راہِ تہذیب کے مسافرو، ذرا ابتدائی آفرینش کی طرف مُڑ کر نگاہ کرو کہ انسان پیدا ہوا ہے، اس میں دل ہے، دماغ ہے، خیالات ہیں اور سب طرح کی ضرورتیں بھی ہیں مگر اظہارِ مطلب کا اوزار نہیں۔ وہ کیونکر گزارہ کرتا ہوگا؟ اچھا آج جو انسان بے زبان ہیں اور پہلے سے سو درجے زیادہ ضرورتیں رکھتے ہیں، انہیں دیکھو کیا کرتے ہیں؟ وہ کون؟ گونگے، کہ اپنے اشاروں میں دنیا کی کوئی بات نہیں چھوڑتے، سب کچھ کہہ دیتے ہیں، اور گونگوں پر کیا منحصر ہے تم خود اکثر نہیں بولتے، سر کو آگے کو ہلا کر ہاں ظاہر کر دیتے ہو، دونوں شانوں کی طرف ہلا کر نہیں اور غور کرو تو یہ طبعی حرکت ہے۔ گھوڑے، ہاتھی وغیرہ چارپائے جب مالک کا ارادہ ماننا نہیں چاہتے تو کس طرح سر جھڑ جھڑا کر سرکشی سے انکار دکھاتے ہیں۔ شوقِ سیاحت مجھے خود کئی ملکوں میں لے گیا، جہاں میں گونگا تھا کیونکہ نہ میں کسی کی سمجھتا تھا نہ کوئی میری، وہاں گذارہ کا وسیلہ اشارے ہی تھے۔ انسان جوش ہائے مختلف کا تھیلا ہے، جب کسی بات میں ناراض یا خفا ہوتا ہوگا تو اسکی طبیعت سخت آواز نکالتی ہوگی، نہیں غرّاتا ہوگا۔ تم جانتے ہو کہ سمجھ بھی اپنے اپنے درجہ میں ہر جاندار کو ملی ہے۔ کُتّے، بلّی کو دیکھو، جب تمھیں خوش کرنا چاہتے ہیں تو کن کن حرکتوں اور جنبشوں سے لگاوٹ کرتے ہیں اور کیسی مہین مہین نرم نرم آوازیں سناتے ہیں، اسی طرح ابتدائی انسان بھی دوسرے کا غصہ دھیما کرنے کو عجز و نیاز کی حرکات کام میں لانے لگا ہوگا۔ گونگوں کو بھی دیکھ لو اپنے اشاروں کو رنگ برنگ کی آوازوں سے مدد پہنچاتے ہیں۔
تم اب بھی کُتّے، بلّی، سانپ وغیرہ جانوروں کو ڈرانے یا ہٹانے کے لئے لکڑی کھٹ کھٹا کر کام لیتے ہو، کبھی دوسرے شخص کو ہشیار یا آگاہ یا اپنی طرف متوجہ کرنے کو تالی بجا کر، چھچکار کر، کھنکھار کر آگاہ کرتے ہو۔ آواز کا سمجھ جانا جاندار مخلوق کی طبیعت میں داخل ہے، جو جو بولیاں بول کر آپس میں سمجھتے سمجھاتے ہونگے، وہ تو خدا ہی جانے، مگر بلّی کو دیکھو، کسی ملک کی ہو، خواہ غافل سوتی ہو، خواہ کسی