ساجدتاج
محفلین
زندگی اتنی سستی کیوں ہو گئی؟
زندگی اتنی سستی کیوں ہو گئی؟
آئے دن اخباروں میں روڈ ایکسیڈنٹ کے ہزاروں واقعات پڑھنے/دیکھنے کو ملتے ہیں۔ روزانہ کتنےلوگ موت کی نیند سو جاتے ہیں ، کتنے ہی لوگ معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں، کتنے ہی گھر اجڑ کر رہ جاتےہیں۔ ذمے دار کونِ؟ کیا ہم نے کبھی اس چیز کی طرف اپنی توجہ دلائی ہے کہ آخر یہ کیوں ہوتا ہے؟ زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میںہے مگر زندگی کو صحیح طریقے گزارنا انسان کی ذمے داری ہوتی ہے۔ آخر آئے دن حادثات کی وجہ کیا ہے ؟
1۔ نابالغ لڑکے/لڑکیوں کا ڈرائیو کرنا
2۔ ضرورت سے زیادہ تیز چلانا
3۔ غلط لین میںڈرائیو کرنا
4۔ شو بازی میں وَن ویلنگ کرنا
5۔ غلط طریقے سے اوور ٹیکنگ کرنا
6۔ دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال
7۔ بِنا اشاروںکے اپنی لائن تبدیل کرنا
8۔ سگنل توڑنا
یہ تمام چیزیں ٹریفک حادثات کا باعث بنتی ہیں لیکن افسوس روزمرہ کے حادثات کو دیکھ کر بھی ہم سبق حاصل نہیںکرتے اور اپنی لائف کی روٹین کو نارمل طریقے سے ہی چلاتے رہتے ہیں۔ ٹریفک حادثات زیادہ تر تیز رفتاری کی وجہ سے ہی ہوتےہیں۔ آج کل دُنیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اُتنی ہی تیزی سے روڈ ایکسیڈنٹ میںبھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں لوگوں کو کس بات کی جلدی ہوتی ہے کہ رفتار کو کم کرنے کی بجائےبڑھاتے ہی جاتے ہیں۔ یہ کیوں بھول بیٹھیں کہ ان کو جو زندگی ملی ہے وہ بس ایک بار ملی ہے جو ایک بار گیا وہ لوٹ کر نہیںآئے گا۔
آج کی نوجوان نسل کو شاید موت سے ڈر نہیں لگتا اس لیے سڑکوں پر اندھا دھند ڈرائیو کرتے پھرتے رہتے ہیں۔ کہیں زِک زیک کرتے ہیںتو کہیں وَن ولنگ تو کہیں اوور سپیڈ کرتے رہتےہیں، وہ یہ کام کرتے وقت یہ محسوس کرتے ہیں ارد گرد کے ماحول سے کہ شاید لوگ ہمیں دیکھ کر یہ رائے دیتے یا سوچتے ہوں گے کہ واہ کیا یہ لڑکا کیا خوب کرتب دکھا رہا ہے۔ لیکن اُن کا یہ خیال نہایت غلط ثابت ہوتا ہے دیکھنے والے لوگ تریف نہیں بلکہ گالیاں/بد دُعائیں دے رہے ہوتےہیں۔
اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات خواتین اور بچوں کو بٹھا کر بھی تیز رفتار سے ڈرائیو کر رہے ہوتے ہیں۔ آخر ایسے لوگوں کے ذہن میںکیا ہوتا ہے؟ جو یہ ایسا کرتے ہیں۔ اگر ان ایسے لوگوں کو اپنی پروا نہیں تو کم ازکم ساتھ بیٹھے ہوئے بیوی، بچوں، یا ماں ، بہن کی پروا تو کریں۔
آج کل چھوٹے چھوٹے بچے بھی موٹر سائیکل/گاڑی کو تیز چلانےپر بہت ترجیح دیتےہیں۔ میں آپ کو اپنے ہی بھتیجے/ بھتیجی کی بات بتاتا ہوں ۔ ایک دن میں اپنے بھتیجے / بھتیجی کو موٹر سائیکل پر لے کر کہیںجا رہا تھا میری موٹر سائیکل کی رفتار کم از کم 40کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی تو میرے بھتیجے جس کا نام محمد عیسی ہے اور بھتیجی کا نام انیلا ہے نے کہا کہ چاچو جی تیز چلائیں نا۔ آپ آہستہ آہستی چلا رہے ہو مزہ نہیں آرہا ہے۔ بہرحال میں نے تھوری سی رفتار بڑھا دی تو پھر کہنے لگے کہ اور تیز کریں نا چاچو۔ کبھی کبھی بچوں کی اچھی اور بُری عادتوںسے ہمیں کوئی نہ کوئی سبق ضرور حاصل ہوتا ہے۔اُس وقت اگر میں اُن کی بات کو مان کر اپنی رفتار مزید بڑھا دیتا تو ہو سکتا تھا کہ اُن کے مائنڈ میںیہ چیز بیٹھ جاتی کہ تیز چلانے میںہی مزہ ہے۔ کل کو بڑے ہو کر وہ بھی اسی لائن پر چل پڑیں کیونکہ بچے ہر چیز کو بہت جلد پِک کرتے ہیںاور وہ کام خود بھی کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔میں نے فورا انہیں غصے سے ڈانٹا اور کہا کہ بُری بات ہوتی ہے تیز نہیں چلاتے۔ اگر میںتیز چلائوںگا تو ہم گِر جائیں گےاور سب کو چوٹ لگے گی اور پھر خؤن نکلے گا اوردرد بھی ہو گا پھر وہ دونوں چُپ کر گئے۔ یاد رکھیں بچے ہمیشہ وہی کرتےہیں جیسا وہ اپنے بثوں کو بڑا کرتے دیکھتے ہیں۔
نوٹ:۔
زندگی ایک بار ملتی ہےاس کو ایسے مت گنوائیں۔ کوئی بھی بُرا کام کرنے سے پہلے یہ سوچلیا کریںکہ آپ کے پیچھے آپ کی پوری فیملی ہے جنہوں نے آپ کے اوپر کتنی اُمیدیںلگا رکھی ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں کی کتنی مشکلوں اور تکلیفوں سے ہمیںپال پوس کر بڑا کرتے ہیں کہ ہم اُن کا سہارا بنیںگے لیکن اس طرح کے کام کر کے ہم انہیںوقت سے پہلے مار دیتے ہیں، ساری زندگی کے لیے انہیں روتا چھوڑ دیتے ہیں آخر کیوں؟ کیا ہمیںوہ اس لیے بڑا کرتے ہیں کہ بڑے ہو کر ہم اپنی زندگی کو فضول کاموں مینڈال کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا اس لیے بڑا کرتے ہیں کہ ہم فحاشی میں پڑ کر اپنی دنیا و آخرت خراب کر لیں؟ والدین کے سارے خواب جو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے دیکھے ہوتےہیں ایک لمحے سب چکنا چور کر کے رکھ دیتے ہیں۔
افسوس کہ ہمارے دلوںمیں احساس ، احترام ، عزت و پیار جیسی کوئی چیز باقی رہی ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم آج صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں شاید اس لیے ہمارے دل مُردہ ہو چُکے ہیں۔
آخر میںایک چھوٹی سے بات کہنا چاہوں گا ہم جب بھی گھر سے نکلتے ہیں تو گھر سے نکلنے کی دُعا / سفر کی دُعا کی بجائے اپنے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر جاتےہیں اور اپنی منزل پر پہچنے سے پہلے کتنے شیطانی کام کر لیتے ہیں۔ جب اللہ تعالی کا نام لے کر کوئی کام کریں تو اُس کی حفاظت پھر اللہ کرتا ہے اور جس کی حفاظت اللہ کرتا ہے تو پھر اُسے کوئی نقصان پہنچا نہیں سکتا۔ بات چھوٹی ضرور ہوسکتی ہے یہ لیکن سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
تحریر : ساجد تاج
آئے دن اخباروں میں روڈ ایکسیڈنٹ کے ہزاروں واقعات پڑھنے/دیکھنے کو ملتے ہیں۔ روزانہ کتنےلوگ موت کی نیند سو جاتے ہیں ، کتنے ہی لوگ معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں، کتنے ہی گھر اجڑ کر رہ جاتےہیں۔ ذمے دار کونِ؟ کیا ہم نے کبھی اس چیز کی طرف اپنی توجہ دلائی ہے کہ آخر یہ کیوں ہوتا ہے؟ زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میںہے مگر زندگی کو صحیح طریقے گزارنا انسان کی ذمے داری ہوتی ہے۔ آخر آئے دن حادثات کی وجہ کیا ہے ؟
1۔ نابالغ لڑکے/لڑکیوں کا ڈرائیو کرنا
2۔ ضرورت سے زیادہ تیز چلانا
3۔ غلط لین میںڈرائیو کرنا
4۔ شو بازی میں وَن ویلنگ کرنا
5۔ غلط طریقے سے اوور ٹیکنگ کرنا
6۔ دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال
7۔ بِنا اشاروںکے اپنی لائن تبدیل کرنا
8۔ سگنل توڑنا
یہ تمام چیزیں ٹریفک حادثات کا باعث بنتی ہیں لیکن افسوس روزمرہ کے حادثات کو دیکھ کر بھی ہم سبق حاصل نہیںکرتے اور اپنی لائف کی روٹین کو نارمل طریقے سے ہی چلاتے رہتے ہیں۔ ٹریفک حادثات زیادہ تر تیز رفتاری کی وجہ سے ہی ہوتےہیں۔ آج کل دُنیا جتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اُتنی ہی تیزی سے روڈ ایکسیڈنٹ میںبھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں لوگوں کو کس بات کی جلدی ہوتی ہے کہ رفتار کو کم کرنے کی بجائےبڑھاتے ہی جاتے ہیں۔ یہ کیوں بھول بیٹھیں کہ ان کو جو زندگی ملی ہے وہ بس ایک بار ملی ہے جو ایک بار گیا وہ لوٹ کر نہیںآئے گا۔
آج کی نوجوان نسل کو شاید موت سے ڈر نہیں لگتا اس لیے سڑکوں پر اندھا دھند ڈرائیو کرتے پھرتے رہتے ہیں۔ کہیں زِک زیک کرتے ہیںتو کہیں وَن ولنگ تو کہیں اوور سپیڈ کرتے رہتےہیں، وہ یہ کام کرتے وقت یہ محسوس کرتے ہیں ارد گرد کے ماحول سے کہ شاید لوگ ہمیں دیکھ کر یہ رائے دیتے یا سوچتے ہوں گے کہ واہ کیا یہ لڑکا کیا خوب کرتب دکھا رہا ہے۔ لیکن اُن کا یہ خیال نہایت غلط ثابت ہوتا ہے دیکھنے والے لوگ تریف نہیں بلکہ گالیاں/بد دُعائیں دے رہے ہوتےہیں۔
اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ مرد حضرات خواتین اور بچوں کو بٹھا کر بھی تیز رفتار سے ڈرائیو کر رہے ہوتے ہیں۔ آخر ایسے لوگوں کے ذہن میںکیا ہوتا ہے؟ جو یہ ایسا کرتے ہیں۔ اگر ان ایسے لوگوں کو اپنی پروا نہیں تو کم ازکم ساتھ بیٹھے ہوئے بیوی، بچوں، یا ماں ، بہن کی پروا تو کریں۔
آج کل چھوٹے چھوٹے بچے بھی موٹر سائیکل/گاڑی کو تیز چلانےپر بہت ترجیح دیتےہیں۔ میں آپ کو اپنے ہی بھتیجے/ بھتیجی کی بات بتاتا ہوں ۔ ایک دن میں اپنے بھتیجے / بھتیجی کو موٹر سائیکل پر لے کر کہیںجا رہا تھا میری موٹر سائیکل کی رفتار کم از کم 40کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی تو میرے بھتیجے جس کا نام محمد عیسی ہے اور بھتیجی کا نام انیلا ہے نے کہا کہ چاچو جی تیز چلائیں نا۔ آپ آہستہ آہستی چلا رہے ہو مزہ نہیں آرہا ہے۔ بہرحال میں نے تھوری سی رفتار بڑھا دی تو پھر کہنے لگے کہ اور تیز کریں نا چاچو۔ کبھی کبھی بچوں کی اچھی اور بُری عادتوںسے ہمیں کوئی نہ کوئی سبق ضرور حاصل ہوتا ہے۔اُس وقت اگر میں اُن کی بات کو مان کر اپنی رفتار مزید بڑھا دیتا تو ہو سکتا تھا کہ اُن کے مائنڈ میںیہ چیز بیٹھ جاتی کہ تیز چلانے میںہی مزہ ہے۔ کل کو بڑے ہو کر وہ بھی اسی لائن پر چل پڑیں کیونکہ بچے ہر چیز کو بہت جلد پِک کرتے ہیںاور وہ کام خود بھی کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔میں نے فورا انہیں غصے سے ڈانٹا اور کہا کہ بُری بات ہوتی ہے تیز نہیں چلاتے۔ اگر میںتیز چلائوںگا تو ہم گِر جائیں گےاور سب کو چوٹ لگے گی اور پھر خؤن نکلے گا اوردرد بھی ہو گا پھر وہ دونوں چُپ کر گئے۔ یاد رکھیں بچے ہمیشہ وہی کرتےہیں جیسا وہ اپنے بثوں کو بڑا کرتے دیکھتے ہیں۔
نوٹ:۔
زندگی ایک بار ملتی ہےاس کو ایسے مت گنوائیں۔ کوئی بھی بُرا کام کرنے سے پہلے یہ سوچلیا کریںکہ آپ کے پیچھے آپ کی پوری فیملی ہے جنہوں نے آپ کے اوپر کتنی اُمیدیںلگا رکھی ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں کی کتنی مشکلوں اور تکلیفوں سے ہمیںپال پوس کر بڑا کرتے ہیں کہ ہم اُن کا سہارا بنیںگے لیکن اس طرح کے کام کر کے ہم انہیںوقت سے پہلے مار دیتے ہیں، ساری زندگی کے لیے انہیں روتا چھوڑ دیتے ہیں آخر کیوں؟ کیا ہمیںوہ اس لیے بڑا کرتے ہیں کہ بڑے ہو کر ہم اپنی زندگی کو فضول کاموں مینڈال کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا اس لیے بڑا کرتے ہیں کہ ہم فحاشی میں پڑ کر اپنی دنیا و آخرت خراب کر لیں؟ والدین کے سارے خواب جو انہوں نے اپنی اولاد کے لیے دیکھے ہوتےہیں ایک لمحے سب چکنا چور کر کے رکھ دیتے ہیں۔
افسوس کہ ہمارے دلوںمیں احساس ، احترام ، عزت و پیار جیسی کوئی چیز باقی رہی ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم آج صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں شاید اس لیے ہمارے دل مُردہ ہو چُکے ہیں۔
آخر میںایک چھوٹی سے بات کہنا چاہوں گا ہم جب بھی گھر سے نکلتے ہیں تو گھر سے نکلنے کی دُعا / سفر کی دُعا کی بجائے اپنے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر جاتےہیں اور اپنی منزل پر پہچنے سے پہلے کتنے شیطانی کام کر لیتے ہیں۔ جب اللہ تعالی کا نام لے کر کوئی کام کریں تو اُس کی حفاظت پھر اللہ کرتا ہے اور جس کی حفاظت اللہ کرتا ہے تو پھر اُسے کوئی نقصان پہنچا نہیں سکتا۔ بات چھوٹی ضرور ہوسکتی ہے یہ لیکن سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
تحریر : ساجد تاج