۔1۔ شیعہ نکتہ نظر کے مطابق یہ ماڈل کیا ہے
شیعہ اور سنی مکتبہء فکر کی اصطلاحات میں فرق
سورۃ انفال شیعہ ترجمہ :
8:1 يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ قُلِ الْأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(اے رسول) لوگ آپ سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہدیجیے:یہ انفال اللہ اور رسول کے ہیں، پس تم لوگ اللہ کا خوف کرو اور باہمی تعلقات مصالحانہ رکھو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو
شیعہ نکتہ نظر : لفظ "
انفال" بمعنی
جنگی غنائم اور عمومی ثروتیں؛ اسی سورت میں مذکور ہے اور کسی بھی دوسری سورت میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے
انفال شیعہ نکتہ نظر:
انفال کے بارے میں شیعہ نکتہ نظرمزید یہاں دیکھیں:
سورۃ انفال سنی ترجمہ اور نکتہ نظر ، جناب رافع صاحب کے مراسلے سے اخذ کیا گیا:
(اے نبئ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجئے: اَموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی معاملات کو درست رکھا کرو اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرو اگر تم ایمان والے ہو
1-
انفال۔(
مال نفل)۔ انسان کی
فرض ضرورت سے زائد حاصل ہونے والی شئے۔ اللہ اور اسکے رسول 100 فیصد مال نفل کے مالک ہیں۔
اس آیت میں صرف اتنا لکھا ہے جتنا شیعہ ترجمے میں موجود ہے۔ شیعہ مکتبہء فکر نے انفال کو جنگی غنائم یعنی جنگ سے حاصل ہونے والے فائیدے، انعامات ، قراد دیا تاکہ آیت نمبر 41 میں غنم کا ترجمہ اپنے حق میں کیا جاسکے۔ سنی مکتبہء فکر نے اس کو فرض ضرورت سے زائید حاصل ہونے والا مال قرار دیا کہ صرف فرض سے زائید مال ہی اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے۔
دونوں طبقہ فکر انفال کو ، جنگ سے حاصل شدہ مال غنیمت قرار دیتے ہیں۔
فرق یہاں یہ ہے کہ سنی مکتبہ فکر اس کو "فرض ضرورت سے زائید حاصل ہونے والے شے قرار دیتا ہے ،
جبکہ شیعہ مکتبہ فکر اس تمام کے تمام انفال کو اللہ اور اس کے رسول کا سو فی صد حق قرار دیتا ہے۔
جہاں یہ درست ہے کہ بندہ پہلے فرض ادا کرتا ہے اور پھر نفل ادا کرتا ہے۔ کیا جب اللہ تعالی کا مال ہو تو پہلے اپنی فرض ضرورت کا رکھ کر باقی بچا کچھا، اللہ تعالی اور رسول اکرم کا حق قرار دیا جائے گا؟
شیعہ مکتبہ فکر: سارے کا سارا مال غنیمت یا انفال اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق ہے ، اس کے بعد تقسیم ان کی ہدایت سے ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں انفال حکومت کا ایک عدد ریوینیو ہیڈ یا مستند ذریعہ آمدنی ہے،۔
سنی مکتبہ فکر: پہلے لڑنے والے مجاہدین اپنی فرض ضرورت کا مال رکھ لیں گے اور باقی بچا کچھا مال حکومت اللہ تعالی اور اس کے رسول کا حق ہے ، اس کے بعد تقسیم ان کی ہدایت سے ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں انفال حکومت کا ایک عدد ریوینیو ہیڈ یا مستند ذریعہ آمدنی ہے۔ کیا یہ لوٹ مار پہلے پھر اللہ تعالی اور اسک کے رسول اکرم کا حق بعد میں کا فارمولا نہیں؟
غنمتم :
انما غنمتم من شئی :
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ فَأَنَّ لِلّه خُمُسَه وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل إِنْ کُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّه وَ ما أَنْزَلْنا عَلی عَبْدِنا یَوْمَ الْفُرْقانِترجمہ=
شیعہ ترجمہ :
اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اسکے
رسول،رسول کے قرابتدار ، ایتام ،مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔
سنی ترجمہ:
اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
سنی مکتبہء فکر: غنمتم کو جنگ میں ہاتھ آیا ہوا انفال ہی قرار دیتے ہیں، اس کو پانچویں حصے "خمس" کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، گویا یہ
غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ ، اللہ اور اس کے رسول یا بعد میں حکومتوں کا صرف اس وقت ذریعہ آمدنی ہے جب جنگ ہو اور اس سے مال غنیمت یا انفال ہاتھ آئیں۔
شیعہ مکتبہ فکر : دونوں الفاظ کو الگ الگ سمجھتے ہیں اور اور "
غَنِمْتُم مِّن شَیءٍ" کو زمانہ امن میں کسی بھی منافع ، اضافہ یا بڑھوتری کو "خمس" کے لئے شمار کرتے ہیں، اس کو 6 حصوں میں شمار کرتے ہیں ۔ لیکن شیعہ مکتبہء فکر، اس "خمس" کے نصف کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ 10 فی صد ، اماموں کے لئے اور 10 فیصد سادات یعنی رسول اکرم کے خاندان کے لئے، باقی عوام ، جن کے اموال الناس سے یہ مال جمع کیا گیا، ان کا کوئی حق ، شیعہ کتب میں نہیں ملتا۔ ۔
خمس سے مربوط آیت میں صاحبان خمس کو چھ گروہ میں تقسیم کیا گیا ہے: ۱.
خداوند (لِلہ)، ۲.
رسول خدا (لِلرّسولِ)، ۳.ذی القُربی، ۴.ایتام، ۵.مساکین، ۶.وہ لوگ جو سفر میں تنگدستی کا شکار ہو گئے ہوں(ابن سبیل)۔
سہم امام: جس میں مذکروہ بالا گروہ میں سے " خدا" و "
پیامبر" اور "ذی القربی" شامل ہے، احادیث کے مطابق اسلامی حکومت کے حاکم اعلی (پیغمبر یا امام معصوم) سے مختص ہے جو "سَہم امام" کے نام سے معروف ہے۔
غیبت کبرا کے زمانے میں جامع الشرایط مجتہدین
امام زمان(عج) کے نائب خاص کے عنوان سے سہم امام دریافت کرتے ہیں اور معصومین کے فرامین کے تحت مختلف دینی امور میں صرف کرتے ہیں۔
سہم سادات: خمس کے حوالے سے دوسری بحث یہ ہے کہ آیا خمس سے مربوط
آیت میں یتیم، مسکین، اور ابن سبیل سے مراد ہر وہ شخس ہے جس پر یتیم، مسکین، اور ابن سبیل صدق آتا ہے یا یہ کہ اس سے مراد صرف وہ فقیر، مسکین اور ابن سبیل مراد ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ میں سے ہو؟
شیعہ مکتبہء فکر اس بات کے معتقد ہیں کہ اس
آیت میں ان لوگوں سے مراد صرف اور صرف پیغمبر اکرمؐ کی ذریہ سے ایسے فراد ہیں جن پر یہ عناوین صدق آتے ہیں۔
[14] اسی بنا پر اس حصے کو "سہم سادات" کہا جاتا ہے
گویا ، شیعہ مکتبہ فکر کے مطابق یہ منافع یا بڑھوتری اللہ اور اس کے رسول کے بعد صرف اماموں اور سادات کا حق ہے، کسی حکومت کا ذریعہ آمدنی بالکل نہیں
اور سنی مکتبہ فکر کے مطابق، یہ صرف جنگ کی صورت میں ہاتھ آیا ہوا مال ہے، لہذا امن کے دورمیں یہ کسی طور بھی حکومت کا ذریعہ آمدنی بالکل نہیں ہے
شیعہ مکتبہ فکر کا نکتہء نظر یہاں دیکھئے
سمری: سنی مکتبہ فکر اپنی احادیث کی مدد سے یہ جمع شدہ پبلک ویلتھ، اموال الناس اپنا حق سمجھتے ہیں اور شیعہ مکتبہء فکر اس دولت عوام ، پبلک ویلتھ یا اموال الناس پر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس مقصد کی ہی روشنی میں یہ دونوں طبقات، 2:177، 9:60 میں عوام کے لئے پبلک ویلتھ ، اموال الناس کے استعمال کے لئے اپنی پسند کے معانی لیتے ہیں ، اور کچھ بھی اموال الناس سے لوگوں کے لئے مختص نہیں کرتے ۔
ہم کو خمس میں کسی بھی مکتبہء فکر میں حکومت کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ملتا۔
اگر یہ درست ہے کہ دونوں مکاتب فکر کسی طور، حکومت کو ان ذرائع سے آمدن کو سپورٹ نہیں کرتے ، تو متفق کلک کیجئے ، ورنہ غیر متفق ہو کر درستگی فرمائیے۔۔
آئندہ مراسلہ :
2۔ دونوں ماڈل ، مسلمان ممالک کو کس طرح کی معیشیت فراہم کرتے ہیں اور ان ماڈلز کی وجہ سے مسلمان ممالک کی معیشیتوں پر پڑنے والے اثرات، جن کی شماریاتی تصویر ہم سب کے سامنے ہے۔