سخندان فارس 15

نایاب

لائبریرین
SukhandanFaras_page_0017.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 15

زور سےگلا کر اُن کا جوڑ جوڑ کھول لیتا ہے کہ اس کی اصل کہاں پہنچی ہے۔ اسی طرح ماہر زبان ایک لفظ کو لیتا ہے وہ تیزاب یا آنچ کام میں نہیں لاتا۔ فقط عقل کے تیزاب سے حرفوں کے جوڑ بند کھولتا ہے۔ اور معنوں کو سوچ کر اسکی ساری اصل نسل دریافت کر لتا ہے۔

میرے دوستو! تم حیران ہو گے کہ لفظ کی ولادت اور نسل کیا؟ ہاں لفظ کی بھی ولادت اور نسل ہوتی ہے۔ اور وہ اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ فلسفی لفظ کے جز جز کو الگ کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وقت بوقت اُن کی اسل کس کس ملک اور کس کس قوم میں پہنچتی ہے۔ اُن میں کیا رشتے ہیں؟ اور کیونکر وہ رشتے پیدا ہوئے ہیں؟ اور ملک ملک اُن کے معنوں یا حرفوں میں کیا تغیر پیدا ہوئے ہیں۔ پھر اور زبانوں کے لحاظ سے اپنی باتوں پر غور کرتا ہے۔ اُن کے نتائج کو بھی جانچتا ہے۔ اور مطابقت اور مقابلہ کرتا ہے۔ یعنی ایک زبان کے لفظ دوسری زبان سے کن کن باتوں میں شفق ہیں اور کونسی باتیں ہیں کہ ایک ہی کے لئے خاص ہیں۔ پھر ان سببوں کی جستجو کرتا ہے جو زبان میں تبدیلی کا عمل کر رہے ہیں۔ اور یہ غیر منقطع کام ہے کبھی ترقی کے رنگ میں ہوتا ہے۔ کبھی تنزل میں۔ مگر جاری ہمیشہ رہتا ہے اور اسی کو زبان کی اصل نسل کہتے ہیں۔ اب چند مثالیں توضیح مطلب کے لئے لکھتا ہوں :

گریبان کو فلسفی زبان نے دیکھا۔ بان پر جوڑ معلوم ہوا۔ اس نے گرے کو دیکھا تو فارسی قدیم میں بمعنی گُلو پایا۔ سمجھ گیا کہ اس جُزو لباس کا گلے پر قبضہ ہے اس لئے اس کا نام گریبان رکھا ہو گا۔ کہ مالک گلو ہے۔ سنسکرت میں دیکھا تو وہاں گریو ( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) انہی معنوں میں آیا ہے۔ اور بان سنسکرت میں وان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔ ثابت ہو گیا کہ ایک گھرانے کی نسل ہے۔ ملک اور مُدت کے انقلاب سے آواز بدل گئی۔ یہاں مر گیا وہاں جیتا ہے۔

کلابتون کو سب پہنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ فلسفی زبان اُس کا بل کھولتا ہے۔
 
Top