سانحہ بادامی باغ نے شہباز حکومت کے ریکارڈ کو مزیدگہنادیا

صرف علی

محفلین
سانحہ بادامی باغ نے شہباز حکومت کے ریکارڈ کو مزیدگہنادیا
لاہور (عامرمیر) مسیحی کش فسادات کے نتیجے میں انتہاپسندوں کی جانب سے 100 سے زائد گھروں  دکانات  املاک کو لوسٹنے اور نذرآتش کرنے کے واقعے نے اقلیتوں کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے داغدار ریکارڈ کو مزید گہنا دیا ہے جو سنی دیوبندی شدت پسندوں کے غیض و غضب سے اقلیتوں کو محفوظ رکھنے میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہبازشریف کے 5سالہ دورحکومت میں 200 کے قریب عیسائیوں  احمدیوں اور شیعوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ لاہور میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کے کئی خوفناک واقعات ہوئے۔ بادامی باغ سانحہ سے ملتے جلتے ایک واقعہ میں 31جولائی 2009 کو سپاہ صابہ پاکستان کے ہزاروں کارکنوں نے گوجرہ میں مسیحی بستی کو نذرآتش کر دیا۔ اس واقعہ میں ایک ہی خاندان کے 8افراد کو زندہ جلا دیا گیا اور 100 سے زائد گھر نذرآتش ہوئے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے واقعہ میں ملوث 70سے زائد افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے پر متاثرہ خاندان کا سربراہ جان کے خوف سے ملک ہی چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ فسادات قرآن شریف کی توہین کی خبر عام ہونے پر برپا ہوئے۔ خبر تو بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی تاہم زندہ جل جانے والی عورتوں اور بچوں کی زندگیاں تو واپس نہ لائی جا سکیں۔ تمام 72نامزد ملزمان کو ایک ایک کرکے ضمانت پر رہائی مل گئی۔ واحد مدعی الماس حمید مسیح کو بھی پاکستان چھوڑنا پڑا۔ دراصل الماس حمید نے مسلم لیگ (ن) ٹوبہ ٹیک سنگھ کے صدر اور سپاہ صحابہ پاکستان (حالیہ اہل سنت والجماعت) کے رہنماؤں کو اس واقعے میں ملزم نامزد کیا تھا۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کا عبدالقادر اعوان اور اہل سنت والجماعت کے مولانا عبدالخالق  قاری عبیدالرحمن شاہ اور حافظ محمد عمران شامل تھے جن کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 7کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔ گوجرہ سانحہ کے 10 ماہ بعد پنجابی طالبان کے فدائین گروپوں نے ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر 100 سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ 28مئی 2010 کو پنجابی طالبان کے ایک ترجمان منصور معاویہ نے کہا کہ ”کسی احمدی کو پاکستان میں چین سے نہیں رہنے دیا جائے گا  یہ یہودیوں سے بدتر ہیں اور ان کے مکمل خاتمے تک جہاد جاری رہے گا“۔ دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ جناح ہسپتال کا ایک ڈاکٹر علی عبداللہ ہے جو کہ جماعت الدعوة میڈیکل ونگ کا صدر بھی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں دوران تعلیم آزادکشمیر الدعوة کے ٹریننگ سنٹر سے جہادی تربیت حاصل کرچکا ہے۔ اس کی گرفتاری سے پہلی دفعہ یہ انکشاف ہوا کہ لشکر طیبہ بھی پنجابی طالبان کا حصہ ہے۔ ان جڑواں حملوں کے کسی ملزم کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ سات ماہ بعد 4جنوری 2011کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر اسلام آباد میں ملک ممتاز قادری کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے جو کہ پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کی جانب سے سلمان تاثیر کی سکیورٹی پر مامور تھا۔ اس نے سلمان تاثیر کو توہین رسالت قانون پر تنقید کرنے اور توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کیلئے صدارتی معافی طلب کرنے کی پاداش میں قتل کیا تھا۔ قادری نے اعتراف کیا کہ راولپنڈی کے مفتی حنیف قریشی اور قاری امتیاز حسین شاہ کی اشتعال انگیز تقاریر سے متاثر ہو کر اس نے یہ فعل سرانجام دیا۔ مفتی حنیف بریلوی جماعت شباب اسلامی کا امیر جبکہ امتیاز شاہ آمنہ مسجد راولپنڈی کا امام ہے۔ دو ماہ بعد 2مارچ 2011 کو رومن کیتھولک وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو توہین رسالت قانون کے خلاف آواز بلند کرنے پر اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے ایک اردو زبان کے پمفلٹ کی وجہ سے قتل کی ذمہ داری پنجابی طالبان پر عائد کی گئی۔ ان کے قاتل بھی ابھی تک آزاد ہیں۔ طالبان کا اگلا نشانہ 72سالہ سویڈش چیرٹی ورکر برگیتا المبے بنیں جنہیں 3دسمبر 2012 کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان پر مبینہ توہین رسالت کے مرتکب دو پادریوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا۔ برگیتا ایک امریکی عالمی چرچ تنظیم فل گوسپل اسمبلیز کی منیجنگ ڈائریکٹر تھیں۔ پولیس کے مطابق کوٹ لکھپت سے گھر واپس جاتے ہوئے دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے انہیں نشانہ بنایا۔ اسی روز ماڈل ٹاؤن کے کیو بلاک کے احمدی قبرستا ن میں 100 سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ اس واقعے سے 3ماہ قبل 13اگست 211کو لشکر جھنگوی نے 71 سالہ یہودی امریکی امدادی کارکن وارن وائن سٹائن کو اغوا کیا اور طالبان کو فروخت کر دیا۔ بادامی باغ واقعے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت پہلے ہی اہل سنت والجماعت سے جنوبی پنجاب میں اگلے انتخابات کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے پر مخالفین کی کڑی تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔ تاہم پنجاب حکومت کے ایک ترجمان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ اس کے کالعدم جماعتوں سے تعلقات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=73082
 

نایاب

لائبریرین
گندی سیاست کا کھیل ہے یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم کھیلتے ہیں کھل کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
nad-02-11320131.gif
 
چیف جسٹس صاحب کی کچھ باتیں واقعی غور طلب ہیں:
1) 36 گھنٹے بعد کس نے ہنگامہ آرائی کے لئے مظاہرین کو تیار کیا؟ اور کیوں کیا جب مرکزی ملزم گرفتار ہوچکا تھا؟
2) کس کے حکم سے علاقہ مسیحی رہائشیوں سے خالی کروایا گیا؟ انتظامیہ میں کچھ لوگوں کو یقیناً کچھ ہونے کی خبر ہوگی۔
3) ایف آئی آر درج ہونے بعد علاقہ کیوں خالی کروایا گیا؟ کس کا مفاد تھا؟
 

صرف علی

محفلین
جب تک سچ نہیں بولا جائے گا یہی ہوتا رہے گا کن لوگوں نے ایسا کروایا ہے ان کے نام سب کو معلوم ہونا چاہیے تاکہ آگے ایسا نہ ہو ۔
 

کاشفی

محفلین
سانحہ بادامی باغ نے شہباز حکومت کے ریکارڈ کو مزیدگہنادیا
لاہور (عامرمیر) مسیحی کش فسادات کے نتیجے میں انتہاپسندوں کی جانب سے 100 سے زائد گھروں  دکانات  املاک کو لوسٹنے اور نذرآتش کرنے کے واقعے نے اقلیتوں کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے داغدار ریکارڈ کو مزید گہنا دیا ہے جو سنی دیوبندی شدت پسندوں کے غیض و غضب سے اقلیتوں کو محفوظ رکھنے میں بالکل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شہبازشریف کے 5سالہ دورحکومت میں 200 کے قریب عیسائیوں  احمدیوں اور شیعوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ لاہور میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کے کئی خوفناک واقعات ہوئے۔ بادامی باغ سانحہ سے ملتے جلتے ایک واقعہ میں 31جولائی 2009 کو سپاہ صابہ پاکستان کے ہزاروں کارکنوں نے گوجرہ میں مسیحی بستی کو نذرآتش کر دیا۔ اس واقعہ میں ایک ہی خاندان کے 8افراد کو زندہ جلا دیا گیا اور 100 سے زائد گھر نذرآتش ہوئے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے واقعہ میں ملوث 70سے زائد افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے پر متاثرہ خاندان کا سربراہ جان کے خوف سے ملک ہی چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ فسادات قرآن شریف کی توہین کی خبر عام ہونے پر برپا ہوئے۔ خبر تو بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی تاہم زندہ جل جانے والی عورتوں اور بچوں کی زندگیاں تو واپس نہ لائی جا سکیں۔ تمام 72نامزد ملزمان کو ایک ایک کرکے ضمانت پر رہائی مل گئی۔ واحد مدعی الماس حمید مسیح کو بھی پاکستان چھوڑنا پڑا۔ دراصل الماس حمید نے مسلم لیگ (ن) ٹوبہ ٹیک سنگھ کے صدر اور سپاہ صحابہ پاکستان (حالیہ اہل سنت والجماعت) کے رہنماؤں کو اس واقعے میں ملزم نامزد کیا تھا۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کا عبدالقادر اعوان اور اہل سنت والجماعت کے مولانا عبدالخالق  قاری عبیدالرحمن شاہ اور حافظ محمد عمران شامل تھے جن کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 7کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔ گوجرہ سانحہ کے 10 ماہ بعد پنجابی طالبان کے فدائین گروپوں نے ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو میں قادیانیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر 100 سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ 28مئی 2010 کو پنجابی طالبان کے ایک ترجمان منصور معاویہ نے کہا کہ ”کسی احمدی کو پاکستان میں چین سے نہیں رہنے دیا جائے گا  یہ یہودیوں سے بدتر ہیں اور ان کے مکمل خاتمے تک جہاد جاری رہے گا“۔ دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ جناح ہسپتال کا ایک ڈاکٹر علی عبداللہ ہے جو کہ جماعت الدعوة میڈیکل ونگ کا صدر بھی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں دوران تعلیم آزادکشمیر الدعوة کے ٹریننگ سنٹر سے جہادی تربیت حاصل کرچکا ہے۔ اس کی گرفتاری سے پہلی دفعہ یہ انکشاف ہوا کہ لشکر طیبہ بھی پنجابی طالبان کا حصہ ہے۔ ان جڑواں حملوں کے کسی ملزم کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ سات ماہ بعد 4جنوری 2011کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر اسلام آباد میں ملک ممتاز قادری کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے جو کہ پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کی جانب سے سلمان تاثیر کی سکیورٹی پر مامور تھا۔ اس نے سلمان تاثیر کو توہین رسالت قانون پر تنقید کرنے اور توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کیلئے صدارتی معافی طلب کرنے کی پاداش میں قتل کیا تھا۔ قادری نے اعتراف کیا کہ راولپنڈی کے مفتی حنیف قریشی اور قاری امتیاز حسین شاہ کی اشتعال انگیز تقاریر سے متاثر ہو کر اس نے یہ فعل سرانجام دیا۔ مفتی حنیف بریلوی جماعت شباب اسلامی کا امیر جبکہ امتیاز شاہ آمنہ مسجد راولپنڈی کا امام ہے۔ دو ماہ بعد 2مارچ 2011 کو رومن کیتھولک وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو توہین رسالت قانون کے خلاف آواز بلند کرنے پر اسلام آباد میں قتل کر دیا گیا۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے ایک اردو زبان کے پمفلٹ کی وجہ سے قتل کی ذمہ داری پنجابی طالبان پر عائد کی گئی۔ ان کے قاتل بھی ابھی تک آزاد ہیں۔ طالبان کا اگلا نشانہ 72سالہ سویڈش چیرٹی ورکر برگیتا المبے بنیں جنہیں 3دسمبر 2012 کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان پر مبینہ توہین رسالت کے مرتکب دو پادریوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا۔ برگیتا ایک امریکی عالمی چرچ تنظیم فل گوسپل اسمبلیز کی منیجنگ ڈائریکٹر تھیں۔ پولیس کے مطابق کوٹ لکھپت سے گھر واپس جاتے ہوئے دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے انہیں نشانہ بنایا۔ اسی روز ماڈل ٹاؤن کے کیو بلاک کے احمدی قبرستا ن میں 100 سے زائد قبروں کی بے حرمتی کی گئی۔ اس واقعے سے 3ماہ قبل 13اگست 211کو لشکر جھنگوی نے 71 سالہ یہودی امریکی امدادی کارکن وارن وائن سٹائن کو اغوا کیا اور طالبان کو فروخت کر دیا۔ بادامی باغ واقعے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت پہلے ہی اہل سنت والجماعت سے جنوبی پنجاب میں اگلے انتخابات کیلئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے پر مخالفین کی کڑی تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔ تاہم پنجاب حکومت کے ایک ترجمان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ اس کے کالعدم جماعتوں سے تعلقات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=73082

اِدا کی مطبل ہے بھائی۔۔گرین سے ہائی لائیٹ کیئے ہوئے الفاظ کا مطلب۔۔ اُردو کی وجہ سے قتل و غارت گری۔۔سمجھ نہیں آئی۔۔مینو سمجھاؤ۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ سو فیصد اس جگہ کو خالی کروا کے اس پر قبضہ کرنے کے پروگرام کے تحت آگ لگائی گئی۔
اس جگہ کی قیمت ایک کنال 3 سے 4 کروڑ روپیہ ہے۔ بھلا اتنی قیمتی زمین پر ان کو مفت میں کیسے رہنے دیا جائے گا۔
 
Top