں اس قصہ كے صحيح ہونے كى بيان كيا جا چكا ہے، اور يہ بھى بيان ہوا ہے كہ يہ كئى ايك الفاظ اور واقعات كے ساتھ مروى ہے جو سب اس حادثہ كے واقع ہونے پر دلالت كرتے ہيں باوجود اس كے كہ بعض جملے اور عبارات ميں تردد ہے.

اور اس عورت كا قتل اس ليے نہيں كہ وہ ذمى تھى بلكہ اس ليے قتل كى گئى كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرتى اور سب و شتم كرتى تھى، تو اس بنا پر وہ قتل كى مستحق ٹھرى، اور اگرچہ وہ مسلمان بھى ہوتى تو اس سب و شتم كى بنا پر كافر ہو كر بھى قتل كى مستحق تھى.

صنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے اور سب و شتم كرنے والے كو قتل كرنے كى دليل اور اس كے خون كى كوئى قدر و قيمت نہيں كى دليل يہ ہے اگرچہ وہ مسلمان بھى ہو تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم كرنا اور آپ كى توہين كرنا يہ اتداد ہے يعنى اس سے مرتد ہو جاتا ہے اس بنا پر وہ قتل ہو گا، ابن بطال كہتے ہيں كہ بغير توبہ كرائے ہى اسے قتل كيا جائيگا.

ديكھيں: سبل السلام ( 3 / 501 ).

اس نابينا شخص كا اس عورت ۔ جو قتل كى مستحق تھى ۔ كو قتل كرنے والے قصہ ميں حكمران اور امام كى اجازت كے بغير قتل كرنے كا جو اشكال پيدا ہوتا ہے اس ميں ہم شيخ الاسلام كا جواب نقل كر چكے ہيں، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 103739 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس قصہ ميں مسلمانوں كے اہل كتاب كے ساتھ عدل كى بھى دليل پائى جاتى ہے جو ان كے ساتھ كيا جاتا تھا، اور جسے شريعت جہانوں كے ليے رحمت بنا كر لائى، معاہدہ كرنے والے يہوديوں كے حقوق محفوظ ہيں اور ان كا خيال ركھا جاتا ہے، اور كسى كے ليے بھى جائز نہيں كہ انہيں تكليف اور اذيت ديں، اسى ليے جب لوگوں نے يہودى عورت كو مقتول پايا تو اس كا معاملہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك لے كر گئے، جنہوں نے انہيں معاہدہ اور امان دے ركھى تھى، اور ان سے جزيہ نہيں ليتے تھے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غضبناك ہوئے اور مسلمانوں كو اللہ كى قسم دى كہ وہ ايسا عمل كرنے والوں كو سامنے لائيں، تا كہ وہ اس كى سزا ديكھيں، اور اس كے معاملے كا فيصلہ كريں، ليكن جب انہيں معلوم ہوا كہ اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور سب و شتم كر كے معاہدہ بار بار توڑا تو وہ سب حقوق سے محروم ہو گئى، اور اس حدقتل كى مستحق ٹھرى جو شريعت ہر اس شخص پر لاگو كرتى ہے جو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرے، چاہے وہ ذمى ہو يا مسلمان، يا معاہدہ والا، كيونكہ انبياء كرام كى توہين كرنا اور ان پر سب و شتم كرنا اللہ كے ساتھ كفر ہے، اور ہر حرمت اور حق اور معاہدہ كو توڑ ديتا اور ختم كر ديتا ہے، اور يہ عظيم خيانت ہے جو شديد ترين سزا كى مستوجب ہے.

اہل ذمہ كے احكام ديكھنے كے ليے آپ ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 22809 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اس قصہ كى صحيح توجيہ اور فہم سليم يہى ہے، نہ كہ وہ جو حقد و بغض سے بھرے ہوئے اور شريعت كے حكم ميں طعن و تشنيع كرنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلاف باتيں بنانے والے نشر كرتے پھرتے ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عورت كو اس طريقہ سے قتل نہيں كيا، ليكن جب وہ معاہدہ توڑنے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرنے كى پاداش ميں بطور حد قتل كى مستحق ٹھرى تو اسے قتل كرنے والے سے قصاص نہيں ليا گيا، وہ اسے بہت زيادہ اور بار بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سب و شتم سنا چكى تھى حتى كہ وہ اس كے روكنے اور منع كرنے كے باوجود نہيں ركى حتى كہ اس كے صبر كا پيمانہ لبريز ہو گيا اور وہ صبر نہ كر سكا اور اس نے اپنى دين اور نبى كے سلسلہ ميں اذيت دينے والى آواز كو خاموش كر كے ركھ ديا.

اور ناحق ذمى كو قتل كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور اس ميں شديد وعيد آئى ہے، جيسا كہ صحبح بخارى ميں عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو قتل كيا وہ جنت كى خوشبو نہيں پائيگا، حالانكہ اس كى خوشبو چاليس برس كى مسافت سے پائى جاتى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3166 ) امام بخارى نے اس حديث پر صحيح بخارى ميں " بغير كسى جرم كے معاہد كو قتل كرنا " كا باب باندھا ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

امام بخارى نے باب كے عنوان ميں اسى طرح قيد لگائى ہے حديث ميں قيد نہيں، ليكن يہ شرعى قواعد اور اصول سے حاصل كردہ ہے، اور ابو معاويہ كى آنے والى حديث ميں بيان ہے جس ميں " بغير حق " كے لفظ ذكر ہوئے ہيں، اور نسائى اور ابو داود كى حديث جو ابو بكرہ سے مروى ہے اس ميں يہ الفاظ ہيں:

" جس كسى نے بھى كسى معاہد كو بغير حلال كے قتل كيا اللہ تعالى اس پر جنت كو حرام كر ديتا ہے " اھ۔

واللہ اعلم .
خیال ہے کہ لونڈی ہونے کے ناطے اس کی جان اتنی قیمتی نہ تھی جتنی آزاد لوگوں کی
 
میں ایک دینی طالب علم ہوں اور اپنے آپ کو علم کے اس معیار پر نہیں سمجھتا کہ اس نازک موضوع پر بحث کر سکوں اس لئے قابل احترام علماء کے فتاوی پر انحصار کرتا ہوں۔ اور اس معاملے میں علماء کا فتوی ہے کہ" گستاخ رسول کی سزا موت ہے اور اسکی توبہ بھی اسکو سزائے موت سے نہیں بچا سکتی" اور پاکستان کا قانون بھی یہی ہے۔ ہاں البتہ اس بارے میں بحث ہوسکتی ہے کہ کسی خاص شخص نے گستاخی کی بھی یا نہیں اور کوئی کسی کو خوامخواہ اپنے ذاتی انتقام کے لئے تو ایسا الزام نہیں دے رہا؟ کوئی واقعی اس قانون کی زد میں آبھی رہا ہے یا نہیں؟
 
میں ایک دینی طالب علم ہوں اور اپنے آپ کو علم کے اس معیار پر نہیں سمجھتا کہ اس نازک موضوع پر بحث کر سکوں اس لئے قابل احترام علماء کے فتاوی پر انحصار کرتا ہوں۔ اور اس معاملے میں علماء کا فتوی ہے کہ" گستاخ رسول کی سزا موت ہے اور اسکی توبہ بھی اسکو سزائے موت سے نہیں بچا سکتی" اور پاکستان کا قانون بھی یہی
ابھی تھوڑے دن ہی ہوئے ہیں کہ یورپ میں گستاخانہ فلم بنانے والا گورا مسلمان ہوگیا تو ہمارے سعودی بھائی اسے مکہ مدینہ کی زیارتیں کروارہے تھے۔۔۔کہاں گیا وہ اجماع والا فتویٰ؟
 
میں ایک دینی طالب علم ہوں اور اپنے آپ کو علم کے اس معیار پر نہیں سمجھتا کہ اس نازک موضوع پر بحث کر سکوں اس لئے قابل احترام علماء کے فتاوی پر انحصار کرتا ہوں۔ اور اس معاملے میں علماء کا فتوی ہے کہ" گستاخ رسول کی سزا موت ہے اور اسکی توبہ بھی اسکو سزائے موت سے نہیں بچا سکتی" اور پاکستان کا قانون بھی یہی ہے۔ ہاں البتہ اس بارے میں بحث ہوسکتی ہے کہ کسی خاص شخص نے گستاخی کی بھی یا نہیں اور کوئی کسی کو خوامخواہ اپنے ذاتی انتقام کے لئے تو ایسا الزام نہیں دے رہا؟ کوئی واقعی اس قانون کی زد میں آبھی رہا ہے یا نہیں؟

ابھی تھوڑے دن ہی ہوئے ہیں کہ یورپ میں گستاخانہ فلم بنانے والا گورا مسلمان ہوگیا تو ہمارے سعودی بھائی اسے مکہ مدینہ کی زیارتیں کروارہے تھے۔۔۔ کہاں گیا وہ اجماع والا فتویٰ؟
دیکھئے یہاں ایک شخص ہے (مذکورہ گورا) جس نے پوری دنیا میں اعلان کرکے توہین آمیز اور تمسخر آمیز فلم بنائی اسلام اور پیغمبرِ اکرم کے حوالے سے (یعنی کہ کنفرمڈ توہینِ رسالت کا عمل) لیکن یورپ میں اسلام کی تبلیغ کرنے کے خواہشمند سعودی علماء نے اس پر کافی وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ۔۔۔کیا وجہ ہے کہ ایک شخص (سلمان تاثیر) جس نے اس گورے کے عمل کے مقابلے میں ایسی کوئی بات نہیں کی اور صرف قانون کے عملی پہلو کے حوالے سے اس پر تنقید کی تو وہاں یکدم معاملے کو اتنی ایکسٹریم پر پہنچادیا گیا۔۔۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟۔۔۔اب آپ اسپنے اس کمنٹ کو پڑھئیے :
ہاں البتہ اس بارے میں بحث ہوسکتی ہے کہ کسی خاص شخص نے گستاخی کی بھی یا نہیں اور کوئی کسی کو خوامخواہ اپنے ذاتی انتقام کے لئے تو ایسا الزام نہیں دے رہا؟ کوئی واقعی اس قانون کی زد میں آبھی رہا ہے یا نہیں؟

یہی بات تو وہ شخص کہہ رہا تھا جسے ممتاز قادری نے مولوی صاحب کا بیان سن کر قتل کردیا۔۔۔
 
ابھی تھوڑے دن ہی ہوئے ہیں کہ یورپ میں گستاخانہ فلم بنانے والا گورا مسلمان ہوگیا تو ہمارے سعودی بھائی اسے مکہ مدینہ کی زیارتیں کروارہے تھے۔۔۔ کہاں گیا وہ اجماع والا فتویٰ؟
سعودی عرب میں کیا ہوا اسکے بارے میں میں نہیں جانتا ، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں فرمائیے؟
 
دیکھئے یہاں ایک شخص ہے (مذکورہ گورا) جس نے پوری دنیا میں اعلان کرکے توہین آمیز اور تمسخر آمیز فلم بنائی اسلام اور پیغمبرِ اکرم کے حوالے سے (یعنی کہ کنفرمڈ توہینِ رسالت کا عمل) لیکن یورپ میں اسلام کی تبلیغ کرنے کے خواہشمند سعودی علماء نے اس پر کافی وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ۔۔۔ کیا وجہ ہے کہ ایک شخص (سلمان تاثیر) جس نے اس گورے کے عمل کے مقابلے میں ایسی کوئی بات نہیں کی اور صرف قانون کے عملی پہلو کے حوالے سے اس پر تنقید کی تو وہاں یکدم معاملے کو اتنی ایکسٹریم پر پہنچادیا گیا۔۔۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟۔۔۔ اب آپ اسپنے اس کمنٹ کو پڑھئیے :


یہی بات تو وہ شخص کہہ رہا تھا جسے ممتاز قادری نے مولوی صاحب کا بیان سن کر قتل کردیا۔۔۔
میرا مؤقف وہی ہے جو میں نے اپنی پوسٹ نمبر 11 میں بیان کیا ہے۔ اس سے آگے پیچھے نہیں۔
 
میرا مؤقف وہی ہے جو میں نے اپنی پوسٹ نمبر 11 میں بیان کیا ہے۔ اس سے آگے پیچھے نہیں۔
اپکا موقف یہی ہے کہ "علماء کے مطابق توہینِ رسالت کے مرتکب فرد کی توبہ بھی قبول نہیں اور اسے ہر حال میں قتل کیا جائے گا"۔۔۔۔تو اسی سلسلے میں عرض کیا تھا کہ وہی لوگ جو پاکستان میں سلمان تاثیر کے قتل کی بڑی شدت سے حمایت کر رہے ہیں، اور اپنے موقف کے حق میں ابن تیمیہ کی کتاب "الصارم المسلول" سے اقتباسات بھی پیش کرتے ہیں۔۔۔وہی لوگ اس واقعے پر بالکل خاموش ہیں حالانکہ یہاں ابن تیمیہ کو ماننے الے مسلک کے لوگوں نے ہی اس گورے کے فعل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے اسلام میں خوش آمدید کہا ہے۔۔اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یا تو یہ علماّ خود اس فتوے کے قائل نہیں ہیں جسے وہ دوسروں پر پیش کرتے ہیں۔۔۔یا پھر یہ کہ مغرب میں اپنا سافٹ امیج بنانے کیلئے سب کچھ جائز ہے ۔۔۔۔۔
 
اپکا موقف یہی ہے کہ "علماء کے مطابق توہینِ رسالت کے مرتکب فرد کی توبہ بھی قبول نہیں اور اسے ہر حال میں قتل کیا جائے گا"۔۔۔ ۔تو اسی سلسلے میں عرض کیا تھا کہ وہی لوگ جو پاکستان میں سلمان تاثیر کے قتل کی بڑی شدت سے حمایت کر رہے ہیں، اور اپنے موقف کے حق میں ابن تیمیہ کی کتاب "الصارم المسلول" سے اقتباسات بھی پیش کرتے ہیں۔۔۔ وہی لوگ اس واقعے پر بالکل خاموش ہیں حالانکہ یہاں ابن تیمیہ کو ماننے الے مسلک کے لوگوں نے ہی اس گورے کے فعل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے اسلام میں خوش آمدید کہا ہے۔۔اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یا تو یہ علماّ خود اس فتوے کے قائل نہیں ہیں جسے وہ دوسروں پر پیش کرتے ہیں۔۔۔ یا پھر یہ کہ مغرب میں اپنا سافٹ امیج بنانے کیلئے سب کچھ جائز ہے ۔۔۔ ۔۔
میں کسی اور کے فتوے اور عمل کا ذمہ دار نہیں میں اپنے لئے جید علمائے اہلسنت کے فتاوی کو حجت سمجھتا ہوں۔
 
Top