سخندان فارس 16

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0020.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 16

اور دیکھتا ہے کہ کلابہ۔ کلاوہ (سوت کا لچھا)۔ آتون ترکی میں سونے کو کہتے ہیں وہی سُنہرا لچھا ہوا۔

نیلوفر کو بے خبر آدمی ایک گُلِ خود رو سمجھیگا۔ فلسفی زبان دیکھیگا کہ نیلو پر۔ نیلوفل۔ نیلوپل۔ نیلپر سب طرح مستعمل ہوا ہے۔ تب اِدھر اُدھر نظر دوڑائیگا۔ اُسوقت معلوم ہو گا۔ کہ سنسکرت میں نیل ( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) نیلا۔ اُت پل (۔۔۔۔۔۔۔۔۔) پنکھڑی ہے۔ یعنی نیلی پنکھڑی والا پھول۔ فارسی میں ادل بدل ہو کر کچھ سے کچھ ہو گیا۔

ناہار اور نہار ہندوستان میں بھی سب جانتے ہیں۔ فلسفی زبان نے دیکھا تو ن پر جوڑ معلوم ہوا۔ اہار کو دیکھا تو فارسی بلکہ سنسکرت میں بھی بمعنی خورش آیا ہے۔ سمجھ گیا کہ صبح سے جبتک کچھ نہ کھایا ہو اُس وقت تک ناہار یا نہار ہے۔(ایران میں کہتے ہیں نہار حاضر است یعنی دسترخوان پر صبح کا کھانا چُنا ہوا ہے۔ آئیے نوش جان فرمائیے۔ اور ہنوز ۔۔۔۔۔۔۔ نہ کردم۔ یعنی ابھی صبح کا کھانا نہیں کھایا۔)

خربوزہ کو سونگھا تو بو آئی کہ مرکب ہے۔ خر کو دیکھا بمعنی کلاں بھی آتا ہے۔ بُزہ کو دیکھا تو فارسی قدیم میں بمعنی ثمر ہے۔ سمجھ گیا کہ بڑا پھل تھا۔ اس لئے خربُزہ نام رکھا ہو گا۔ سنسکرت میں بھی بعینہ یہی دو جُز۔ اور یہی معنی ہیں۔

میرے دوستو! تم دل میں کہتے ہو گے کہ اس توڑ جوڑ اور لفظوں کے رگ پٹھے چیرنے سے کیا فائدہ؟ جب ہم ایک زبان سیکھتے ہیں۔ تو اس میں یہی غرض ہوتی ہے۔ کہ اور کی بات سمجھ لیں اپنی بات سمجھا دیں۔ اس کے لئے اتنا کافی ہے۔ کہ لفظوں کے معنی آ گئے۔ عبارت کا مطلب معلوم ہو گیا۔ والسلام۔ میں بھی یہی کہتا ہوں۔ بے شک زبان سیکھنی ہو تو اس سے زیادہ کاوش کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ذرا خیال کر کے دیکھو۔ جب تم کوئی شکل اقلیدس کی حل کرتے ہو یا ایک حساب کے سوال کا جواب نکال لیتے ہو۔ یا ایک بچہ کوئی پہیلی بوجھتا ہے تو کیا خوشی ہوتی ہے! ہزاروں پھول پھل، بوٹیاں۔ نباتات۔ جمادات ہیں۔ اگر اُن کے مزے اور اصلی تاشیریں معلوم
 
Top