جوش زندہ درگور - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
ممکن ہے اہلِ فکر میں کل برگزیدہ ہوں
اب تک تو ایک زمزمۂ ناشنیدہ ہوں

بخشی ہے آسماں نے مجھے قسمتِ قلم
پاکوبِ راہِ تیرگی و سر بُریدہ ہوں

اب تک کہیں فضا پہ نہیں عشوۂ ہما
اک مدتِ دراز سے گو دام چیدہ ہوں

ذراتِ ناسزا کی ضیافت کے واسطے
شبنم کی طرح برگِ سمن سے چکیدہ ہوں

اہلِ بہشت کیوں نہ غضبناک ہوں کہ میں
میدانِ ابلہی کا غزالِ رمیدہ ہوں

دھومیں ہیں میرے کفر کی شہرِ مجاز میں
صرف اس گناہ پر کہ حقائق رسیدہ ہوں

پوجو تو ذوالجلال، جو توڑو تو صرف بت
میں اُس خدائے اہلِ جنوں سے کشیدہ ہوں

جس کا لہو حلال ہے وہ رندِ کشتنی
جس کا صلہ حرام ہے میں وہ قصیدہ ہوں

جو بخشتی ہے ذہن کو شمشاد قامتی
میں آج اُس نگاہ کے ہاتھوں خمیدہ ہوں

اس جرم میں کہ عشق کو کہتا ہوں ضعفِ عقل
میں خانقہ دریدہ و مسجد گَزیدہ ہوں

کہتے ہیں مجھ کو لفظ نشیں، رمز ناشناس
ہرچند سوئے شہرِ معانی دویدہ ہوں

اس دور کی نظر میں بہ ایں نور و پختگی
قندیلِ بے فروغ و مئے ناکشیدہ ہوں

مجھ سے خفا ہے ذریتِ صرصر و سموم
صرف اس قصور پر کہ قبا پروریدہ ہوں

مرنے کے بعد قبر میں گڑتا ہے آدمی
میں دورِ زندگی ہی میں خاک آرمیدہ ہوں

سو سال بعد آئے گی جس کی زمیں پہ فصل
میں بدنصیب وہ ثمرِ نورسیدہ ہوں

اے زود زادگی و توقف بریدگی
تیری نوازشوں سے گریباں دریدہ ہوں

گزریں گے میری فکر کے جادے سے کل جلوس
گو آج کارواں سے تعلق بریدہ ہوں

کل نُطقِ عرش و فرش پہ ہو گا مرا سخن
کیا ہے جو آج مصحفِ نا رحل دیدہ ہوں

میں کثرتِ ظہور سے نادیدنی ہوں جوش
میں شدتِ وجود سے ناآفریدہ ہوں

(جوش ملیح آبادی)
 
Top