جون ایلیا سب سے پہلے - جون ایلیا

حسان خان

لائبریرین
جو سماج افلاس اور جہالت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا کوئی صحت مند خواب نہیں دیکھ سکتا اور نہ شاید اس کا حق ہی رکھتا ہے۔ ہم بار بار تعمیر و ترقی کا ذکر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ تعمیر و ترقی کی باتیں اسی قوم کو زیب دیتی ہیں جو معاشی استحکام اور تعلیمی ترقی کے ایک خاص نقطے تک پہنچ چکی ہو۔ اس سے پہلے تعمیر و ترقی کے امکانات پر غور کرنا دماغی عیاشی اور ذہنی بدکاری کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہم قومی حیثیت سے افلاس اور جہالت کے جس نقطے پر کھڑے ہیں وہاں سے تعمیر و ترقی کی منزل اتنی دور ہے، اتنی دور ہے کہ اس کے بارے میں سوچنا بھی اپنے آپ کو ہمت شکنی اور زبوں ہمتی کے آزار میں مبتلا کرنا ہے۔ ہم اپنی اس پسماندگی و درماندگی کے سلسلے میں قابلِ ملامت بھی ہیں اور قابلِ رحم بھی اور ایک حد تک قابلِ معافی بھی کیونکہ ہماری موجودہ زندگی کے پس منظر میں صرف غلامی ہی کی ایک صدی نہیں سماجی، اخلاقی، معاشی اور تعلیمی انحطاط کی بھی کئی صدیاں شامل ہیں اور ہمیں ماضی کے اس زبردست نقصان کی تلافی کے لیے جو مہلت ملی ہے وہ یقیناً بہت مختصر ہے اور اسی مختصر مہلت میں ہمیں صدیوں اور نسلوں کے قرضے چکانا ہیں لیکن اس معقول عذر کے باوجود ہم اپنی غیر ذمے داریوں کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتے۔ یہ عذر صرف اسی صورت میں قابلِ سماعت تھا جب ہم نے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کیا ہوتا۔ اصلاحِ حال کے لیے ہر وہ کوشش کی ہوتی جو ممکن تھی لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ یہی نہیں بلکہ قوم کے بعض طبقوں نے تو اس نازک دور میں وہ طرزِ عمل اختیار کیا اور اختیار کیے ہوئے ہیں جس کو سہہ لینا ایک نوآزاد، پس ماندہ اور پریشاں حال قوم کے لیے کسی طرح بھی ممکن نہیں۔

اس موقع پر کس کس سے مواخذہ کیا جائے۔ کس کس کا نام لیا جائے کہ یہ سیاہ نامہ بہت طویل الذیل ہے مگر ایک خاص طبقے کا ذکر کیے بغیر چارہ بھی نہیں۔ ہمارا اشارہ قوم کے دولت مند طبقے کی طرف ہے۔ ہمارے اس رعایت یافتہ اور برگزیدہ طبقے نے آزادی کے بعد جس مجنونانہ اور مجرمانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ان حضرات نے لکھ پتی سے کروڑ پتی بننے کی جو شاندار مہم چند سال میں سر کر لی ہے اسے دوسرے شاید صدیوں میں بھی سر نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں اگر کسی طبقے نے اپنی غیر معمولی اور قابلِ رشک صلاحیتوں سے دنیا کو مبہوت کر ڈالا ہے تو وہ یہی طبقہ ہے۔ اس کی موجودگی میں جو لوگ علمی، ادبی، تہذیبی اور سماجی میدانوں میں پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں، ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ غلطی پر ہیں اور انہیں اس ہونہار قوم کا کوئی عرفان حاصل نہیں۔ اگر اس قوم کی استعداد اور کارکردگی کا اندازہ لگانا ہے تو اس کے لیے دولت کشی اور منفعت اندوزی کے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے کہ یہی تو ایک شعبہ ہے جس میں ہماری قوم نے حیران کن فتوحات انجام دی ہیں اور محیر العقول معجزے دکھائے ہیں۔ سماج کا یہی وہ ادارہ ہے جس کے حوصلہ مند نمائندوں نے ایک ایک رات میں بنجر زمینوں سے محل اگائے ہیں اور ایک ایک دن میں دولت و ثروت کی فصلیں کاٹی ہیں۔ یہ بات انہی لوگوں نے ثابت کی کہ آزادی ایک نعمت ہے اور غلامی ایک لعنت۔ اگر یہ ارجمندانِ دولت نہ ہوتے تو پاکستان میں کوئی بھی آزادی کی نعمتوں اور برکتوں کا قائل نہ ہوتا۔ ہمیں اس موقع پر عبارت آرائی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس ضمن میں پوری متانت اور سنجیدگی سے کام لیں، اس گروہ نے سماج کی صحت مند قدروں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ یہ لوگ 'زرگری' اور زرپرستی کے علاوہ کوئی قدر نہیں مانتے، ان کا صرف ایک نصب العین ہے یعنی دولت کھینچنا، قوم جہنم میں جائے انہیں تو اپنے کام سے کام ہے۔ زندگی میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار دولت ہے اور سب سے مضبوط سپر جہالت، ان کے نزدیک تعمیر و ترقی کا مفہوم یہ ہے کہ کوٹھیوں کے نئے نئے ڈیزائنوں اور کاروں کے نئے نئے ماڈلوں کے ذریعے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جائے۔

اب سوچنا یہ ہے کہ پاکستان کی فاقہ کش، فلاکت زدہ اور درماندہ قوم ان مجنونانہ حرکات اور مجرمانہ رجحانات کی آخر کہاں تک متحمل ہو سکتی ہے۔ واقعی ہمیں اپنی قوتِ برداشت کا اندازہ لگانا چاہیے۔ جس ملک کی ۷۳ فیصدی یا غالباً اس سے بھی کچھ زیادہ آبادی کے پاس رہنے کو گھر، پہننے کو کپڑا اور کھانے کو روٹی نہ ہو کیا اس ملک کے چند افراد کو ان عیاشیوں کا حق دیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں نہ کسی بحث کی گنجائش ہے اور نہ کسی سیاسی نظریے یا سماجی فلسفے کا حوالہ دینے کی ضرورت، یہ تو ایک بالکل صاف اور سادہ سی بات ہے۔ اس ملک کو آزاد کرانے میں قوم کے ہر طبقے نے حصہ لیا تھا۔ پاکستان پوری قوم کی قربانیوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اسے بھی چھوڑیے، اس بات کا جواب دیجیے کہ وہ کون سی منطق اور کون سا نظامِ اخلاق ہے جس کے پیشِ نظر چند بے ضمیر، موقع پرست اور قابو یافتہ افراد نے پوری قوم کو لوٹنے اور کھسوٹنے کا حق پا لیا ہے اور سماج میں ان تباہ کن اور ہلاکت آفریں رجحانات کو فروغ دینے کی اجازت حاصل کر لی ہے جن کی موجودگی میں ایک شریف، صحت مند اور باضمیر سماج کے قیام کا تصور دیوانے کے خواب سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

یہ دور پاکستان کی زندگی کا بڑا نازک دور ہے۔ اگر اس دور میں سماج کی منفی قدروں کو استحکام حاصل ہو گیا تو یہ ملک نفسیاتی، اخلاقی، تہذیبی اور سیاسی اعتبار سے دیوالیا ہو کر رہ جائے گا اور پھر اس کا ازالہ کسی طرح بھی ممکن نہ ہو سکے گا، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ قوم کے بااثر طبقے نے ان زہرناک اور ہلاکت خیز قدروں کو سماجی زندگی میں بنیادی حیثیت دے دی ہے یہاں تک کہ اب ان قدروں کو حوالے کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ چنانچہ آج پاکستان میں امیر اور غریب جیسے شرمناک الفاظ گفتگو میں بار بار استعمال کیے جاتے ہیں اور گویا اخلاقی اور سماجی طور پر اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ پاکستان میں دو قومیں آباد ہیں۔ ایک غریب اور ایک امیر، ایک کرسی نشین اور ایک خیمہ بردار۔ وہ قوم جو زندگی کا کوئی اعلیٰ تصور نہ رکھتی ہو، جو شرمناک جہالت اور المناک غربت میں مبتلا ہو، اس کے حق میں بااثر طبقے کا یہ اندازِ نظر اور طرزِ عمل نفسیاتی طور پر جس قدر مہلک ثابت ہوگا اس کا تصور مشکل نہیں۔ آج ہمارے ملک میں امیر سے امیر ترین بننے کی جو دوڑ ہو رہی ہے اس نے پوری قوم کے دماغ کو ماؤف اور ذہن کو خراب کر دیا ہے۔ جو لوگ ملک کی ذہنی تعمیر و ترقی سے دلچسپی رکھتے ہیں، جنہیں اس قوم کے مستقبل سے ذرا بھی ہمدردی ہے انہیں اس صورتِ حال کے خلاف سخت احتجاج کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں اہلِ قلم کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ سماجی تصورات اور اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کریں لیکن وہ تو اپنا یہ فرض پہلے ہی سے انجام دے رہے ہیں۔ قوم میں یہی تو ایک طبقہ ہے جس نے اپنے فرائض کو کبھی فراموش نہیں کیا، جس نے اس ملک میں آج تک صرف فرائض کی زندگی گزاری ہے۔

کسی اعلیٰ تصورِ حیات اور سماجی نصب العین کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی لہذا اس سلسلے میں قوم کے ذمے دار افراد کو سب سے پہلے جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ افلاس اور جہالت کے خلاف ایک ہمہ گیر اور طاقت ور مہم شروع کی جائے کیونکہ ہم اس وقت معاشی پستی، سماجی زبوں حالی اور تعلیمی پسماندگی کی جس منزل میں ہیں وہاں کوئی اعلیٰ تصورِ حیات اور کوئی بلند نصب العین ہمارے درد کا درماں نہیں بن سکتا۔ تعمیر و ترقی کا سفر اسی وقت شروع ہو سکتا ہے جب ہم موجودہ منزل سے کافی دور نکل جائیں۔ یہ ہے وہ بنیادی مسئلہ جس پر ہمارے اربابِ اقتدار کو سوچنا اور عمل کرنا ہے ورنہ خوش آئند باتیں کرتے رہنا ایک دلچسپ مشغلہ سہی لیکن ایک ہوش مندانہ اور نتیجہ خیز طریقِ کار ہرگز نہیں۔ قوم کو شاندار کوٹھیوں اور قیمتی کاروں کی کوئی ضرورت نہیں، اسے اسکولوں، کالجوں، تربیت گاہوں، شفاخانوں، لہلہاتے کھیتوں اور کارخانوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس انداز میں سوچنا ہے۔ سوچنا ہی نہیں عمل کرنا ہے کہ ان مسئلوں کے سامنے باقی تمام مسئلے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔

(انشا، جولائی ۱۹۶۱)
(یہی انشائیہ عالمی ڈائجسٹ، مارچ ۱۹۶۴ میں 'نصب العین' اور سسپنس ڈائجسٹ، ستمبر ۲۰۰۲ میں 'اندازہ' کے عنوان سے شائع ہوا)
 
Top