زندہ زمین ۔۔ حصہ سوم ۔۔۔( عادل منہاج )

عادل

معطل
انسپکٹر عمران بھی لمبے قد والے کا خیال سن کر حیران رہ گئے
’آج سے چھ ماہ قبل جب یہ زمین والا معاملہ پیش آیا تھا تو میں ملک سے باہر تھا اور میں نے بہت حیران ہوکر یہ ساری خبریں پڑھی تھیں مگر سوال تو یہ ہے کہ پہلے تو وہ زندگی شہاب ثاقب کے گرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور پھر آپ لوگوں نے اسے زہر سے ہلاک کردیا تھاتو اب وہ دوبارہ کس طرح پیدا ہوسکتی ہے؟‘ انسپکٹر عمران نے سوال کیا
’شہاب ثاقب کے اسی پتھر کے ذریعے‘ پروفیسر ادریس نے کہا
’کیا مطلب!‘ انسپکٹر عمران چونک اٹھے
’اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے ہم اس پتھر کو تو بھول ہی گئے تھے ہمیں زمین کو مارنے کے ساتھ ساتھ اس پتھر پر بھی خاص طور پر زہر کے کیپسول فائر کرنے چاہیے تھے اور اسے ریزہ ریزہ کر دینا چاہیے تھا مگر ہم زمین کو مارنے کی خوشی میں اسے بھول ہی گئے حالانکہ وہی تو اس زندگی کا اصل منبع تھااب اس نے اس زمین کو پھر سے زندہ کردیا ہے‘ پروفیسر تھکے تھکے لہجے میں بولے
’اگر واقعی ایسا ہے تو پھر تو یہ بہت خطرناک صورت حال ہے مگر آپ لوگوں پر تو قاتلانہ حملے کسی شخص نے کیے تھے وہ اس زمین کا بدلہ کیوں لے رہا ہے؟‘ انسپکٹر عمران نے اعتراض کیا
’جب ہم پہلی بار اس جگہ گئے تھے تو ہمارے ساتھی ندیم کے دماغ پر زمین نے قبضہ کرلیا تھا اور اس کی زبان سے باتیں کی تھیں مجھے لگتا ہے کہ ہم پر حملہ کرنے والے کا دماغ بھی اس زمین کے قبضے میں ہے‘ لمبے قد والا بولا
’نہیں بھئی ندیم تو اس مخصوص جگہ گیا تھا تو زمین نے اس کے دماغ پر قبضہ کیا تھا وہ بھلا یہاں دارالحکومت کے کسی شخص کو کس طرح قابو میں کرسکتی ہے یہ جگہ تو وہاں سے سینکڑوں میل دور ہے‘ پروفیسر ادریس نے نفی میں سر ہلایا
’ہوسکتا ہے پروفیسر کہ زمین نے اپنی طاقت بڑھالی ہویا پھر ہوسکتا ہے کہ یہ شخص اسی علاقے سے آیا ہو‘لمبے قد والا بولا
’بہر حال اصل صورت حال اس شخص کے پکڑے جانے کے بعد ہی پتہ چل سکتی ہے ابھی ہم حتمی طور پر نہیں کہ سکتے کہ یہ سب زمین ہی کر رہی ہے‘پروفیسر بولے
’آپ مانیں یا نہ مانیں میرا تو سو فی صد یہی خیال ہے آپ ذرا سوچیں کہ جواد احمد کا جہاز بھی جس پہاڑ سے ٹکرا کر تباہ ہوا وہ اسی علاقے میں ہے یقینا اس جہاز کو زمین نے کشش ثقل کی قوت لگا کر کھینچا ہوگا اور پہاڑ سے ٹکرا دیا ہوگا‘لمبے قد والا بولا
’ان کی باتوں میں وزن ہے پروفیسر صاحب اب ہمارے پاس دو راستے ہیں ایک تو یہ کہ اس قاتل کو پکڑ کر حقیقت کا پتہ لگائیں یا پھر آپ ایک بار پھر اس علاقے کی مٹی کا تجزیہ کروائیں‘ انسپکٹر عمران بولے
’دوسرا طریقہ خطرناک ہے زمین نے یہ حملے چھ ماہ بعد شروع کروائے ہیں آحر چھ ماہ تک وہ کیوں خاموش رہی وہ یقینا اپنی طاقت بڑھاتی رہی ہے اس بار اس نے خاموشی سے وار کیا ہے کھل کر سامنے نہیں آئی تمام لوگوں کو حادثوں کے انداز میں مارا گیا تاکہ زمین کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے ہم نہیں جانتے کہ ان چھ ماہ کے دوران وہ اپنا اثر کہاں تک پہنچا چکی ہے کتنے شہر اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں‘ لمبے قد والا بولا
’اوہ پھر تو وہ کسی بھی وقت ان شہروں کو تباہ کرسکتی ہے‘ انسپکٹر عمران کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں
’ہاں میرا خیال ہے ہمیں رسک لینا ہوگا اور ایک بار پھر پہلے کی طرح وہاں دھماکے کرکے گرد اڑاتے ہیں اور مٹی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںانسپکٹر صاحب آپ اس شخص کو پکڑنے کی کوشش کریں‘پروفیسر بولے
’ہوں ٹھیک ہے بلکہ مجھے آپ لوگوں کی حفاظت کا بھی بندوبست کرنا ہوگاوہ آپ پر دوبارہ بھی تو حملہ کرسکتا ہے‘ انسپکٹر عمران بولے
’اوہ!‘ اچانک لمبے قد والے کے منہ سے نکلا
’کیا ہوا؟‘ پروفیسر نے پوچھا
’اس زمین پر زہر تین جہازوں نے برسایا تھا ایک کا پائلٹ جواد تو مارا جا چکا ابھی دو پائلٹ باقی ہیں‘وہ بولا
’اوہ یہ تو ہم بھول ہی گئے وہ دونوں بھی خطرے میں ہیں میں ابھی ان کی حفاظت کا بندوبست کرتا ہوں ان کے نام کیا ہیں؟‘ انسپکٹر عمران جلدی سے بولے
’وہ دونوں سگے بھائی ہیں احمر اور اشعر‘

’کیسے ہو چیانگ؟‘ پولیں آفیسر مسکرا کر بولا چیانگ اسے کھاجانے والی نظروں سے گھور رہا تھا اسے کرسی پر بٹھا کر اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے گئے تھے اور دونوں پاؤں بھی رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے
’میں تمہارا دوست ہوں انسپکٹر لی رونگ تم نے مجھے پہچانا نہیں‘ انسپکٹر دوبارہ بولا
’مجھے کھول دولی ‘ وہ غرایا
’کھول دیتے ہیں ابھی کھول دیتے ہیں تم تو میرے گہرے دوست ہو چیانگ مجھے بتاؤ یہ تمہارے بارے میں کیسی باتیں ہورہی ہیں تم نے می شنگ اور زوباؤ کو مار ڈالا اور غلط قسم کی رپورٹیں لکھیں‘ لی بولا
’یہ سب بکواس ہے میری رپورٹ غلط نہیں تھی‘ وہ بولا
’کل دوسری ٹیم یہاں سے جارہی ہے اگر اس نے مختلف رپورٹ ے دی تو تم پھنس جاؤ گے مجھے حقیقت بتادو میں تمہیں بچا لوں گا‘ لی بولا
’خبردار اس علاقے میں کسی ٹیم کو نہ بھیجنا ورنہ پچھتاؤ گے‘چیانگ جلدی سے بولا
’کیوں؟ آخر کیوں؟ تم ایسا کیوں چاہتے ہو؟‘لی حیرانگی سے بولا
’بس میں نے کہ دیا نا کہ کوئی ٹیم وہاں نہ جائے‘
’تو تم مجھے اصل بات نہیں بتاؤ گے‘
’مجھے کھول دو میں تم سب سے سمجھ لوں گا‘ اس نے دانت پیسے
’افسوس چیانگ تم اپنے لیے خود گڑھا کھود رہے ہوخیر تم ایک بار پھر ٹھنڈے دل سے سوچو میں کچھ دیر بعد آتا ہوں‘لی کمرے سے نکل گیا
چیانگ نے غصے سے سر کو جھٹکا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو ہلانے کی کوشش کیرسیاں کلائیوں پر بندھی تھیںاس نے انگلیاں موڑ کر گرہ پکڑنے کی کوشش کی مگر ہاتھ گرہ تک نہ پہنچااسی وقت اس کی نظر میز پر پڑے پیپر کٹر پر پڑی اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی اور اس نے کرسی میز کی طرف کھسکانی شروع کردی چند منٹ کی کوشش کے بعد وہ میز تک پہنچ گیااب اس نے کرسی میز سے ٹکرائیکٹر اچھل کر تھوڑا سا آگے آیا اس نے پھر یہی عمل دہرایا تو کٹر کنارے تک آگیا اب اس نے کرسی موڑی اور پیچھے بندھے ہاتھوں کی مدد سے کٹر اٹھانے کی کوشش کی جلد ہی کٹر اس کے ہاتھوں میں تھااس پر جوش سوار ہوگیا اس نے کٹر انگلیوں میں پکڑا اور آہستہ آہستہ رسیوں پر چلانے لگا دس منٹ کی کوشش کے بعد اس کے ہاتھ رسیوں سے آزاد ہوگئے اس نے تیزی سے پاؤں کی رسیاں بھی کاٹ ڈالیں اور دروازے کی طرف بڑھا مگر اسی وقت دروازہ کھل گیا اور انسپکٹر لی اندر داخل ہوا وہ اسے آزاد دیکھ کر زور سے چونکا
’تم تم نے رسیاں کیسے کھول لیں؟‘ وہ بولا مگر جواب میں ایک زور دار لات اس کے پیٹ میں لگی وہ تکلیف سے کراہ کر گر پڑا چیانگ نے کھلے دروازے سے چھلانگ لگادی لی بڑی مشکل سے اٹھا اور دروازے میں آکر چلایا’خبردار چیانگ بھاگ نکلا ہے فورا اس کے پیچھے دوڑو‘

لمبے قد والا انسپکٹر عمران کے دفتر میں تھاصبح اس کی باتیں سن کر انسپکٹر عمران نے اسے اور پروفیسر کو دو دو گارڈ مہیا کردیے تھے اور احمر اور اشعر کے گھر بھی گارڈ بھیج دیے تھے اب شام میں انہوں نے اسے دوبارہ دفتر بلایا تھا
’ہم نے شہر میں موجود نیلی کاروں کا ریکارڈ اکٹھا کرلیا ہےخوش قسمتی سے شہر میں نیلی کاریں زیادہ تعداد میں نہیںیہ کل 62 کاریں ہیںآپ اس ریکارڈ کو دیکھ لیںکہ ان میں آپ کی جان پہچان کا کوئی شخص ہے یا نہیں‘ انسپکٹر عمران بولے اور ریکارڈ اس کی طرف بڑھادیالمبے قد والا ریکارڈ میں کھوگیاپھر کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں الجھن تھی
’میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتا سوائے ایک کے مگر‘ وہ کہتے کہتے رک گیا
’مگر کیا آپ بات پوری کریں‘ انسپکٹر عمران جلدی سے بولے
’دراصل ان میں سے ایک کار ندیم کی ہے وہ ہمارا ساتھی تھا اور زمین سے مٹی لانے کے مشن میں وہ زمین میں زندہ دفم ہوگیا تھا‘ لمبے قد والا بولا
’اوہ تو اس کی کار اب کس کے استعمال میں ہے‘ وہ بڑبڑائے
’میں نہیں جانتا اس کا ایک ہی بھائی ہے نعیمماں باپ کا انتقال ہوچکا ہے اور ندیم نے شادی نہیں کی تھی گویا بھائی کے علاوہ اس کا کوئی عزیز نہیں مگر اس کا بھائی ڈرائیونگ نہیں جانتا‘
’یہ کوئی ایسی بات نہیںڈرائیونگ تو کسی بھی وقت سیکھی جاسکتی ہے‘ انہوں نے کہا
’نہیں جناب کم از کم وہ نیلی کار والا نعیم نہیں تھا وہ تو بہت ماہر کار ڈرائیور تھا‘ لمبے قد والا بولا
’بہر حال مجھے نعیم کو چیک کرنا ہوگااگر اس سے کچھ پتہ نہ چلا تو پھر میں سب نیلی کاروں کے مالکان سے ملوں گا‘
’یہ تو بہت لمبا کام ہوجائے گا‘
’ہاں مگر اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں آپ نعیم کا پتہ بتادیں‘
’میں لکھ دیتا ہوں مگر وہ بے چارہ بہت معصوم سا لڑکا ہے وہ یہ سب کچھ نہیں کرسکتا‘لمبے قد والا پتہ لکھتا ہوا بولا

انسپکٹر عمران کی جیپ ندیم کے گھر کے سامنے رکی اور انہوں نے اتر کر گھنی کا بٹن دبایا یہ ایک چھوٹا سا مکان تھاجلد ہی دروازہ کھلا اور ایک نوجوان کی صورت نظر آئی
’تمہارا نام نعیم ہے‘وہ بولے
’جی ہاں مگر آپ کون ہیں؟‘ وہ پولیس کی وردی دیکھ کر پریشان ہوگیا
’مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے آؤ اندر چلیں‘ نعیم گھبرائے ہوئے انداز میں انہیں ڈرائینگ روم میں لے آیا
’تمہارا بھائی ندیم آج سے چھ ماہ پہلے زمین میں دھنس کر ہلاک ہوگیا تھا اس کے پاس نیلے رنگ کی کار نمبر Xy-740تھی وہ کار اب کہاں ہے؟‘ انہوں نے پوچھا
’گیراج میں ‘ وہ پریشان ہوکر بولا
’ہوں تم ڈرائیونگ جانتے ہو؟‘
’جی نہیں‘
’تو پھر ہ کار کون استعمال کرتا ہے؟‘ انسپکٹر عمران نے اسے گھورا
’کک کوئی نہیںوہ تو گیراج میں کھڑی رہتی ہے‘
’ہوں ذرا میرے ساتھ گیراج تک چلو میں وہ کار دیکھنا چاہتا ہوں‘
’کار مگر کیوں؟‘ نعیم اب کافی پریشان لگ رہا تھا
’میرا خیال ہے کہ وہ کار اب بھی کسی کے استعمال میں ہے‘
’نہیں نہیں ایسا نہیں ہے‘ وہ خوفزدہ ہوگیاانسپکٹر عمران بغور اسے دیکھ رہے تھے
’تم اتنے خوفزدہ کیوں ہوجو بات ہے مجھے بتاؤ کیا کوئی اس کار کو استعمال کر رہا ہے؟‘
نعیم کی آنکھوں میں خوف نظر آیاپھر انسپکٹر عمران زور سے چونکے نعیم ان کی پشت پر دیکھ رہا تھاوہ تیمی سے مڑےساتھ ہی کوئی ڈرائینگ روم کے دروازے سے دوڑاانسپکٹر عمران نے ایک چھلانگ لگائی مگر اگلا شخص مکان سے نکل چکا تھاوہ بھی دوڑتے ہوئے مکان سے باہر آئے انہوں نے نیلی کار کو تیزی سے گیراج سے نکلتے دیکھا دوسرے ہی لمحے وہ ہوا ہوگئی انسپکٹر عمران تیزی سے اپنی جیپ کی طرف دوڑے اور جیپ اسٹارٹ کرتے ہی کار کے پیچھے لگادی اس وقت تک کار کافی دور جاچکی تھی انسپکٹر عمران نے اسپیڈ اور بڑھادی اس دوران اگلی کار ایک موڑ مڑ گئی جب جیپ موڑ تک پہنچی اور ادھر مڑی تو آگے نیلی کار کہیں نظر نہ آئی اس سڑک سے دائیں بائیں کئی گلیاں نکل رہی تھیںنہ جانے کار کس گلی میں مڑی تھی آخر انسپکٹر عمران نے جیپ آگے بڑھائی اور ایک ایک گلی میں جھانکتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ایک گلی میں دور انہیں نیلی کار جاتی نظر آئی ان پر جوش سوار ہوگیا اور انہوں نے جیپ اس کے پیچھے دوڑادی
گلی سے نکل کر کار ایک اور سڑک پر مڑ گئی انسپکٹر عمران رفتار بڑھاتے چلے گئے اور جلد ہی نیلی کار تک پہنچ گئے اب وہ نارمل رفتار سے چل رہی تھی اس کے قریب پہنچتے ہی انہیں ایک جھٹکا لگا یہ وہ والی کار نہیں تھی اس کا نمبر Kl-305تھا اور اسے کوئی خاتون چلا رہی تھیگویا وہ اس کار کو کھو چکے تھے آخر انہوں نے جیپ موڑی اور واپس ندیم کے گھر پہنچے گھر کا دروازہ کھلا پڑا تھا وہ اندر گھس گئے پھر انہیں ایک جھٹکا اور لگا پورے گھر میں نعیم کا کوئی پتہ نہ تھا وہ غائب تھا

چیانگ نے تیسری مرتبہ دروازے کی گھنٹی بجائی صبح صبح کا وقت تھا لوگ ابھی شاید سو کر بھی نہیں اٹھے تھے اس بار دروازہ کھل گیا اور ایک نوجوان آنکھیں ملتا ہوا نظر آیا
’جی فرمائیے کون ہیں آپ؟‘ اس نے پوچھا
’تو تم زیانگ ہواور اس ٹیم میں شامل ہو جو آج تیل کی تلاش کے لیے جا رہی ہے ‘ چیانگ بولا
’جی ہاں مگر آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘ اس نے حیران ہوکر کہا مگر جواب میں ایک گھونسہ اس کے منہ پر لگا وہ الٹ کر گرا اور چیانگ اندر داخل ہوگیا ساتھ ہی اس نے پاؤں کی ایک ٹھوکر اس کی کنپٹی پر رسید کی نوجوان بے ہوش ہوگیاچیانگ نے دروازہ اندر سے بند کیا اور اسے گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے آیا پھر اس نے کندھے سے لٹکا ہوا چھوٹا سا بیگ اتارا اور اس میں سے کچھ چیزیں نکالیںاب وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر اپنے چہرے پر کچھ چیزیں لگانے لگا ساتھ ساتھ وہ زیانگ کو دیکھتا رہا کچھ ہی دیر بعد چیانگ کا چہرہ تبدیل ہوچکا تھا اور اب وہ بالکل زیانگ نظر آرہا تھا اس نے جلدی جلدی اپنی چیزیں سمیٹیں اور زیانگ کو رسیوں سے جکڑ دیا پھر وہ پراسرار انداز میں مسکرایا اور بولا
’میں جانتا ہوں کہ تم یہاں بالکل اکیلے رہتے ہو اب تم یہاں بندھے رہو کسی کو پتہ نہیں چلے گا اور میں تمہاری جگہ اس ٹیم کے ساتھ جاؤں گا‘

انسپکٹر عمران دفتر میں اپنے کام میں مصروف تھے کل رات کی ناکامی کے بعد انہوں نے اس نیلی کار کی تلاش کے لیے ہر طرف آدمی دوڑائے تھے مگر ابھی تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلا تھا اسی وقت ان کے فون کی گھنٹی بجنے لگی انہوں نے ریسیور اٹھایا دوسری طرف لمبے قد والا تھا
’انسپکٹر صاحب میں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ آج ہم اس زمین سے مٹی کا نمونہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اشعر اور احمر اس مشن کے لیے تیار ہیں‘وہ بولا
’اوہ وہ دونوں پائلٹ!‘ ان کے منہ سے نکلا
’ہاں وہی دونوں جب انہیں ساری بات کا پتہ چلا تو انہوں نے خود کو اس مشن کے لیے پیش کردیااب اشعر جہاز کے ذریعے اس زمین پر بم برسائے گا اور جب گرد کا طوفان اٹھے گا تو احمر ہیلی کاپٹر نیچے لے جائے گا اور سلنڈروں میں گرد جمع کرکے فورا واپس آجائے گا‘
’میں بھی اس مشن میں آپ کے ساتھ جاؤں گا‘ انسپکٹر عمران بولے
’ٹھیک ہے تو پھر آپ ہمارے دفتر آجائیں ہم ساتھ ہی چلیں گے‘

اشعر کا جہاز اس پراسرار زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیںجلد ہی وہ اس جگہ کے قریب پہنچ گیا جہاں سب سے پہلے زندگی نمودار ہوئی تھیاس نے ہیڈ فون پر کنٹرول روم سے رابطہ قائم کیا اور انہیں پوزیشن بتائی ہیلی کاپٹر اس کے پیچھے تھا اور ابھی خاصی اونچائی پر تھا پھر جونہی کنٹرول روم سے سگنل ملا اس نے تیزی سے جہاز نیچے کیا اور زمین پر کئی بم برسائے زمین پر زبردست دھماکے ہوئے اور گردوغبار کا ایک طوفان سا اٹھا اشعر نے بم برسا کر جہاز کو تیزی سے اوپر اٹھاکر نکل جانا چاہا مگر اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے جہاز اوپر نہیں اٹھا تھا بلکہ مزید نیچے ہوگیا اس نے بوکھلا کر آلات کا جائزہ لیا اور پھر یہ حقیقت اس پر کھل گئی کہ سارے آلات جام ہوچکے تھے ادھر جہاز کو بم برساتا دیکھ کر ہیلی کاپٹر تیر کی طرح گردوغبار کے طوفان میں گھس گیا اندر بیٹھے فوجیوں نے سلنڈر باہر نکالے گرد دھڑادھڑ سلنڈروں میں داخل ہونے لگی
’بس ٹھیک ہے اب نکل چلو‘ ایک فوجی چلایا
احمر نے فورا ہیلی کاپٹر اوپر اٹھانا چاہا مگر پھر اس کا رنگ اڑ گیا ہیلی کاپٹر اوپر نہیں اڑ رہا تھا اس نے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر وہ تو گویا اسی جگہ پر جم کر رہ گیا تھا
’کیا کر رہے ہو چلتے کیوں نہیں؟‘ فوجی نے چلا کر پوچھا
’ہیلی کاپٹر میرے کنٹرول میں نہیں رہایہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں رہا‘احمر بولا
’اوہ!‘ فوجی دھک سے رہ گیااسی وقت احمر نے دور سے جہاز کو آتے دیکھا
اشعر نے جلدی جلدی کنٹرول روم سے رابطہ کر کے ساری صورت حال بتائی تو وہاں کھلبلی مچ گئیاسی وقت اشعر کے جہاز نے خودبخود موڑکاٹا اور پھر تیر کی طرح نیچے جانے لگا
’اف خدا یہ تو نیچے جاگرے گا!‘ اشعر کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیاپھر اسے نیچے ہیلی کاپٹر نظر آگیا جو فضا میں معلق تھا اور اس کے پر تیزی سے گھوم رہے تھےجہاز کا رخ ٹھیک ہیلی کاپٹر کی طرف تھا
’احمر ہیلی کاپٹر یہاں سے ہٹاؤ جہاز میرے کنٹرول میں نہیں ہے‘ وہ ہیڈ فون میں زور سے چلایا
احمر جہاز کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ چکا تھا اور اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں
’مجھے افسوس ہے میرے بھائی کہ یہاں بھی یہی صورت حال ہے میں ہیلی کاپٹر کو ہلا بھی نہیں سکتا‘ وہ بے بسی سے بولا
’نیچے چھلانگ لگا دو‘ فوجی چلایا
’کوئی فائدہ نہیں زمین ہمیں نگل لے گی یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے‘ احمر بولا
’میں تو چھلانگ لگانے لگا ہوں‘ فوجی چیخا
اس وقت تک جہاز بالکل ہیلی کاپٹر کے قریب پہنچ چکا تھا ادھر فوجی نے چھلانگ لگانے کا ارادہ کیا اور ادھر جہاز زوردار طریقے سے ہیلی کاپٹر سے ٹکرایا زوردار دھماکہ ہوا اور دونوں جلتے ہوئے نیچے جاگرے

کنٹرول روم میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی پروفیسر ادریس سکتے کے عالم میں بیٹھے تھے
’اس کا مطلب ہے کہ ہمارے خدشات صحیح نکلے وہ زمین پھر زندہ ہوچکی ہے‘ آخر اس خاموشی کو لمبے قد والے نے توڑا
’ہاں اور اس بار وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اب تو وہ جہاز کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیتی ہےاس کا مطلب ہے کہ اب وہاں جہازوں کے ذریعے بھی کوئی کاروائی ناممکن ہے‘پروفیسر تھکے تھکے انداز میں بولے
’ان چھ ماہ کے دوران اس کا اثر کہاں کہاں تک پہنچ چکا ہوگا اور کتنا علاقہ اس کی لپیٹ میں آچکا ہوگا اب اس بات کا پتہ کیسے چلایا جاسکتا ہے‘ انسپکٹر عمران بولے
’مم میں خود حیران ہوں اور پھر اگر اس نے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو ہم کتنے شہر خالی کروائیں گے اس کا اثر تو آہستہ آہستہ پورے صوبے اور پھر ملک تک پھیل سکتا ہے‘ لمبے قد والا خوف سے بولا
’پروفیسر صاحب اب آپ ہی کو کچھ کرنا ہوگا دوسرے سائنسدانوں سے مشورے کریں اور اس مسئلے کا جلد کوئی حل نکالیں حالات بہت خوفناک ہوتے جارہے ہیں‘انسپکٹر عمران بولے
’ہاں اب مجھے حرکت میں آنا ہی ہوگا اب تک تو میں شش و پنج میں تھا مگر اب ساری بات کھل چکی ہے‘
’ابھی تو شکر ہے کہ یہ زمین صرف اپنے خلاف کاروائی کرنے والوں کو ختم کر رہی ہے اگر اس نے عام شہریوں پر حملے شروع کردیے تو کیا ہوگا‘ ایک صاحب کانپ کر بولے
’پروفیسر سب سے پہلے کوئی ایسا طریقہ دریافت کریں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ زندگی کتنے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ خطرہ کتنا بڑا ہے‘ انسپکٹر عمران بولے
’یہ ہمارح خوش قسمتی ہے کہ شہاب ثاقب والا زیادہ تر علاقہ غیر آباد ہے ایک کے اطراف پہاڑی سلسلہ ہے جو پیچھے چین تک چلا گیا ہے جب کہ اس سے ملحقہ ایک شہر تو پچھلی بار زمین نے تباہ کردیا تھا وہ ابھی تک غیر آباد پڑا ہے میرا خیال ہے کہ اس سے آگے والے ایک دو شہر بھی احتیاطا خالی کروالیے جائیں میں فورا تجرباہ گاہ جارہا ہوں پچھلی بار لیا گیا مٹی کا نمونہ میرے پاس موجود ہے میں اسی سے تحقیق کا آغاز کرتا ہوں‘ پروفیسر بولے
’ٹھیک ہے میں شہر خالی کروانے کا بندوبست کرتا ہوں‘ انسپکٹر عمران نے کہا

جہاز میں موجود سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے یہ تیل تلاش کرنے والی ٹیم کے ارکان تھے جو اس سپیشل جہاز میں اپنی منزل کی طرف جارہے تھےابھی سفر کو کچھ ہی دیر گذری تھی کہ پچھلی سیٹ سے ایک نوجوان کھڑا ہوا اور جہاز کے دروازے کی طرف بڑھا
’اے زیانگ تم کدھر جارہے ہو؟‘ ایک شخص بولا
زیانگ دروازے پر پہنچ کر مڑا اور مسکرا کر بولا’ میرا تمہارا ساتھ بس یہیں تک تھا دوستو اب میں چلتا ہوں‘
’اچھا مذاق ہے زیانگ چلو اب آرام سے بیٹھ جاؤ‘ دوسرا شخص منہ بنا کر بولا
’بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ قسمت کس کے ساتھ مذاق کرنے والی ہے‘زیانگ نے انہیں گھورا اور پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا
’اے اے یہ تم کیا کر رہے ہو؟ پاگل ہوگئے ہو کیا؟‘ وہ سب چلا اٹھے
’بائی بائی ‘ اس نے ہاتھ ہلایا اور جہاز سے چھلانگ لگادیوہ سب چیختے رہ گئےوہ تیزی سے نیچے جارہا تھا پھر ایک دم اس کی کمر پر بندھا ہوا پیرا شوٹ کھل گیااس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے دور جاتے ہوئے جہاز کو دیکھا ایک دھماکہ ہوا اور جہاز کے پرخچے اڑ گئے

’یہ یہ سب کیسے ہوا انسپکٹر لیکیا جہاز کی چیکنگ نہیں کی گئی تھی‘کمشنر تیز لہجے میں بولا
’جہاز کو اچھی طرح چیک کیا گیا تھا جناب دراصل یہ سب چیانگ کی وجہ سے ہوا‘ لی بولا
’چیانگ وہ ابھی تک پکڑا نہیں گیا آخر اس نے جہاز کیسے تباہ کردیا‘
’اس نے ٹیم کے ایک ممبر زیانگ کا روپ دھارا اور ٹیم کے ساتھ جہاز میں سوار ہوگیازیانگ نے بڑی مشکلوں سے خود کو رسیوں سے آزاد کروایا ہےابھی مجھے اس کا فون ملا تھا‘
’اوہ مگر اس طرح تو وہ خود بھی مارا گیا ہوگا‘
’نہیں میرا خیال ہے کہ اس نے اپنے بچاؤ کا کوئی بندوبست ضرور کیا ہوگا‘
’مگر چیانگ آخر کر کیا رہا ہے پہلے اس نے می شنگ اور زوباؤ کو مارااب پوری ٹیم کو اڑادیا‘
’وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس علاقے میں جائےاس نے مجھے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر ٹیم وہاں بھیجی تو پچھتاؤ گے‘
’آخر کیوں وہ یہ کیوں چاہتا ہے؟ لی میں ہر قیمت پر چیانگ کو گرفتار دیکھنا چاہتا ہوں‘
میں اپنی پوری کوشش کروں گا سر‘ لی سنجیدگی سے بولا

انسپکٹر عمران کمرے میں داخل ہوئے تو آئی جی کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے
’خیر تو ہے سر آپ بہت پریشان لگ رہے ہیں‘انہوں نے پوچھا
’بیٹھو عمرانکچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے‘آئی جی پریشانی کے عالم میں بولے
’آخر ہوا کیا؟‘
’چین نے تیل کی تلاش کے لیے جو دوسری ٹیم بھیجی تھی ان کا جہاز راستے میں تباہ ہوگیا‘انہوں نے بتایا
’اوہ!‘ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
’میری چین کے متعلقہ حکام سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ اس یں چیانگ کا ہاتھ ہے‘
’اسے تو ہم نے ان کے حوالے کردیا تھا‘
’ہاں وہ ان کی حراست سے بھاگ نکلا اور اس نے دھمکی دی کہ کوئی اس علاقے کا رخ نہ کرے‘
’آخر اس علاقے میں ایسی کیا خاص بات ہے اوہ اوہ!!‘ اچانک انسپکٹر عمران کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
’کیا ہوا؟‘ آئی جی نے حیرت سے پوچھا
’مجھے ایک حیرت انگیز خیال آیا ہے‘
’وہ کیا؟ جلدی بتاؤ‘ انہوں نے بے چینی سے پوچھا
’آپ جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے جس علاقے میں شہاب ثاقب گرا تھا وہاں کی زمین پھر زندہ ہوگئی ہے‘ انسپکٹر عمران بولے
’ہاں یہ سن کر میں خود بہت پریشان ہوں‘
’اور جس علاقے میں تیل کی تلاش کا کام ہورہا ہے وہ بھی زندہ زمین والے علاقے سے ملحقہ ہے درمیان میں صرف چند پہاڑ ہیں‘
’تت تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں
’میرا خیال ہے کہ وہ زمینی زندگی پہاڑوں سے ہوتی ہوئی تیل والے علاقے تک پہنچ چکی ہےاور وہی وہاں کسی کو کام کرنے نہیں دے رہی‘ وہ بولے
’مگر چیانگ کو تم کس خانے میں فٹ کرو گے‘
’چیانگ کے دماغ پر ضرور اس زمین کا قبضہ ہے اسی لیے وہ ہپناٹائز لگ رہا تھا اور ڈاکٹر بھی اس کے دماغ کو سمجھ نہ سکےاور پھر کرین آپریٹر کا بیان تھا کہ اس کی کرین کو اچاک جھٹکا لگا تھا تو وہ بھاری مشینری می شنگ اور زوباؤ پر جاگری ایسا جھٹکا صرف وہ زمین ہی دے سکتی ہے‘ انسپکٹر عمران نے کہا
’تمہارا خیال ٹھیک ہی لگتا ہے عمران‘ آئی جی نے سر ہلایا
’سر آپ فورا چین کو اس بات سے آگاہ کردیں ان سے کہیں کہ چیانگ کو فورا پکڑنے کی کوشش کریں جب تک اس زمین کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ہم کوئی ٹیم اس علاقے میں نہیں بھیجیں گے‘انسپکٹر عمران بولے ساتھ ہی ان کے موبائل کی گھنٹی بجی انہوں نے موبائل کان سے لگایا
’ہیلو عمران میں پروفیسر ادریس ہوں فورا میرے پاس آئیں‘

اس کے ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا اور ایک آواز اس کے دماغ میں گونجی’تم نے ابھی تک میرے دشمنوں کو ختم نہیں کیا‘
’مممیں پوری کوشش کر رہا ہوں بس پروفیسر اور اس کا ساتھی اتفاق سے بچ گئے‘وہ بولا
’پروفیسر مسلسل میرے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اسے فورا ختم کردو اور ہاں انسپکٹر عمران کو بھی راستے سے ہٹادووہ بھی بہت آگے بڑھتا جارہا ہےان لوگوں نے میرے خوف سے شہر تو خالی کر والیے ہیں مگر کب تک بچیں گے‘آواز ابھری
’میں آج پھر پوری کوشش کروں گا کہ پروفیسر کو ٹھکانے لگادوں آپ فکر نہ کریں‘وہ بولا
’فکر میں نہیں تم کرواگر تم نے جلد یہ کام نہ کیا تو زندہ دفن کردوں گی‘ اس کے دماغ میں غراہٹ ابھری

’یہ تصویر دیکھو‘ پروفیسر ادریس نے ایک تصویر انسپکٹر عمران کی طرف بڑھائی انسپکٹر عمران نے تصویر ان سے لے لییہ ایک بہت بڑے ہال نما کمرے کی تصویر تھی اور اس میں کئی سرخ دھبے سے نظر آرہے تھے
’میں کچھ سمجھ نہیں سکا یہ تو کسی کمرے کی تصویر لگتی ہے مگر یہ اس میں دھبے سے کیسے ہیں؟‘انہوں نے پوچھا
’یہ اس عمارت کے بڑے ہال کی تصویر ہے جہاں بہت سے لوگ کام کر رہے ہیں یہ سرخ دھبے دراصل کام کرنے والے لوگ ہیں‘
’اوہ مگر یہ دھبوں کی صورت میں کیوں آئے ہیں؟‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا
’یہ تصویر دراصل خاص قسم کی شعاعوں کی مدد سے لی گئی ہےان شعاعوں کی خصوصیت یہ ہے کہ جب یہ کسی جاندار چیز پر پڑتی ہیں تو وہ تصویر میں سرخ رنگ کی نظر آتی ہے جب کہ بے جان چیزیں اصل صورت میں ہی نظر آتی ہیں‘پروفیسر نے بتایا
’مگر اس کا مقصد؟‘ انہوں نے حیران ہوکر پوچھا
’اگر ہم بلندی سے زمین پر یہ شعاعیں ڈال کر زمین کی تصویر کھینچیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ تمام علاقے جہاں کی زمین زندہ ہوچکی ہے سرخ رنگ کے نظر آئیں گے اس طرح ہم یہ پتہ چلا لیں گے کہ زمینی زندگی کہاں کہاں تک پہنچ چکی ہے‘
’اوہ!‘ ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں’ واقعی یہ تو بڑی اہم کامیابی ہےمگر زمین کی تصویر ہم کھینچیں گے کس طرح؟‘
’ہاں یہ مسئلہ ہے اس مقصد کے لیے ہیلی کاپٹر اور جہاز تو استعمال نہیں کر سکتے انہیں تو زمین تباہ کردیتی ہے بس ایک ہی طریقہ ہے‘
’وہ کیا؟‘
’ہمیں یہ کام سٹیلائٹ سے لینا ہوگا فضا میں مختلف ملکوں کے بے شمار مصنوعی سیارے گردش میں ہیں کسی طاقتور سٹیلائٹ کے ذریعے شعاعیں ڈال کر زمین کی تصاویر کھینچیں جا سکتی ہیں‘
’کیا ہمارے پاس اتنا طاقتور سٹیلائٹ ہے؟‘
’نہیں اس کے لیے ہمیں چین سے بات کرنا ہوگی کہ وہ اپنے سٹیلائٹ کے ذریعے تصاویر کھینچ دے‘
’ٹھیک ہے میں اس سلسلے میں وزیر خارجہ سے بات کرتا ہوں‘انسپکٹر عمران بولے

انسپکٹر عمران پروفیسر سے مل کر باہر نکلے اور اپنی جیپ کی طرف بڑھے اسی وقت لمبے قد والا بھی باہر نکلتا نظر آیا
’آپ بھی کہیں جارہے ہیں‘ انسپکٹر عمران نے پوچھا
’جی ہاں میری طبیعت کچھ خراب ہے اسی لیے گھر جارہا ہوں‘ لمبے قد والا بولا
انسپکٹر عمران سر ہلاتے ہوئے جیپ میں بیٹھ گئےان کی جیپ اور لمبے قد والے کی سرخ کار آگے پیچھے چلتی ہوئی نکلیں اور شہر کی طرف بڑھ گئیںشہر میں پہنچ کر ان کے راستے جدا ہوگئے لمبے قد والا اپنی دھن میں جارہا تھا کہ اچانک وہ چونکا اسے بیک ویو آئینے میں نیلی کار نظر آئی جو اس کی طرف بڑھ رہی تھی وہ بوکھلاگیا اس نے ایک دم رفتار بڑھادی اور جیب سے موبائل سے نکال کر انسپکٹر عمران کے نمبر ملانے لگانیلی کار کی رفتار بھی بڑھ گئی تھی
’ہیلو انسپکٹر صاحب وہ نیلی کار پھر میرے پیچھے ہے‘ وہ کال ملتے ہی گھبرا کر بولا
’اوہ آپ فکر نہ کریں میں آرہا ہوں آپ کون سی سڑک پر ہیں؟‘ انسپکٹر عمران نے پوچھا
لمبے قد والے نے انہیں سڑک کا نام بتا کر موبائل بند کردیاوہ خاصی رفتار پر جارہا تھا آس پاس کافی ٹریفک تھی اس لیے نیلی کار والا ابھی تک اس کے قریب نہ پہنچ سکا تھاپھر جلد ہی ایک ذیلی سڑک سے انسپکٹر عمران کی جیپ نکل آئی وہ لمبے قد والے کی کار سے آگے تھے انہوں نے جیپ سائڈ میں کرتے ہوئے اسے نکل جانے کا اشارہ کیا لمبے قد والا فورا آگے نکل گیا اور انسپکٹر عمران اس کے اور نیلی کار کے درمیان آگئے یہ دوڑ یونہی جاری رہی یہاں تک کہ وہ ایک سنسان سڑک پر آنکلےیہاں پہنچتے ہی انسپکٹر عمران نے جیپ سڑک پر ترچھی کرتے ہوئے روک دیلمبے قد والا خاصی آگے جاکر رک گیا نیلی کار والے نے بھی زور سے بریک لگائےکار سے نکلتے ہی اس نے انسپکٹر عمران پر فائر کر ڈالا انسپکٹر عمران جھکے جھکے جیپ سے نکلے اور جیپ کی سائڈ میں ہوگئے انہوں نے بھی پستول نکالا اور ذرا سا سر نکال کر اس پر فائر کردیا
نیلی کار کا ایک شیشہ چھناکے سے ٹوٹ گیا جواب میں دو فائر اور ہوئےفائرنگ کا تبادلہ یونہی جاری رہا انسپکٹر عمران نیلی کار والے کی گولیاں گنتے رہے جونہی اس نے چھٹا فائر کیا انہوں نے اس پر چھلانگ لگادی کیوں کہ اب اس کا پستول خالی ہوچکا تھاوہ اسے رگیدتے ہوئے گرے اور ایک گھونسہ اس کے منہ پر جڑ دیانیلی کار والے نے فورا ہی پلٹنی کھائی اور انسپکٹر عمران کو الٹ دیا انہیں اس سے اتنی تیزی کی امید نہ تھی مگر نیلی کار والا جونہی کھڑا ہوا ٬ انسپکٹر عمران نے اس کی ٹانگ کھینچ لی اور اس کے گرتے ہی ایک لات اس کی پسلیوں میں رسید کی اس کے منہ سے چیخ نکل گئی انسپکٹر عمران نے اس کو مزید موقع نہ دیا اور دو تین اور ٹھوکریں اس کے رسید کردیں وہ پیٹ پکڑ کر کراہنے لگا اس کے کس بل نکل چکے تھے لمبے قد والا اس دوران قریب آچکا تھا نیلی کار والا تکلیف کے عالم میں سیدھا کھڑا ہوا تو لمبے قد والا زور سے چونکا اس کی آنکھیں خوف اور حیرت سے پھیل گئیں
’ندیم تم تم زندہ ہو!!‘ اس کے منہ سے نکلا
 
Top