زندہ زمین ۔۔ حصہ آخر ۔۔۔( عادل منہاج )

عادل

معطل
انسپکٹر عمران بھی لمبے قد والے کی بات سن کر حیران رہ گئے
’کیا مطلب! یہ ندیم ہے‘ انہوں نے حیرت سے پوچھا
’ہاں مگر یہ تو زمین میں دھنس گیا تھا‘ لمبے قد والا بھی حیرت زدہ تھا
ندیم ان کی باتیں سن کر تکلیف کے باوجود مسکرایا اور بولا’ ہاں میں زمین میں نمودار ہونے والی دراڑ میں جا گرا تھا پھر وہ دراڑ اوپر سے تو بند ہوگئی مگر نیچے سے وہ دراڑ ایک غار تک چلی گئی تھیمیں سیدھا اس غار میں جاگرا اور بے ہوش ہوگیا جب ہوش آیا تو زمین نے مجھے بتایا کہ اس نے مجھے بچا لیا ہے اور میں اس کے لیے کام کروں اب میرے ذہن پر زمین کا قبضہ ہے اور میں جہاں بھی چلا جاؤں یہ اثر برقرار رہے گا‘
’مگر تم چھ ماہ تک کہاں رہے؟‘
’وہیں اردگرد کے شہروں میں روپوش رہا پھر ممین نے مجھے حکم دیا کہ اسے مارنے والے سب لوگوں کو ختم کردوں‘ ندیم بولا
’اوہ شکر ہے کہ تم پکڑے گئے ہو اب جلد ہی ہم زمین سے بھی نمٹ لیں گےزمینی زندگی ختم ہوتے ہی تمہارا دماغ آزاد ہوجائے گا‘انسپکٹر عمران بولے
’یہ تم لوگوں کی بھول ہے تم زمین کو کبھی شکست نہیں دے سکو گے‘ اچانک ندیم کی آواز بدل گئی اور وہ غرا کر بولا
’اوہ بالکل وہی چیانگ والا لہجہ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا خیال درست ہے چیانگ بھی زمین کے زیر اثر ہے‘انسپکٹر عمران نے چونک کر کہا
’ہاں وہ علاقہ بھی اب زمین کے قبضے میں ہے اور زمین وہاں سے تیل نہیں نکالنے دے گی‘ندیم بولا
’خیر پہلے تمہارا بندوبست تو کردیں‘ انسپکٹر عمرا ن نے اس کی طرف پستول تانے ہوئے دوسرے ہاتھ سے فون کا ریسیور اٹھایا اور گارڈز کو اندر آنے کو کہا

انسپکٹر عمران ٬ پروفیسر ادریس ٬ لمبے قد والا اور چند دوسرے لوگ اس وقت چین میں موجود تھے انہیں وہاں کے خلائی مرکز کے انچارج پروفیسر زینگ نے بلایا تھا جنہوں نے سٹیلائٹ کے ذریعے خاص شعاعوں کی مدد سے زمین کی تصاویر اتاری تھیںاس وقت وہ سب خلائی مرکز کے ایک ہال میں بیٹھے ایک بڑی سی اسکرین پر وہ تصاویر دیکھ رہے تھےاس میں شہاب ثاقب گرنے والا مخصوص علاقہ٬ تیل کی تلاش والا علاقہ اور ارد گرد کا خاصہ بڑا خصہ سرخ رنگ سے دہک رہا تھا
’اف خدا اس تصویر کے مطابق تو زمینی زندگی آس پاس کے تمام پہاڑی علاقوں میں پھیل چکی ہے اور چین کا بھی کافی علاقہ اس کی لپیٹ میں آگیا ہے‘ پروفیسر زینگ بولے
’ارے وہ وہ دیکھیے اس طرف!‘ اچانک لمبے قد والا بولا
’کدھر؟‘ پروفیسر ادریس نے پوچھا
’اس کونے میں ذرا تصویر کو بائیں کونے میں لے جائیں ادھر پہاڑ کے دامن میں بڑی سی جھیل ہے جس پر ہم نے ڈیم بنایا ہوا ہے یہ سارا علاقہ سرخ ہے یعنی جھیل اور ڈیم دونوں خطرے میں ہیں‘ وہ بولا
’اوہ!‘ انسپکٹر عمران کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں’ اگر زمین نے ڈیم کو نقصان پہنچادیا تو کیا ہوگا‘
’بڑی تباہی پھیل جائے گی پھر اس پہاڑ سے تو دریا بھی نکلتا ہے جس سے جھیل بنی ہےاگر ڈیم کو نقصان پہنچا تو دریا میں طغیانی آجائے گی سارا صوبہ سیلاب کی لپیٹ میں آجائے گا‘
’حالات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں‘ لمبے قد والا بولا
’پروفیسر ذرا چین کے علاقے کا بھی جائزہ لے لیں‘ انسپکٹر لی بے چین ہوکر بولا
پروفیسر زینگ نے تصویر کو پیچھے چین کی طرف بڑھایا اور پھر نہ جانے کیوں ان کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا
’یہ یہ علاقہ‘ وہ چین کے ایک علاقے کو دیکھ رہے تھے جو سارا سرخ رنگ سے رنگا تھا
’ہاں کیا ہوا؟ یہ تو غیر آباد علاقہ ہے‘ لمبے قد والا حیران ہوکر بولا
’ہاںہاں‘ پروفیسر زینگ بڑبڑایااس کی نگاہوں میں بے چینی تھی ادھر انسپکٹر لی بھی خوفزدہ نظر آرہا تھا
’ہمیں مل اس زندگی کے خاتمے کا کوئی حل فوری طور پر سوچنا ہوگا ورنہ حالات بہت خطرناک ہوجائیں گے مجھے فوری طور پر اپنی حکومت سے بات کرنی ہے آپ لوگ مزید جائزہ لیں‘ پروفیسر زینگ جلدی جلدی بولا اور تیزی سے ہال سے نکل گیا انسپکٹر عمران حیرت سے چین کے اس غیر آباد علاقے کو دیکھ رہے تھے

چین کے وزیراعظم زور سے اچھلےان کی آنکھیں خوف اور دہشت سے پھیل گئیں
’یہ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں پروفیسر زینگ‘ان کے منہ سے نکلا
’یہ سچ ہے جناب اس علاقے کی زمین زندہ ہوچکی ہے اور وہاں ہمارا ایٹمی پلانٹ ہے اگر وہ زندگی آگے بڑھتی رہی تو ایٹمی پلانٹ اس کی زد میں آجائے گا‘پروفیسر زینگ بولا
’اوہ نہیں اگر پلانٹ کو نقصان پہنچا تو بہت بھیانک تباہی پھیلے گی فورا کچھ کریں پروفیسر‘ وزیراعظم گھبرا کر بولا
’میرا خیال ہے کہ میں پروفیسر ادریس کے ساتھ مل کر کام کرتا ہوں ان کے پاس پچھلی بار لیا گیا مٹی کا نمونہ موجود ہے ہم اسی پر مزید تجربات کرتے ہیں‘ پروفیسر بولا
’ٹھیک ہے جو کرنا ہے کریںبس میں تو پلانٹ کو محفوظ دیکھنا چاہتا ہوں‘

شمالی صوبے کے وزیر اعلی ایک اہم اجلاس کی صدارت کر رہے تھےلمبے قد والے نے انہیں ساری صورت حال بتائی تھی
’ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگر ڈیم کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے نتیجے میں کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں اور اس سلسلے میں پہلے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی‘ لمبے قد والا بولا
’مسٹر منیر آپ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں ؟‘ وزیراعلی نے آبپاشی کے ایک ماہر سے پوچھا
’جناب خوش قسمتی سے پچھلے کچھ عرصے سے بارشیں بہت کم ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ڈیم اور دریا میں پانی کی مقدار زیادہ نہیں اگر خدانخواستہ ڈیم ٹوٹ بھی گیا تو اتنے اونچے درجے کا سیلاب نہیں آئے گا پھر بھی ہم احتیاطا سیلاب کے راستے میں آنے والے سارے گاؤں دیہاتوں کو خبردار کردیتے ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کا بندوبست کرلیں‘ منیر نے کہا
’ٹھیک ہے میں اس سلسلے میں ہدایات جاری کردیتا ہوں‘وزیراعلی نے کہا

چین کے خلائی مرکز میں پروفیسر ادریس اور زینگ سر جوڑے بیٹھے تھے زینگ کے ماتحت سٹیلائٹ کے ذریعے مسلسل زندہ زمین کے علاقے پر نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ کوئی نئی بات ہو تو فورا پتہ چل سکے
’ہیلی کاپٹر اور جہاز تو اب بے کار ہوچکے ہیںپھر آخر اس زمین پر زہر کس طرح برسایا جائے اس کے علاوہ تو اور کوئی طریقہ اسے ختم کرنے کا نہیں‘ پروفیسر ادریس بولے
’ہاں ہمیں زہر برسانے کا کوئی محفوظ طریقہ سوچنا ہوگااور ساتھ ہی شہاب ثاقب کے اس پتھر کو ختم کرنا ہوگا‘ زینگ نے کہا
’ڈیم کا مسئلہ زیادہ نازک ہے اگر زندگی وہاں تک پہنچ گئی تو تباہی آجائے گیہمیں جلد کوئی طریقہ سوچنا ہوگا‘ پروفیسر ادریس بولے
’ہاں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں؟‘
’ارے ایک آئیڈیا میرے ذہن میں آیا ہے‘ اچانک پروفیسر ادریس چونک کر بولے
’وہ کیا؟‘ زینگ نے بے تابی سے پوچھا
’ہم ہم اس زندگی کو آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں‘پروفیسر ادریس پرجوش لہجے میں بولے
’وہ وہ کیسے؟‘ زینگ بے چین ہوگئے
’جہاں تک یہ زندگی پہنچ چکی ہے ہمیں آگے اس کے راستے میں گہری خندق کھودنی ہوگی اور اس خندق کو اگر زہر ملے پانی سے بھر دیا جائے تو زندگی اس زہریلی خندق کو عبور نہیں کر سکے گی یوں اس کا آگے بڑھنا رک جائے گا‘پروفیسر ادریس نے وضاحت کی
’اوہ اوہ ! زبردست ترکیب ہے ‘ پروفیسر زینگ اچھل پڑے اور انہوں نے دل میں سوچا کہ اگر ایٹمی پلانٹ کے چاروں طرف اس طرح خندق کھود دی گئی تو وہ محفوظ ہوجائے گا
’میں اپنے ملک خبر کرتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں کہ ڈیم کے گرداگرد خندق بنائی جائے‘ پروفیسر ادریس فون کی طرف دوڑے اور زینگ بھی فون کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں بھاگا

ایٹمی پلانٹ میں ایمر جنسی نافذ تھی ہر شخص پریشان اور خوفزدہ نظر آرہا تھاوہاں کا انچارج چیخ چیخ کر ہدایات دے رہا تھا’پلانٹ کے سارے شعبے بند کردو یورینیم کی سلاخیں نکال لو اور انہیں احتیاط کے ساتھ کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی تیاری کرو‘
’سر وہ زمینی زندگی کہاں تک پہنچ چکی ہے؟‘ ایک ورکر نے پوچھا
’پلانٹ سے پانچ کلومیٹر دور تک اور کل تک وہ یہ پانچ کلومیٹر کا فاصلہ بھی طے کرلے گی‘انچارج بولا
اسی وقت ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا’ سر پروفیسر زینگ کا فون آیا ہے وہ کہتے ہیں کہ فورا پلانٹ کے اردگرد ایک گہری خندق کھودی جائے اور اس میں زہریلا پانی ڈال دیا جائے اس طرح وہ زندگی پلانٹ تک نہیں پہنچ سکے گی تاہم احتیاط کے طور پر یورینیم کو کسی اور جگہ منتقل کردیا جائے‘
’اوہ تو پھر فورا فوج طلب کرلو خندق کی کھدائی کا کام وہی کرے گی‘انچارج تیزی سے بولا

ادھر شمالی صوبے میں بھی فوج طلب کر لی گئی تھی اور سارے ملک سے بھاری مشینری یہاں منتقل کی جارہی تھی تاکے تیزی سے خندق کھودی جاسکے سیلاب کے خطرے کے پیش نظر گاﺅں دیہاتوں کے لوگ پہلے ہی بھاگ چکے تھے ادھر خلائی مرکز میں پروفیسر ادریس اور زینگ زہر برسانے کے کسی محفوظ طریقے پر غور کر رہے تھے
’خندق والے طریقے سے کم از کم اب مزید علاقے تو متاثر نہیں ہوں گے ہم نے اس زمینی زندگی کو محدود تو کردیا ہے مگر اس کے مکمل خاتمے کا طریقہ سوچنا ابھی باقی ہے‘ زینگ بولے
اسی وقت ان کا نائب دوڑتا ہوا آیااور بولا’ سر جلدی آئیں ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا ہے‘
دونوں پروفیسر تیزی سے اس کے پیچھے پیچھے دوسرے ہال میں آئے جہاں بے شمار ٹی وی اسکرینیں نصب تھیں اور ان پر سٹیلائٹ کے ذریعے زندہ زمین والے سارے علاقے پر نظر رکھی جارہی تھی
’وہ دیکھیے اس پہاڑ کی طرف‘ نائب بولا تو ان کی نظر ایک اسکرین پر موجود پہاڑ پر پڑیں یہ شمالی صوبے کا ایک پہاڑ تھا جس کی چوٹی پر برف جمی نظر آرہی تھی اس وقت یہ پہاڑ آہستہ آہستہ لرز رہا تھا
’یہیہ کیا ہورہا ہے؟‘ پروفیسر ادریس حیرت سے بولے
’پہاڑ بری طرح سے لرز رہا ہے اور اس پر موجود برف ٹوٹ رہی ہے‘ نائب نے کہا
’اوہ اسی پہاڑ سے تو وہ دریا نکلتا ہے جس سے جھیل بنی ہے اور جس پر ڈیم بنایا گیا ہے اگر یہ ساری برف ٹوٹ کر پگھل گئی تو دریا میں طغیانی آجائے گی اور ڈیم بھر جائے گا‘پروفیسر ادریس خوفزدہ لہجے میں بولے
’ہماری خندق والی ترکیب سے گبھرا کر زمین نے یہ چال چلی ہے وہ ڈیم تک تو نہیں پہنچ سکی اس نے پہاڑ کی برف پگھلانا شروع کردی ہےاگر ڈیم میں پانی زیادہ بھر گیا تو یوں بھی وہ ٹوٹ جائے گا‘ زینگ کھوئے کھوئے لہجے میں بولے
’فورا اپنے ملک خبر کر دیں پانی ڈیم تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا وہ احتیاطی تدابیر کرلیں‘ نائب چلایااور پروفیسر ادریس فون کی طرف دوڑے

ڈیم کے کنٹرول روم پر لگا سائرن زور زور سے بج رہا تھا وہاں کے انچارج کا چہرہ دھواں ہورہا تھا وہ چلا کر کہ رہا تھا’ ڈیم کے سارے دروازے کھول دوسارا پانی دریا میں بہادو ابھی پہاڑ سے پانی یہاں پہنچنے میں ایک ڈیڑھ دن لگے گا اس سے پہلے پہلے ڈیم بالکل خالی کردو تاکہ سارا پانی دریا کے ذریعے سمندر میں جاگرے‘
وہاں افراتفری کا ایک عالم تھا وزیراعلی اپنے آفس میں پریشان ٹہل رہا تھا
’کیا ہمیں صوبے سے نکل جانا چاہیے‘ وہ بولا
’ابھی ڈیم میں اتنا پانی نہیں اور دریا بھی خشک ہے اسی لیے ہم سارا پانی دریا میں چھوڑ رہے ہیں معمولی درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے ہاں اگر پہاڑ سے وافر مقدار میں پانی آگیا تو پھر مسئلہ ہوجائے گا‘ ایک وزیر بولا
’سارے گاؤں اور دیہات خالی کروالو اور پروفیسر ادریس سے کہو کہ وہ سٹیلائٹ کے ذریعے پانی پر نظر رکھیں ‘

پہاڑ سے برف کے تودے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے برف پگھل رہی تھی اور دریا میں پانی بڑھتا جارہا تھا پہاڑ سے نکلنے والا یہ دریا یہاں موجود کئی پہاڑوں کے درمیان سے شور مچاتا ہوا گذر رہا تھا اونچی اونچی چھالیں پہاڑوں سے ٹکراتیں اور شور مچاتی ہوئی آگے بڑھ جاتیں ادھر ڈیم سے پانی دریا میں نکالا جارہا تھا دریا میں پانی کا لیول بڑھتا جارہا تھاایک طرف ڈیم خالی ہورہا تھا اور دوسری طرف سے پہاڑوں سے ٹکراتا ہوا پانی ڈیم میں پہنچنے کو تھا

ایٹمی پلانٹ کے پاس ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مشینری پہنچنی شروع ہوگئی تھی اور فوجیوں نے خندق کھودنی شروع کردی تھیایک میجر کام کی نگرانی کر رہا تھاسورج غروب ہوچکا تھا اور اندھیرا پھیلنا شروع ہوگیا تھا وہاں سرچ لائٹیں جلا کر کام جاری رکھا گیا تھا فوجی کام میں مصروف تھے کہ اچانک فائرنگ کی آواز گونجی چند فوجی چیخیں مار کر گرے اور تڑپنے لگے
’یہ گولیاں کس نے چلائیں؟‘ میجر حیرت سے بولااسی وقت پھر فائرنگ ہوئی
’سر ٹیلوں کے پیچھے کچھ لوگ چھپے ہیں وہی فائرنگ کر رہے ہیں‘ ایک فوجی چلایا
ایٹمی پلانٹ کے اردگرد چھوٹے بڑے بے شمار ٹیلے موجود تھے
’حیرت ہے یہ کون لوگ ہیں تم بھی ٹیلوں کے پیچھے چھپ جاؤ‘میجر چلایا اور فوجی کام چھوڑ کر دوسری طرف کے ٹیلوں کے پیچھے دوڑےکچھ گولیاں پھر چلیں اور کچھ فوجی بھاگتے ہوئے گرے پھر جلد ہی وہ سب ٹیلوں کے پیچھے چھپ گئےمیجر اس صورت حال سے پریشان تھاوہ چونکہ کام کرنے آئے تھے نہ کہ لڑنے لہذا ان کے پاس اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھااس نے جلدی جلدی وائرلیس پر ساری صورت حال بتائی اور بولا’فورا مزید فوج بھجوائیں اور ان لوگوں پر فضائی حملہ کریں نہ جانے یہ کون ہیں‘
’فکر نہ کرو میجر فوج بھیجی جارہی ہے تم ان لوگوں کو کچھ دیر الجھائے رکھو ‘دوسری طرف سے کہا گیا
’گولیاں احتیاط سے خرچ کرو مزید فوج آنے تک ان لوگوں کو ٹیلوں کے پیچھے سے نہ نکلنے دینا‘ میجر نے فوجیوں کو ہدایت کی
ایٹمی پلانٹ کے ارد گرد کا علاقہ گولیوں سے گونجتا رہا پھر فضا میں کئی ہیلی کاپٹر نمودار ہوئےمیجر نے سر اٹھا کر دیکھا اور اس کے چہرے پر مسرت دوڑ گئیہیلی کاپٹروں نے ٹیلوں کے پیچھے چھپے دشمنوں پر فائرنگ شروع کردیدشمنوں نے ہیلی کاپٹروں پر فائرنگ کی مگر ان کا اسلحہ اتنا جدید نہ تھاجلد ہی سارے دشمن مارے گئے
اب میجر بھاگتا ہوا ٹیلوں کے دوسری طرف گیا وہاں بے شمار زخمی اور مردہ لوگ پڑے تھے
’اے کون ہو تم ؟ اور تم نے ہم پر حملہ کیوں کیا؟‘ اس نے ایک زخمی سے پوچھا
’ہمیں اس نے ایسا کرنے کو کہا تھا دولت کا لالچ دے کر یہ ہمیں یہاں لایا تھا‘ زخمی نے دور پڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کیامیجر اس کی طرف دوڑا وہ شخص بھی بہت زخمی تھا اور اس کا کافی خون بہ چکا تھا
’اے تم نے یہ سب کیوں کیا؟‘میجر نے پوچھا
زخمی نے مشکل سے آنکھیں کھول کر میجر کو دیکھا اور پھر اس نے اٹک اٹک کر بتایا’ میرا نام چیانگ ہےمیرے دماغ پر اس زندہ زمین کا قبضہ تھااس نے مجھے کہا تھا کہ میں پلانٹ کے گرد خندق نہ بننے دوں میں اس علاقے کے سارے جرائم پیشہ لوگوں کو اکٹھا کر کے یہاں آگیاتاکہ آپ لوگوں کو لڑائی میں الجھائے رکھوں اور زندگی پلانٹ تک پہنچ جائےمگر افسوس میں ناکام رہا اب اب میں مرنے کو ہوں تو زمین نے میرے دماغ کو آزاد کردیا ہے مجھے اپنے کیے پر شرمندگی ہے مگر میں نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا مجھے معاف کردینا‘ یہ کہ کر چیانگ کی گردن ڈھلک گئی

زینگ نے فون کا ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف فوج کا سربرآہ تھا’مجھے سارے حاات کا پتہ چلا ہےآپ یہ بتائیں کہ کیا اس زمین پر میزائل فائر نہیں کیے جاسکتے‘
’میزائل !‘ زینگ چونکا
”ہاں ہم زہر کا مواد میزائل میں بھر کر وہاں فائر کردیتے ہیں اگر زمین نے میزائل فضا میں تباہ بھی کردیا تب بھی اس کا ہی نقصان ہوگا زہریلا مواد اسی پر گرے گا‘سربرآہ بولا
’میرا خیال ہے کہ ہم یہ تجربہ کرسکتے ہیں میں پروفیسر ادریس سے مشورہ کرتا ہوں‘ وہ بولا اور پھر اس نے پروفیسر ادریس کو ساری بات بتائی وہ بھی یہ سن کر چونکے
’بات تو دل کو لگتی ہے پھر میں فورا واپس جاتا ہوں اور زہریلا مواد فوج کے حوالے کرتا ہوں وہ زمین پر میزائل فائر کردیں گے‘پروفیسر ادریس بولے
’اور کوشش کریں کہ میزائل ٹھیک اس شہاب ثاقب کے پتھر پر گرے تاکہ وہ ختم ہوجائے‘زینگ نے کہا

میزائل کمان سے نکلے تیر کی طرح تیزی سے اپنی منزل کی طرف اڑا جارہا تھااور اس کی منزل پراسرار علاقے میں موجود شہاب ثاقب کا پتھر تھاسب کی نظریں ٹی وی اسکرین پر جمی تھیں اور دل دھک دھک کر رہے تھے پھر میزائل پراسرار علاقے میں داخل ہوگیا اس کا رخ بدلا اور زمین کی طرف ہوگیا بس چند منٹوں میں وہ زمین پر گرنے والا تھا پروفیسر ادریس سانس روکے یہ منظر دیکھ رہے تھے مگر پھر ان کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں میزائل زمین کے قریب پہنچتے ہی ایک دم واپس پلٹا جیسے کسی نے اسے دھکا دے دیا ہو پھر وہ مڑا اور جدھر سے آیا تھا واپس اسی طرف چل پڑا
’اف خدا ! زمین نے میزائل کو واپس ادھر پھینک دیا ہے اسے راستے میں ہی تباہ کردیں کہیں یہ آبادی پر نہ گر پڑے ‘ پروفیسر ادریس چلائےوہاں موجود فوج کا نمائندہ تیزی سے باہر کو دوڑا اور جلدی جلدی فضائیہ کو ساری صورت حال بتانے لگا
میزائل تیزی سے واپس آرہا تھا ادھر پروفیسر زینگ بھی سکتے کے عالم میں تھا ’یہ وار بھی خالی گیا‘ وہ بڑبڑایا
پھر فضا میں طیاروں کی گڑگڑاہٹ گونجی اور وہ تیزی سے میزائل کے اوپر پہنچ گئے میزائل ابھی دارالحکومت سے دور ہی تھا کہ طیاروں نے اس پر فائرنگ شروع کردی اور میزائل ایک دھماکے سے پھٹ گیا پروفیسر زینگ نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ غیر آباد علاقے پر پھٹا تھاپھر اس کی نظر دوسری اسکرین پر پڑی پہاڑ سے آنے والا پانی کا ریلا شور مچاتا پہاڑی علاقے سے گذر رہا تھا
’پانی کا یہ ریلا کل صبح تک ڈیم تک پہنچ جائے گا‘ وہ بڑبڑایا اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے تھے
’پلانٹ کی کیا صورت حال ہے؟‘ اس نے پوچھا
’خندق تیزی سے بن رہی ہے آج رات تک مکمل ہوجائے گیپھر اسے زہریلے پانی سے بھر دیں گے‘ اس کے نائب نے بتایا
’ہوں مگر پانی کے اس ریلے کا کیا کریں؟ میں پروفیسر ادریس کو خبردار تو کردوں‘ وہ بولا اور فون ملانے لگا

پروفیسر ادریس اپنے آفس میں پریشان بیٹھے تھے
’کل صبح پانی ڈیم میں داخل ہوجائے گا اور اگر ڈیم پورا بھر گیا تو پانی پھر دریا میں چھوڑنا پڑے گا ابھی تو پچھلا پانی ہی دریا میں موجود ہے وہ سمندر تک نہیں پہنچا مزید پانی دریا میں آیا تو یقینا سیلاب آجائے گا‘
’کچھ سمجھ نہیں آتا پروفیسر کہ زمین کو کیسے ختم کریں‘ لمبے قد والا بولا
’مسئلہ صرف اس پر زہر برسانے کا ہےآخر کس طرح پورے علاقے پر زہر برسائیں اب تو بہت بڑا علاقہ اس کی لپیٹ میں ہے‘ پروفیسر سوچ میں گم بولے
’ارے! یہ تو بارش بھی شروع ہوگئی‘ لمبے قد والا چونکا وہ پروفیسر کی سیٹ کے پیچھے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا
’بارش‘ پروفیسر ادریس کے منہ سے نکلا
’ہاں پتہ نہیں صرف یہاں ہی ہورہی ہے یا پورے صوبے میں اگر زندہ زمین والے علاقے میں بھی بارش شروع ہوگئی تو اور مسئلہ ہوجائے گا پہلے ہی پانی کا ریلا ادھر سے گذر رہا ہے‘ لمبے قد والا بولا
’بارش زندہ زمین والے علاقے میں بارش اوہ!‘ پروفیسر ادریس ایک دم چونک اٹھے
’خیر تو ہے آپ کس بات پر حیران ہیں؟‘ اس نے حیرت سے پوچھا
‘بارش اگر پورے شمالی علاقے میں بارش ہوجائے تو‘
’تو کیا؟‘ لمبے قد والا ابھی تک حیران تھا
’ترکیب سمجھ میں آگئی‘ پروفیسر خوشی سے چلائے’اب ہم اس زمین کو ختم کردیں گے‘
’آخر کیسے؟‘ لمبے قد والا الجھ کر بولا
’تم جانتے ہو کہ چین نے خشک سالی سے بچنے کے لیے اپنی فصلوں پر مصنوعی طریقے سے بادل بنا کر بارش برسانے کا تجربہ کیا تھا‘
’جی ہاں مجھے پتہ ہے ان کا تجربہ کافی حد تک کامیاب رہا تھا‘
’ہمیں بھی اس زمین پر مصنوعی بارش برسانا ہوگی زہریلی بارش‘
’زہریلی بارش!‘ لمبے قد والا زور سے چونکا
’ہاں میں پروفیسر زینگ سے بات کرتا ہوں کہ وہ زہریلے پانی کے بادل بنائیں اور وہ بادل اس زمین پر بارش برسائیں اس طرح اس پورے علاقے میں زہریلے پانی کی بارش ہوگی‘
’اوہ اوہ!‘ لمبے قد والا خوشی سے چلایا’واقعی اس طرح وہ زمین کچھ نہیں کرسکے گیبادلوں کا بھلا وہ کیا بگاڑ سکے گی اور اگر اس نے بادلوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی بھی تو اس کا ہی نقصان ہوگا اس صورت میں بھی پانی اسی پر گرے گا‘
’میں ابھی زینگ سے بات کرتا ہوں‘ انہوں نے فون پر جھپٹا مارا

یہ صبح بے حد چمکدار اور روشن تھی دور دور تک بادل کا نام و نشان تک نہ تھاسورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا پھر اچانک ہی چین کے ایک علاقے سے بڑے بڑے بادل نمودار ہونا شروع ہوگئے ان بادلوں کا رخ چین کی سرحد کی طرف تھا بادل بڑھتے ہی جارہے تھے اور پھر سرحد کے پار پاکستان کے شمالی حصے پر بھی بادل چھاگئے بے شمار لوگوں کے سر اوپر کی طرف اٹھے ہوئے تھے پروفیسر ادریس اپنی رصد گاہ سے بادلوں کو دیکھ رہے تھے شمالی حصے کی عوام کو خبردار کر دیا گیا تھا کہ وہ آج باہر نہ نکلیں پھر بجلیاں سی چمکیں اور چین کی ایک عمارت سے بے شمار چمکتی ہوئی شعاعیں نکلیں اور بادلوں سے ٹکرائیں بادلوں میں زوردار گڑگڑاہٹ گونجی اور پانی کا ایک قطرہ بادل سے ٹپکا وہ تیزی سے زمین کی طرف لپکاچند اور قطروں نے بھی اس کا تعاقب شروع کیا اور جونہی پانی کے یہ قطرے زمین سے ٹکرائے زمین میں ہلچل سی پیدا ہوئی مگر اب قطروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا بارش کا پانی تو آب حیات ہوتا ہے مگر یہ آب حیات نہیں بلکہ زمین کے لیے موت کا پیغام تھا ان قطروں میں زہر ملا ہوا تھا
زہریلے بادلوں نے برسنا شروع کردیا تھادیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش شروع ہوگئی زمین میں بھونچال آگیا تھاوہاں موجود پہاڑ لرز رہے تھے بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی تھیں زمین پر دھماکے ہورہے تھے
’پروفیسر کیا ہم کامیاب ہوجائیں گے؟‘ لمبے قد والے نے پوچھا
’انشاءاﷲآج اس زمین کو کوئی نہیں بچا سکے گا‘ پروفیسر ادریس بولے
فون کی گھنٹی بجی تو لمبے قد والے نے فون اٹھا کر سنا اور بولا’ پروفیسر پانی کا ریلا ڈیم میں داخل ہوگیا ہے ڈیم بھرنا شروع ہوگیا ہے‘
’اوہ!‘ پروفیسر کے منہ سے نکلا
’اگر ڈیم بھر گیا تو شاید یہ پانی دریا میں چھوڑنا پڑے گا‘
’ہاں مگر افسوس کہ اب ہم کچھ نہیں کر سکتے یہ نقصان تو برداشت کرنا ہی ہوگا بس دعا کرو کہ یہ آخری نقصان ہو‘پروفیسر بولے
ڈیم بھرتا جا رہا تھااور ادھر بارش زوروشور سے جاری تھی سارا پہاڑی علاقہ پانی میں نہا گیا تھازمین اوپر نیچے حرکت کر رہی تھی پہاڑوں کو توڑ رہی تھی مگر اب اس کی شدت میں کمی آتی جا رہی تھی
پھر ڈیم میں پانی خطرے کے نشان سے اوپر ہوگیا اور ڈیم کے دروازے کھول دیے گئے پانی شور مچاتا ہوا دریا میں داخل ہوگیا اور یہ بپھرا ہوا ریلا آگے بڑھتا چلا گیاپانی دریا کے کناروں سے ابل پڑا اور ارد گرد کی بستیوں میں داخل ہوگیا مگر لوگ پہلے ہی گھر بار چھوڑ کر جاچکے تھے اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
بارش کا یہ سلسلہ دوپہر تک چلا پھر اس کی شدت میں کمی آنے لگی
’پروفیسر ادریس میں سٹیلائٹ سے نظر رکھے ہوئے ہوں زمین خاصی دیر سے خاموش ہےاس کا لرزنا اور پہاڑوں کو توڑنا رک چکا ہےکیا خیال ہے کیا یہ مر چکی ہے؟‘پروفیسر زینگ فون پر بولے
’یہ تو چیک کر کے ہی بتایا جاسکتا ہے میرا خیال ہے کہ چند گھنٹے اور بارش ہونے دیں پھر آپ سٹیلائٹ کی مدد سے خاص روشنی کے ذریعے تصاویر لے کر دیکھ لیں ادھر میں مٹی کے نمونے لے کر چیک کرتا ہوں یوں دونوں طرح سے تسلی ہوجائے گی‘
’ٹھیک ہے اور ہاں جیسے ہی بارش رکے فورا شہاب ثاقب کے اس پتھر کو اڑادیں تاکہ زندگی دوبارہ نمودار نہ ہوسکے‘زینگ بولا
’ ہاں ہم یہی کریں گے‘پروفیسر ادریس نے کہا

جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود ندیم کے دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا اس نے سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور خالی خولی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا پھر وہ سلاخوں کو پکڑ کر چلایا
’مجھے باہر نکالو مجھے یہاں سے باہر نکالو‘
ان حالات کی خبر انسپکٹر عمران کو دی گئی تو انہوں نے ندیم کو اپنے پاس بلوالیا
’میرا خیال ہے کہ اب تم زمین کے اثر سے آزاد ہوگئے ہو‘وہ بولے
’ہاں مجھے سب کچھ یاد آگیا ہے کہ میں کیا کچھ کرتا رہا ہوںاف خدا یہ سب کیا تھا‘ وہ کانپ کر بولا
’خدا کا شکر کرو کہ تم ٹھیک ہوگئے ہو میرا خیال ہے کہ زہریلی بارش کے بعد اب تک زمین ختم ہوچکی ہوگی جلد ہی ہمیں خبر مل جائے گی‘
’مم میں تو اس دوران ڈاکٹر رفیع کو ختم بھی کر چکا ہوں کیا مجھے اس کی سزا ملے گی؟‘ اس نے پریشان ہوکر پوچھا
’تم نے جو کچھ کیا زمین کے زیر اثر رہ کر کیا اس لیے تم قصوروار نہیں تاہم ہم عدالت سے بھی وضاحت لے لیں گے تم فکر نہ کرو‘ انسپکٹر عمران نے اسے تسلی دی
’اور اور میرا بھائی نعیم کہاں ہے؟‘ اس نے پوچھا
’وہ خوف سے کہیں روپوش ہوگیا ہے کل اخبار میں سارے حالات شایع ہوجائیں گے ہم نعیم کے نام اشتہار بھی لگوادیں گے امید ہے وہ پڑھ کر جہاں بھی ہے آ جائے گا‘انسپکٹر عمران نے کہا

زہریلی بارش رک چکی تھی اور کئی ہیلی کاپٹر پراسرار علاقے پر پرواز کر رہے تھےپھر ایک ہیلی کاپٹر اس گڑھے تک پہنچ گیا جس میں شہاب ثاقب والا پتھر پڑا تھا اس نے تڑاتڑ فائرنگ شروع کردی اور شہاب ثاقب سے آنے والا پتھر ٹوٹ کر بکھر گیا٬ ریزہ ریزہ ہوگیا ہیلی کاپٹر میں موجود لمبے قد والے نے خوشی سے نعرہ لگایا پھر ہیلی کاپٹروں نے کئی جگہ سے مٹی کے نمونے اکٹھے کیے اور واپس ہولیے
مٹی کے نمونوں کا جائزہ لے کر پروفیسر ادریس نے سکھ کا سانس لیا پروفیسر زینگ نے سیٹیلائٹ کی مدد سے سارے علاقے کی نئی تصاویر لیں اس بار تصویروں میں سارا علاقہ سبز نظر آرہا تھا کہیں سرخ رنگ کا کوئی دھبہ نہ تھازمینی زندگی کا اختتام ہوچکا تھا سب لوگ خوشیاں منا رہے تھے

پراسرار علاقے میں موجود گڑھے میں شہاب ثاقب کے پتھر کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے اچانک اس کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حرکت میں آیا اور لڑھکنے لگالڑھکتا ہوا وہ ایک اور چھوٹے سے ذرے کے پاس پہنچا اور دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئےپھر وہ بڑا ٹکڑا لڑھکتا ہوا ایک اور ننھے سے ذرے کے پاس پہنچا اور اس سے جڑ گیا چند چھوٹے چھوٹے ذرے اور حرکت میں آئے اور ایک دوسرے کی طرف بڑھے وہ سب آپس میں جڑتے جارہے تھے یوں کچھ دیر بعد وہاں ایک چھوٹا سا پتھر وجود میں آگیاوہ پتھر زور سے لرزا اور اس کے اندر سے آواز ابھری
’میرا بڑا حصہ ضایع ہوگیا اور میں چھوٹا سا رہ گیا انسان نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ساری زمین بھی زہریلی ہوچکی ہے اور میری طاقت بھی کم ہوگئی ہےاس بار مجھے زمین کو زندہ کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرنا ہوگی کہیں زیادہ وقت لگے گا مگر ایک دن آئے گا جب کامیابی میرے قدم چومے گی٬ پھر میں ان تمام انسانوں سے نمٹ لوں گا جنہوں نے مجھے برباد کیا‘
اختتام

محمد عادل منہاج
 
Top