زندگی کی ہمسفر تنہائیاں رہیں۔ایک غزل برائے اصلاح اساتذہ کی خدمت میں پیش ہے ۔

جزاک اللہ۔ آپ کچھ وضاحت کرنا گوارا کریں تو میرے جیسوں کے لیےعنایت ہو۔ میری "سمجھدانی " ذرا چھوٹی ہوگی۔ :laughing:

اردو سے میری مراد محض اردو الفاظ تھے۔
یہ درست ہے کہ اردو حروف تہجی کی بنیاد عربی، فارسی اور ہندی کے حروف پر ہے۔ اور الفاظ کا بھی یہی حساب ہے۔ مگر آج بھی تقریباً سبھی معاملات میں (سوائے چند ایک کے) فارسی الفاظ کے ساتھ فارسی، ہندی کے ساتھ ہندی اور عربی کے ساتھ عربی کے اصول مستعمل ہیں۔ اور اہل لغت جانتے ہیں کہ دو چشمی ھ کا وجود ہندی ہی کا ہے۔ اور یہ ہندی کا فیضان ہے۔ :) ہاں یہ اور بات ہے کہ اردو میں فارسی، عربی اور ہندی اور دیگر زبانوں کے خلط کی وجہ سے کچھ دوسرے حروف تہجی بھی غیر شعوری طور پر وجود میں آگئے۔ جیسے اوپر ذکر کیا ہے۔ مگر اردو میں اصل پہچان ہر لفظ کی اسی زبان سے ہے جس سے وہ آیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اردو دان کے لئے سب زبانوں کے حروف کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا شعر یا نثر پارہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قول کی جمع ”قولوں“ لکھی جائے، اچھا کا اسم کیفیت اچھگی کر دیا جائے، ”یار کی پکار“ کو پکارِ یار کیا جائے۔۔۔ وعلی ہذاالقیاس۔
یہ تفریق اسی لئے ہے کہ اردو ہر زبان کے لفظ کو اسی زبان کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کے اصولوں کو بھی انفرادی طور پر تسلیم کرتی ہے۔ تو یہاں یہ بات بھی بے معانی ہوتی ہے گھوڑا،گدھا، یا دوسرے ہندی الفاظ اردو ہیں اور ہندی الاصل ہیں۔ کیونکہ اہل زبان انہیں اردو سمجھتے ہی نہیں بلکہ ہندی ہی مانتے ہیں۔
یہی مقصد میری بات کا تھا کہ بیشک ھ اب اردو کے الفاظ میں ہے مگر در حقیقت اس کا وجود اردو نہیں۔ بلکہ ہندی ہے۔
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب نے میرے الفاظ کو یک لخت بھانپ لیا تھا۔ :)
 
نِ=1، بھٹ=2، کا=2، دِ=1
جے سِ گو ج = 2 1 2 1
محترم نے میں ے ، جیسے میں ے اور گونجتی میں ن کا وزن شمار نہیں ہوگا کیا ؟
 
نِ=1، بھٹ=2، کا=2، دِ=1
جے سِ گو ج = 2 1 2 1
محترم نے میں ے ، جیسے میں ے اور گونجتی میں ن کا وزن شمار نہیں ہوگا کیا ؟

بعض حروف کا وزن شمار نہیں ہوتا۔ مثلاً نون غنہ۔ آسماں، بے نشاں اور دوستاں
ھ دو چشمی کا وزن بھی کوئی نہیں۔ تمہارا، کھلونا، بچھونا۔
اسی طرح حروف علت (الف، واؤ، ی اور ے) کا وزن تو ہوتا ہے مگر کبھی کبھی شعری ضرورت پر گرا دیتے ہیں اگر برا نہ محسوس ہو۔
 
دہ چشمی ھ کا وزن تو نھیں ہوتا، کیا ایک چشمی ہ کا وزن ہوتا ہے ؟ جیسے کہ تمہارا میں ایک چشمی ہ ہے اور یہ بھی بتا دیں آ کا وزن کیا ہوگا
 
دہ چشمی ھ کا وزن تو نھیں ہوتا، کیا ایک چشمی ہ کا وزن ہوتا ہے ؟ جیسے کہ تمہارا میں ایک چشمی ہ ہے اور یہ بھی بتا دیں آ کا وزن کیا ہوگا
تمہارا کی ھ دو چشمی ہی ہے۔ لکھنے میں نہیں آتی۔ باقی ہ کا اپنا وزن ہے۔ جیسے: مرہون منت،
مبہم، رہزن وغیرہ۔
الف مدہ آ کا وزن 2 کے برابر ہے۔ یعنی دو الف۔ پہلا متحرک دوسرا ساکن۔ اَا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اردو سے میری مراد محض اردو الفاظ تھے۔
یہ درست ہے کہ اردو حروف تہجی کی بنیاد عربی، فارسی اور ہندی کے حروف پر ہے۔ اور الفاظ کا بھی یہی حساب ہے۔ مگر آج بھی تقریباً سبھی معاملات میں (سوائے چند ایک کے) فارسی الفاظ کے ساتھ فارسی، ہندی کے ساتھ ہندی اور عربی کے ساتھ عربی کے اصول مستعمل ہیں۔ اور اہل لغت جانتے ہیں کہ دو چشمی ھ کا وجود ہندی ہی کا ہے۔ اور یہ ہندی کا فیضان ہے۔ :) ہاں یہ اور بات ہے کہ اردو میں فارسی، عربی اور ہندی اور دیگر زبانوں کے خلط کی وجہ سے کچھ دوسرے حروف تہجی بھی غیر شعوری طور پر وجود میں آگئے۔ جیسے اوپر ذکر کیا ہے۔ مگر اردو میں اصل پہچان ہر لفظ کی اسی زبان سے ہے جس سے وہ آیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ کسی بھی اردو دان کے لئے سب زبانوں کے حروف کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا شعر یا نثر پارہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قول کی جمع ”قولوں“ لکھی جائے، اچھا کا اسم کیفیت اچھگی کر دیا جائے، ”یار کی پکار“ کو پکارِ یار کیا جائے۔۔۔ وعلی ہذاالقیاس۔
یہ تفریق اسی لئے ہے کہ اردو ہر زبان کے لفظ کو اسی زبان کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کے اصولوں کو بھی انفرادی طور پر تسلیم کرتی ہے۔ تو یہاں یہ بات بھی بے معانی ہوتی ہے گھوڑا،گدھا، یا دوسرے ہندی الفاظ اردو ہیں اور ہندی الاصل ہیں۔ کیونکہ اہل زبان انہیں اردو سمجھتے ہی نہیں بلکہ ہندی ہی مانتے ہیں۔
یہی مقصد میری بات کا تھا کہ بیشک ھ اب اردو کے الفاظ میں ہے مگر در حقیقت اس کا وجود اردو نہیں۔ بلکہ ہندی ہے۔
استاد محترم محمد یعقوب آسی صاحب نے میرے الفاظ کو یک لخت بھانپ لیا تھا۔ :)
مزمل صاحب ۔
آپ نے فرمایا کہ اردو سے میری مراد محض اردو الفاظ تھے ۔۔۔۔۔اور آپ نے فرمایا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اردو میں اصل پہچان ہر لفظ کی اسی زبان سے ہے جس سے وہ آیا ہے۔
اردو سے مراد ًمحض اردو ً ہےتو آپ وضاحت کریں گے کہ اس ًمحض اردوً سے آپ کی مراد کیا ہے ؟۔ کیا آپ کی مراد ایسے الفاظ ہیں جو ہندی فاسی عربی یا ترکی نہیں فقط اردو زبان کے الفاظ ہیں ؟ ۔۔۔۔تو اگرآپ اردو زبان کے اپنے الفاظ کی لغت ترتیب دیں تو اندازہ لگا لیجیے کہ وہ کتنی ضخیم جلدوں پر محیط ہو گی۔:)۔۔۔۔ اور کتنے ہزار کلمات جمع کر پائے گی۔۔۔۔۔میرے خیال میں تو صفحآت تو کجا بات چند سطروں سے آگے نہ بڑھ پائے گی۔۔۔۔
اور آپ گھوڑے کے عنوان پر ایک صفحے کا مضمون "محض اردو" لکھ کر دیکھیں جس میں " محض اردو " کے الفاظ ہوں اور پھر ملاحظہ کریں بیان کی سلاست اور لہجے کی شیرنی اور معانی کی بلاغت کا کیا نقشہ سامنے آتا ہے۔:)
میرے بھائی اس معاملے میں اردو کو اگر آپ ایک ترقی یافتہ علمی زبان سمجھتے ہیں تو یہ زبان دیگر زبانوں سے مختلف ہے۔ اس میں آپ کو تمام لسانی اجزائے ترکیبی کا استعمال اردو کے محاوراتی سانچے میں ڈھلاہوا ملے گا جن عناصر سے اس کا رواں محاورہ عبارت ہے۔۔۔۔اور جن سے آپ بہ خوبی واقف ہیں ۔ اگر چہ بنیادی طور پر ہر زبان کے اصول کو اس زبان کی رعایت سے برتنا اردو کا عمومی طریقہ ہے لیکن اس کا سب سے ممتاز وصف ہی یہ ہے کہ ان تمام زبانوں کے کلمات کی ترکیبات ایک منفرد محاوراتی اسلوب کے ساتھ ترتیب پا کر خوب صورتی کے ساتھ ادبی علمی تحقیقی و موضوعاتی تقاضے پوری کرتی ہیں ۔۔۔اگر آپ اردو سے ایسی سابقی و لاحقی ترکیبات نکال دیں کہ جن میں فارسی عربی اور دیگر زبانوں کے کلمات مثلا" خیر اندیش ۔۔ (خیرعربی اندیش فارسی)۔۔ لطف اندوز (لطف عربی اندوز فارسی) ۔۔ گھڑ سوار ۔شہسوار ۔۔نثر پارہ ۔وغیرہ ۔ جڑ کر خوبصورتی سے زبان کے مزاج کے مطابق استعمال ہوتے ہیں تو اردو زبان کی شکل میں جو تبدیلی ہو گی اس کا اندازہ اہل زبان خوب لگا سکتے ہیں۔ اردو کی لغات اور صرفی تراکیب کے ذخیرہء الفاط سے قطع نظر اگر جملوں کی نحوی ساخت دیکھا جائے تو تمام تر ڈھانچہ ہندی کا ہوتا ہے۔۔۔۔جہاں تک بات ھ کی ہے تو یہ ہندی میں سرے سے موجود ہی نہیں۔بلکہ ہندی میں چھ بھ پھ تھ ٹھ جھ دھ وغیرہ انفرادی حروف کے طور پر موجود ہیں جیسا کہ سندھی میں چار نقطوں والے حروف ہوتے ہیں ۔اردو میں ھ انہی کے متبادل کے طور پہ اختیار کی گئی ہے۔اور اسی باعث اردو نے ہندی کلمات کو کثرت کے ساتھ بعینہ سموئے رکھا ہے۔۔۔۔
اگر اب بھی آپ گھوڑے کو اردو کا لفظ نہیں مانتے تو آپ بتائیں کہاہل زبان گھوڑےاور گدھے کو اردو میں کیا کہتے ہیں ؟:) کسی بھی زبان میں دخیل کلمات معمولی رد و بدل کے ساتھ بھی شامل ہوتے ہیں اور بعینہ بھی(مثلا" عربی کی تائے مربوطہ عموما" ت بن جاتی ہے) ۔ بچہ کے ساتھ ہم پن کا ہندی لاحقہ لگاتے ہیں بچگی نہیں۔۔۔۔ یہ سب زبان اور اہل زبان کے برتاؤ پر موقوف ہے جو ارتقائی مدارج سے حاصل کردہ مزاج کے مطابق ہو۔۔۔
عربی میں جملہ کی جمع ۔ جمل ہے ۔ (جیم پر پیش )۔لیکن اردو میں آپ نے " جملوں" (حالانکہ یہ بھی قولوں کے ہی مشابہ ہے :) ) کے متبادل کے طور پر کتنی بار "جمل " کا استعمال کیا ہو گا۔۔۔یہ سب اہل زبان کے محاوراتی قبولیت کے پہلو ہیں۔۔۔لیکن کسی کلمے کی اصل کی اہمیت بہ ہر حال اپنی جگہ مسلم ہے۔
 

ام احسن

محفلین
مزمل صاحب ۔
آپ نے فرمایا کہ اردو سے میری مراد محض اردو الفاظ تھے ۔۔۔ ۔۔اور آپ نے فرمایا کہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ مگر اردو میں اصل پہچان ہر لفظ کی اسی زبان سے ہے جس سے وہ آیا ہے۔
اردو سے مراد ًمحض اردو ً ہےتو آپ وضاحت کریں گے کہ اس ًمحض اردوً سے آپ کی مراد کیا ہے ؟۔ کیا آپ کی مراد ایسے الفاظ ہیں جو ہندی فاسی عربی یا ترکی نہیں فقط اردو زبان کے الفاظ ہیں ؟ ۔۔۔ ۔تو اگرآپ اردو زبان کے اپنے الفاظ کی لغت ترتیب دیں تو اندازہ لگا لیجیے کہ وہ کتنی ضخیم جلدوں پر محیط ہو گی۔:)۔۔۔ ۔ اور کتنے ہزار کلمات جمع کر پائے گی۔۔۔ ۔۔میرے خیال میں تو صفحآت تو کجا بات چند سطروں سے آگے نہ بڑھ پائے گی۔۔۔ ۔
اور آپ گھوڑے کے عنوان پر ایک صفحے کا مضمون "محض اردو" لکھ کر دیکھیں جس میں " محض اردو " کے الفاظ ہوں اور پھر ملاحظہ کریں بیان کی سلاست اور لہجے کی شیرنی اور معانی کی بلاغت کا کیا نقشہ سامنے آتا ہے۔:)
میرے بھائی اس معاملے میں اردو کو اگر آپ ایک ترقی یافتہ علمی زبان سمجھتے ہیں تو یہ زبان دیگر زبانوں سے مختلف ہے۔ اس میں آپ کو تمام لسانی اجزائے ترکیبی کا استعمال اردو کے محاوراتی سانچے میں ڈھلاہوا ملے گا جن عناصر سے اس کا رواں محاورہ عبارت ہے۔۔۔ ۔اور جن سے آپ بہ خوبی واقف ہیں ۔ اگر چہ بنیادی طور پر ہر زبان کے اصول کو اس زبان کی رعایت سے برتنا اردو کا عمومی طریقہ ہے لیکن اس کا سب سے ممتاز وصف ہی یہ ہے کہ ان تمام زبانوں کے کلمات کی ترکیبات ایک منفرد محاوراتی اسلوب کے ساتھ ترتیب پا کر خوب صورتی کے ساتھ ادبی علمی تحقیقی و موضوعاتی تقاضے پوری کرتی ہیں ۔۔۔ اگر آپ اردو سے ایسی سابقی و لاحقی ترکیبات نکال دیں کہ جن میں فارسی عربی اور دیگر زبانوں کے کلمات مثلا" خیر اندیش ۔۔ (خیرعربی اندیش فارسی)۔۔ لطف اندوز (لطف عربی اندوز فارسی) ۔۔ گھڑ سوار ۔شہسوار ۔۔نثر پارہ ۔وغیرہ ۔ جڑ کر خوبصورتی سے زبان کے مزاج کے مطابق استعمال ہوتے ہیں تو اردو زبان کی شکل میں جو تبدیلی ہو گی اس کا اندازہ اہل زبان خوب لگا سکتے ہیں۔ اردو کی لغات اور صرفی تراکیب کے ذخیرہء الفاط سے قطع نظر اگر جملوں کی نحوی ساخت دیکھا جائے تو تمام تر ڈھانچہ ہندی کا ہوتا ہے۔۔۔ ۔جہاں تک بات ھ کی ہے تو یہ ہندی میں سرے سے موجود ہی نہیں۔بلکہ ہندی میں چھ بھ پھ تھ ٹھ جھ دھ وغیرہ انفرادی حروف کے طور پر موجود ہیں جیسا کہ سندھی میں چار نقطوں والے حروف ہوتے ہیں ۔اردو میں ھ انہی کے متبادل کے طور پہ اختیار کی گئی ہے۔اور اسی باعث اردو نے ہندی کلمات کو کثرت کے ساتھ بعینہ سموئے رکھا ہے۔۔۔ ۔
اگر اب بھی آپ گھوڑے کو اردو کا لفظ نہیں مانتے تو آپ بتائیں کہاہل زبان گھوڑےاور گدھے کو اردو میں کیا کہتے ہیں ؟:) کسی بھی زبان میں دخیل کلمات معمولی رد و بدل کے ساتھ بھی شامل ہوتے ہیں اور بعینہ بھی(مثلا" عربی کی تائے مربوطہ عموما" ت بن جاتی ہے) ۔ بچہ کے ساتھ ہم پن کا ہندی لاحقہ لگاتے ہیں بچگی نہیں۔۔۔ ۔ یہ سب زبان اور اہل زبان کے برتاؤ پر موقوف ہے جو ارتقائی مدارج سے حاصل کردہ مزاج کے مطابق ہو۔۔۔
عربی میں جملہ کی جمع ۔ جمل ہے ۔ (جیم پر پیش )۔لیکن اردو میں آپ نے " جملوں" (حالانکہ یہ بھی قولوں کے ہی مشابہ ہے :) ) کے متبادل کے طور پر کتنی بار "جمل " کا استعمال کیا ہو گا۔۔۔ یہ سب اہل زبان کے محاوراتی قبولیت کے پہلو ہیں۔۔۔ لیکن کسی کلمے کی اصل کی اہمیت بہ ہر حال اپنی جگہ مسلم ہے۔
 

ام احسن

محفلین
اردو زبان میں دخیل الفاظ کے ساتھ ہم اردو کے ہی قواعد و ضوابط روا رکھیں گے۔دخیل الفاظ مفرد بھی ہو سکتے ہیں اور مرکب بھی ہو سکتے ہیں ۔
 
دخل در معقولات کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
بات ایسے تھی نہیں جیسے بن گئی ہے۔ جب ہم اردو میں شامل الفاظ کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ عربی کا ہے، وہ فارسی کا ہے، فلاں ترکی کا ہے، ہندی کا ہے ۔۔ وغیرہ ۔۔۔ تو ہمارا مقصد یہ قطعاً نہیں ہوتا کہ یہ اردو کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ: یہ عربی زبان سے آیا ہے، وہ فارسی الاصل ہے، فلاں ترکی سے لیا گیا ہے، ہندی سے اردو میں آیا ہے وغیرہ۔ جب اردو میں ہے تو پھر وہ اردو کا ہے، ہاں الفاظ اور تراکیب سازی میں جو طریقے معروف ہیں، مثلاً:
الگوہر درست نہیں، کیوں؟ کہ الف لام تعریفی صرف عربی اسماء پر داخل ہوتا ہے۔
دیوارِ جھوٹ درست ترکیب نہیں، کیوں؟ کہ زیرِ اضافت والی ترکیب عربی اور فارسی اسماء پر مشتمل ہو سکتی ہے، ہندی اسماء پر نہیں۔
یہاں بھی مقصود اسماء کی اصل کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے، ان کو اردو سے خارج کرنا نہیں۔

اسماء و افعال و کلمات کی ایک اور صورت ’’وضعی‘‘ ہے کہ اپنی اصل زبان میں ان کے ہجے وغیرہ کچھ اور تھے، اردو میں ان کا نفوذ کسی تبدیل شدہ ہجوں کے ساتھ ہوا ہے: البتہ، علیحدہ، افراتفری؛ وغیرہ، ان پر مزید گفتگو پھر کبھی سہی۔


دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دخل در معقولات کے لئے معذرت خواہ ہوں۔
بات ایسے تھی نہیں جیسے بن گئی ہے۔ جب ہم اردو میں شامل الفاظ کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ عربی کا ہے، وہ فارسی کا ہے، فلاں ترکی کا ہے، ہندی کا ہے ۔۔ وغیرہ ۔۔۔ تو ہمارا مقصد یہ قطعاً نہیں ہوتا کہ یہ اردو کا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہوتا ہے کہ: یہ عربی زبان سے آیا ہے، وہ فارسی الاصل ہے، فلاں ترکی سے لیا گیا ہے، ہندی سے اردو میں آیا ہے وغیرہ۔ جب اردو میں ہے تو پھر وہ اردو کا ہے، ہاں الفاظ اور تراکیب سازی میں جو طریقے معروف ہیں، مثلاً:
الگوہر درست نہیں، کیوں؟ کہ الف لام تعریفی صرف عربی اسماء پر داخل ہوتا ہے۔
دیوارِ جھوٹ درست ترکیب نہیں، کیوں؟ کہ زیرِ اضافت والی ترکیب عربی اور فارسی اسماء پر مشتمل ہو سکتی ہے، ہندی اسماء پر نہیں۔
یہاں بھی مقصود اسماء کی اصل کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے، ان کو اردو سے خارج کرنا نہیں۔

اسماء و افعال و کلمات کی ایک اور صورت ’’وضعی‘‘ ہے کہ اپنی اصل زبان میں ان کے ہجے وغیرہ کچھ اور تھے، اردو میں ان کا نفوذ کسی تبدیل شدہ ہجوں کے ساتھ ہوا ہے: البتہ، علیحدہ، افراتفری؛ وغیرہ، ان پر مزید گفتگو پھر کبھی سہی۔


دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔ یہ دخل در معقولات ہر گز نہیں بلکہ ایک انتہائی قیمتی اور دلچسپ مفید رائے ہے۔:thumbsup:
 

تیرگی کو روشنی سے بات کرنی آگئی
جسطرح ہم کو صبح سے رات کرنی آگئی
محترم میں نے اس شعر کو اسطرح تقطیع کیا ہے
تی 2 ر 1 گی 2 کو 2 رو 2 ش 1 نی 2 سے 2 با 2 ت 1 کر 2 نی 2 آ 2 گ 1 ئی 2
جس 2 ط 1 رح 2 ہم 2 کو 2 ص 1 بح 2 سے 2 را 2 ت 1 کر 2 نی 2 آ 2 گ 1 ئی 2
فاعلن+مستفعلن+مستفعلن+مستفعلن
کیا یہ کوئی بحر بنتی ہے اور کیا یہ شعر وزن میں ہے۔
 

تیرگی کو روشنی سے بات کرنی آگئی
جسطرح ہم کو صبح سے رات کرنی آگئی
محترم میں نے اس شعر کو اسطرح تقطیع کیا ہے
تی 2 ر 1 گی 2 کو 2 رو 2 ش 1 نی 2 سے 2 با 2 ت 1 کر 2 نی 2 آ 2 گ 1 ئی 2
جس 2 ط 1 رح 2 ہم 2 کو 2 ص 1 بح 2 سے 2 را 2 ت 1 کر 2 نی 2 آ 2 گ 1 ئی 2
فاعلن+مستفعلن+مستفعلن+مستفعلن
کیا یہ کوئی بحر بنتی ہے اور کیا یہ شعر وزن میں ہے۔
صرف وزن کے تناظر میں:
1۔یہ بحر رمل مثمن محذوف ہے اس کے ارکان ہیں: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2۔ صبح 12 ہے نہ کہ 21 یعنی ب ساکن ہے۔ صب:2 ۔۔۔۔ ح:1
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صرف وزن کے تناظر میں:
1۔یہ بحر رمل مثمن محذوف ہے اس کے ارکان ہیں: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2۔ صبح 12 ہے نہ کہ 21 یعنی ب ساکن ہے۔ صب:2 ۔۔۔ ۔ ح:1
مجھے صرف پہلے مصرع میں ایک اور ترتیب دکھائی دی۔
فاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
سراس صورت میں شعر بے وزن ہوگیا کیا ؟
جی ہاں اس طرح وزن درست نہیں رہا۔۔۔صبح کے بارے میں سرسری بھائی نے درست لکھا ہے۔صبح کا وزن درد ہے نہ کہ جگر
ماہرین سے رائے لے لیں۔
 

مفعول = 122

فاعلات = 1212

مفاعیل = 1221

فاعلن = 212

فَعُولُن = 122

مستفعلن = 2122

مفاعیلن =

مفاعلتن =
محترم آخری دو کو عددی طریقے سے کسطرح لکھیں گے ؟
 
صرف وزن کے تناظر میں:
1۔یہ بحر رمل مثمن محذوف ہے اس کے ارکان ہیں: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
2۔ صبح 12 ہے نہ کہ 21 یعنی ب ساکن ہے۔ صب:2 ۔۔۔ ۔ ح:1

صبح، وضع، طرح، قدح، شمع؛ وغیرہ ۔ اصولی طور پر یہ وتد مفروق ہیں۔ ’’طرح‘‘ کو اساتذہ سمیت بہت ساروں نے اور ’’صبح‘‘ کو بہت ساروں نے وتد مجموع بھی باندھا ہے، پھر ایک راہ نکل آئی کہ اس نہج پر قطع، وضع، شمع، قدح، قزح کو وتد مفروق یا وتد مجموع کسی طور بھی باندھ لیا جائے۔ اس کو شاید ’’عروضی غلط العام‘‘ کہا جائے گا۔
اقبال نے (اگرچہ انہیں استاد نہیں مانا جاتا) ایک دو مقامات پر ’’جگر‘‘ کو وتد مفروق باندھا ہے، یا پھر بحر میں تصرف کیا ہے۔ واللہ اعلم
 
Top