زبان کی حفاظت

شمشاد

لائبریرین
زبان کی حفاظت


اگر آپ کے پاس دو لباس ہوں ایک میلا اور خراب اور دوسرا اجلا اور اچھا تو آپ کون سا لباس پہننا پسند کریں گے۔ یقیناً آپ اجلا اور اچھا لباس پہنیں گے۔ آپ اچھے بھی اسی لباس میں نظر آئیں گے اور لوگ بھی آپ کو اسی لباس میں پسند کریں گے کیونکہ صاف ستھرا لباس انسان کو قابلِ عزت بناتا ہے۔ اسی طرح میلا اور خراب لباس انسان پر اچھا نہیں لگتا اور دیکھنے والوں کو بھی ناگوار ہوتا ہے۔ ہماری زبان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اچھی اور شائستہ زبان ہمیں قابلِ عزت بناتی اور ہماری نیکیوں میں اضافہ کرتی ہے جبکہ خراب اور بےہودہ زبان ہماری ساری عزت ختم کر دیتی اور گناہوں میں اضافہ کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ لہٰذہ عقلمند لوگ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کو غلط اور بری باتوں سے بچا کر اچھے طریقے سے استعمال کرنا زبان کی حفاظت کہلاتا ہے۔ ہمارے دین اسلام میں زبان کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے :

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ اے معاذ روزِ قیامت لوگ اپنی زبان سے کاٹی ہوئی فصلوں کی بدولت ہی منہ کے بل یا ناک کے بل جہنم میں جائیں گے۔“ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے نظر آتا ہے۔“

ابو مالک شعری رضی اللہ عنہ نے پوچھا، “ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بالا خانے کن لوگوں کے حصے میں آئیں گے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، “ پاکیزہ گفتگو کرنے والوں کے حصے میں۔“ (طبرانی)

ہم اپنا جائزہ لیکر دیکھیں وہ کون کون سی خراب باتیں ہیں۔ جن سے بچ کر ہم اپنی زبان کو صاف اور شائستہ بنا سکتے ہیں۔ دنیا میں باعزت بن سکتے ہیں اور آخرت میں جنت کے بالا خانوں کے حقدار ہو سکتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
چیخ چیخ کر بولنا

ہمارا دین ہمارے اخلاق میں اعتدال و توازن کی خوبصورتی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ایک طرف وہ نہ تو کسی کام کو شدت کے ساتھ کرنے کا حکم دیتا ہے اور نہ دوسری طرف اسکی اہمیت میں کمی کرتا ہے۔ بلکہ اعتدال کا راستہ اختیار کرنا سکھاتا ہے۔ بولنے کے معاملے میں اسی خوبصورتی کو اہمیت دی گئی ہے۔

ہم نہ تو اس قدر چیخ کر بولیں کہ دوسروں کو تکلیف ہو اور نہ ہی اس قدر آہستہ آواز میں بولیں کہ بات صاف نہ سنی جا سکے۔ بلکہ مناسب آواز میں بات کریں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی بات سنانے کے لیے چیخ کر کر بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور رفتہ رفتہ یہ ہماری عادت بن جاتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی اپنی بات دوسروں کو سنانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ آہستہ بولے۔ آہستہ بولنے والے کی بات کو لوگ توجہ سے سنتے ہیں جبکہ زور سے بولنے والے کی بات کو سننے کے لیے کسی خاص توجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی بلند آواز کانوں کو ناگوار لگتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے گدھے کی مثال دے کر سمجھایا ہے کہ چیخ چیخ کر بولنا ناپسندیدہ بات ہے۔

“ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ اِنَّ اَنكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ ہ (لقمان : 19) - اپنی چال درمیانی رکھو اور اپنی آواز کو نیچا رکھو۔ بیشک ناپسندیدہ ترین آواز گدھے کی آواز ہے۔“


پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام دنیا کے لوگوں کو حق کا پیغام دینے آئے تھے۔ نہایت مناسب آواز اور واضح انداز میں بات کیا کرتے تھے۔ سننے والا پوری بات بھی سمجھ لیتا اور اس کے کانوں کو آواز باگوار بھی نہ گزرتی۔ یہ حقیقت ہے کہ زور زور سے بولنے سے بولنے والے کی صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فحش گوئی

زبان کو گندہ اور انتہائی غلیظ کرنے والی باتوں میں سب سے زیادہ مکروہ اور ناپسندیدہ خرابی گالی گلوچ کرنا ہے۔ کچھ نادان لوگ غصے میں آ کر گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے کسی دوسرے کا تو کچھ نہیں بگڑتا بلکہ خود انہیں کا نقصان ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ اچھے لوگ ان کو اپنے درمیان آنے نہیں دیتے۔ ان سے کوئی دوستی کرنا تو دور کی بات ہے، بات تک کرنا پسند نہیں کرتا۔ ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ اچھے معزز گھرانوں سے تعلق نہین رکھتے۔ ان کی اس غلیظ عادت کی وجہ سے پورا گھرانا بدنام ہو جاتا ہے۔ آخرت میں ایسے لوگوں کے ساتھ جو خوفناک سلوک کیا جائے گا اس کی منظر کشی درج ذیل حدیث میں یوں کی گئی ہے۔

شفی بن مالح رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چار آدمی جہنم میں ایسے ہوں گے جن کی وجہ سے اہلِ جہنم بھی پریشان ہوں گے۔ یہ لوگ کھولتے ہوئے نہایت گرم پانی اور بھڑکتی ہوئی آگ کے درمیان دوڑ رہے ہوں گے اور ہائے شامت ہائے بربادی کے الفاظ ان کی زبان سے نکل رہے ہوں گے۔ دوزخ کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہم تو ویسے بھی تکلیف میں تھے۔ ان (بڑے بدبختوں) نے ہمیں تھی مزید اذیت میں مبتلا کر دیا۔ ان چاروں میں سے ایک وہ ہو گا جس کے منہ سے خون اور پیپ بہہ رہا ہو گا۔ اللہ تعالٰی کہیں گے کہ، یہ شخص فحش لفظوں میں دلچسپی لیتا تھا۔“

اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ فحش گوئی یا گالی گلوچ کرنا اس قدر گناہ کی بات ہے کہ اس کا عذاب دوسرے گناہوں کے مقابلے میں زیادہ رکھا گیا ہے۔ وہ بچے کس قدر نادان ہیں جو اپنی فحش گوئی کی عادت کی وجہ سے جنت کو جانے والے راستے کی بجائے دوزخ کے راستے پر چل نکلیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بُرے القاب

(ایک مثال)

احمد پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ پڑھنے لکھنے پر بھی توجہ دیتا تھا اور گھر میں تھی سب احمد سے خوش تھے۔ استادوں کی تعریف اور گھر میں سب کی توجہ کا مرکز ہرنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو کافی اہم سمجھنے لگا۔ اس کا اظہار وہ کبھی کبھار اس طرح کرتا کہ کسی دوست کو عجیت و غریب ناموں سے پکارنے لگتا۔ جب سب ہنستے تو اسے بڑا مزہ آتا۔

ایک روز شام کے وقت وہ تھوڑی دیر کے لیے گھر سے باہر کھیلنے گیا اور اپنے وقت پر واپس آ گیا، مگر آج اس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ اس کو ٹیوشن پڑھنے جانا تھا چنانچہ وہ اپنی کتابیں اٹھا کر فوراً چلا گیا۔

اس کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد اس کے دو ساتھی اس کی امی کے پاس آئے اور انہوں نے غصہ میں احمد کی شکایت کی۔ امی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اس کا ضرور علاج کریں گی۔ ان کے جانے کے بعد امی احمد کی الماری کی طرف گئیں اور پھر واپس آ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ ٹیوشن سے گھر واپس آ کر احمد کچھ دیر اپنے چھوٹے بھائی سے کھیلتا رہا۔ آج وہ بڑا خوش دکھائی دے رہا تھا۔ دراصل وہ اب تک دل ہی دل میں اپنے بعض ساتھیوں کو چھیڑنے کا مزہ لے رہا تھا۔

تمام کاموں سے فارغ ہو کر وہ اپنا بستہ رکھنے الماری تک گیا۔ وہ کچھ دیر بعد واپس آیا تو اس کی خوشی غم و غصہ میں بدل چکی تھی۔ غصہ سے اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا۔ سب اس کی اچانک تبدیلی پر حیران تھے۔ احمد کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ کیا کرئے۔ وہ اپنی ڈائری، جو اس نے الماری سے نکالی تھی، لے کر سیدھا امی کے پاس گیا اور غصہ سے بولا “ کس نے میرے نام کے ساتھ اتنے عجیب عجیب اور بُرے بُرے نام لکھے ہیں۔ میں ایسا ہرگز نہیں ہوں۔“

امی احمد کی بری عادت چھڑانے کے لیے اسی موقع کے انتظار میں تھیں۔ وہ احمد کو سمجھاتے ہوئے بولیں،

“ بیٹا اتنا غصہ نہ کرو اور غور سے سنو۔ لقب اور نام رکھنے کو ہم صرف تفریح اور ہنسی مذاق سمجھتے ہیں۔ جبکہ یہ تفریح نہیں بلکہ بہت بڑی بداخلاقی ہے جس سے اللہ تعالٰی نے سختی سے روکا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے “ وَلَا تَنَابَزُوا بِالاَلقَاب (الحجرات - 11) اور ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے نہ پکارو۔“

اس عمل کی وجہ سے دل میں ایک دوسرے کی طرف سے برائیاں آ جاتی ہیں۔ آپس کی محبتیں ختم ہو کر دشمنیوں میں بدل جاتی ہیں۔ ہمیں جن لوگوں کے ساتھ اسکول، محلے اور خاندانوں میں مل جلکر رہنا ہو کیا دلوں میں نفرتیں رکھ کر رہ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اس طرح کرنے سے دوسروں کی بے عزتی اور دل آزاری ہوتی ہے۔ لٰہذا کبھی بھی کسی کو اس نام سے نہ پکارو جو اس کو ناپسند ہو۔

اس وقت تم اپنے نام کے ساتھ بُرے القاب دیکھ کر جس طرح اپنی بےعزتی محسوس کر رہے ہو، بالکل اسی طرح تمہارے دوستوں نے بھی اس وقت اپنی تذلیل محسوس کی ہو گی اور ان کو غصہ آیا ہو گا جب تم نے ان کو محض تفریحاً بُرے ناموں سے پکارا ہو گا۔“

احمد انے ان باتوں پر غور کیا تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں اللہ تعالٰی سے اپنی اس برائی کو چھوڑنے کا عہد کیا اور امی سے وعدہ کیا کہ وہ انشاء اللہ اپنے دوستوں سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لے گا اور آئیندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کرئے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
مذاق اڑانا

آپ نے دیکھا ہو گا لوگ کارٹون دیکھ کر ہنستے ہیں۔ کارٹون ہوتے ہی ایسے ہیں۔ کسی کی آنکھ موٹی تو کسی کا پیٹ بڑا اور ان کا عجیب و غریب حلیہ۔ کچھ نادان لوگ یہی چیزیں انسانوں میں دیکھ کر ہنستے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ بے جان تصاویر پر ہنسنا تو محض تفریح ہے مگر اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے انسانوں کے کسی عیب پر ہنسنا تفریح نہیں بلکہ یہ مذاق اڑانا کہلاتا ہے۔ یہ بہت بڑی خرابی اور بداخلاقی ہے۔

اللہ تعالٰی نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ “ يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى اَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْھُمْ (الحجرات-11) اے ایمان والو تم میں سے کوئی گروہ کسی گروہ کا مذاق نہ اڑائے، ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہو۔“

دوسروں کا مذاق اڑانے میں مزا تو بہت آتا ہے مگر اس کے بہت سارے نقصانات ہوتے ہیں۔ دوسروں کے دل دکھتے ہیں جس سے آپ کی محبت ختم ہو کر نفرت اور دشمنی میں بدل جاتی ہے اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ آپ کے میل ملاپ دوریوں میں بدل جاتے ہیں۔ دوسروں کے دل دکھانے کا گناہ علیٰحدہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے۔

مذاق اڑانے والا دراصل خود کو دوسروں سے بہتر اور برتر سمجھ کر دوسرے کی کمی یا خرابی کا مذاق اڑاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کو اللہ تعالٰی ہی نے بنایا ہے۔ کسی کو ایک چیز زیادہ دی ہے تو دوسرے کو اس کے بجائے کوئی اور چیز۔

مثلاً کسی کو خوبصورتی زیادہ دی ہے تو اس میں ذہانت کی کمی ہے اور کسی کو ذہانت زیادہ دی ہے تو اس کے گھر اور اچھے لباس میں کمی کر دی ہے۔ اگر کسی کو اچھا گھر اور اچھا لباس دیا ہے تو اس میں اچھا بولنے اور اچھا لکھنے کی کمی رکھ دی ہے۔ جسمانی اعتبار سے لاغر و کمزور دکھائی دینے والے میں اعلٰی صلاحیتیں رکھ دیں۔ اپنے دوستوں، پڑھائی کے ساتھیوں اور خاندان کے لوگوں میں ہمیں ایسی بےشمار مثالیں نظر آتی ہیں جنہیں دیکھ کر ہم باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی فرد میں کوئی کمی نظر آتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خوبی ہمیں اس وقت نظر نہیں آتی۔ مذاق اڑانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے اور ناراض ہو کر وہ نعمتیں ہم سے واپس لیکر ہمیں اس کمی میں مبتلا کر سکتا ہے جس کمی کا ہم اس کے بندوں کو دیکھ کر مذاق اڑاتے رہے۔

مذاق محض زبان ہی سے نہیں اڑایا جاتا بلکہ کسی کی نقل اتار کر، کسی کی طرف اشارہ کر کے، خواہ یہ آنکھ سے ہو یا ہاتھوں سے، کسی کی صورت یا کام پر ہنس کر، کسی کے جسمانی عیب کی طرف اوروں کو متوجہ کر کے تاکہ سب مزہ لیں اور سب مذاق اڑانے میں شامل ہوں۔

یہ حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے کہ مذاق اڑانے اور مذاق کرنے میں بہت فرق ہے۔ مذاق اڑانے میں دوسرے آدمی کی بے عزتی ہوتی ہے اور وہ اس بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ مذاق اڑانے والے سے اس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی شرافت کی بنا پر اس کو ٹال جائے جبکہ مذاق کرنے سے یہ بُرے اثرات نہیں ہوتے بلکہ ہلکا پھلکا مذاق کرنے والے لوگ باذوق سمجھے جاتے ہیں۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا مذاق نہیں اڑاتے تھے۔ اسکے برعکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی سے مذاق کر لیا کرتے تھے۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی بھی آپس میں ایک دوسرے سے مذاق کر کے مزہ لیا کرتے تھے۔

کچھ لوگوں کے خیال میں مذاق کے طور پر جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ مگر یہ خیال غلط ہے۔ سزا سے بچنے کے لیے جس طرح جھوٹ بولنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح دوسرے کی بےخبری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف مزہ لینے کے لیے جھوٹ بولنا نہایت ناپسندیدہ ہے۔

مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ اس کے دل میں اپنے بھائی کے لیے بہت عزت و احترام ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے بھائی کی بےعزتی نہیں کرتا۔ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے پتہ چلا کہ مسلمان کی جان و مال کی طرح اس کی عزت کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔ مسلمان بداخلاقیوں سے بچتے اور دوسرے مسلمان کی عزت کرتے ہیں جس سے چاروں طرف کا ماحول پرسکون بنتا چلا جاتا ہے۔
 
بہت اچھا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے شمشاد آپ نے۔

کیا خیال ہے اسے وکیپیڈیا پر پوسٹ‌ نہ کیا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے محب بھائی، بالکل کر دیں۔

ویسے یہ میں نے اپنے بچے کے سکول کی پانچویں کلاس کی کتاب سے لکھا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
ہمممم۔۔ ویسے تو آپ صرف نیا صفحہ بنا کر کہیں بھی پوسٹ کر دیں تو منتظمین خود ہی اسے ٹھیک کر لیں گے۔ لیکن چلیں ٹھیک ہے۔ محب خود ہی کر لے گا۔
 

جیسبادی

محفلین
اگر آپ اردو وکیپیڈیا کی بات کر رہے ہیں، تو میری سمجھ کے مطابق ویکپیڈیا encyclopedia کا نعم البدل ہے۔

میرے ذہن میں نہیں آ رہا کہ اس کو کس زمرے میں ڈالا جا سکتا ہے؟
 
Top