زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
فعل امر پہچاننا تو اس بھی مشکل ہے۔:sweat::sweat::sweat:
زبانِ فارسی میں فعلِ امر مشکل کا باعث نہیں بنتا، کیونکہ فارسی میں امر کا کوئی الگ مادہ نہیں ہے، بلکہ مضارع ہی امر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بس اُسی کے شروع میں عموماً 'ب' کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک وڈیو قطعے کےملاحظے کے دوران پتہ چلا کہ فارسی میں بے روزگار اور بےروزگاری کے لیے بے کار اور بےکاری استعمال ہوتا ہے ۔
جب کہ ہم اردو میں بے کار کو غیر مفید کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کہنہ فارسی اور ایرانی فارسی میں 'روزگار' ایام اور زمانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اِس لیے وہاں 'بے روزگار' کی ترکیب استعمال نہیں ہوتی۔ لیکن نیٹ پر جستجو کرنے سے افغانستان میں اِس ترکیب کے اردو والے معنی میں استعمال کی چند مثالیں ضرور ملی ہیں۔ اِس کی یہ وجہ کہی جا سکتی ہے کہ افغانستان کی فارسی پر ہمارے محاوروں کا اثر رہا ہے اور یہ محاورہ بھی یقیناً یہاں سے وہاں گیا ہے۔ البتہ افغانستان میں بھی کم از کم کتابی زبان میں 'بے کار' ہی زیادہ استعمال ہوتا نظر آیا ہے۔

"زبیر شهیدزاده یکی دیگر از باشندگان ولایت هرات، به پژواک گفت: "نه کاری است و نه روزگاری، همه مردم بی‌کارند و بی‌روزگار...."
"جوانان بی‌کار و بی‌روزگار روستاها با انگیزهٔ پول وسوسه می‌شوند..."
.....جوانانی که کسی را نمی‌شناسند، بی‌کار و بی‌روزگار هستند."

....در منطقهٔ ما ده‌ها نفر بی‌کار و بی‌روزگار هستند."

ایک یہ چیز بھی مشاہدے میں آئی کہ افغانستان میں 'بے روزگار' عموماً تنہا نہیں بلکہ 'بے کار و بے روزگار' کی ترکیبِ عطفی میں استعمال ہوتا ہے۔

تاجکستان میں 'بے روزگار' کے استعمال کی کوئی مثال نہیں ملی، اور وہاں بھی 'روزگار' زمانے کے معنی میں مستعمل ہے۔ لیکن تاجک فارسی کی فرہنگ میں ایک 'روزگاردار' لفظ ملا ہے، جس کے یہ معنی درج ہیں:
"وہ شخص جو زن و بچہ و عائلہ رکھتا ہو، صاحبِ اہل و عیال، وہ شخص جو خانوادے کی رزق و روزی کی فراہمی کا ذمہ دار ہو۔"
البتہ، میں نے آج تک یہ لفظ کہیں استعمال ہوتے نہیں دیکھا، لہٰذا اِسے بھی نادرالاستعمال علاقائی لفظ سمجھنا چاہیے۔

لغت نامۂ دہخدا کے مطابق محمد غیاث الدین بن جلال الدین رامپوری نے اپنی فارسی فرہنگ 'غیاث اللغات' (۱۲۴۲ ہجری) میں 'روزگار' کے یہ ضمنی معنی بھی درج کیے ہیں:
"شغل، پیشه و کسب۔"
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برِ صغیری فارسی کا محاورہ ہے۔

لغت نامۂ دہخدا سے یہ بھی معلوم ہوا ہے فارسی میں بھی 'بے کار' فضول و بے فائدہ و بے مقصد و غیر مفید کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اِس استعمال کی ادبی مثالیں دیکھیے:

با سخنِ تو همه سخن‌ها ناقص
با هنرِ تو همه هنرها بی‌کار
(فرخی سیستانی)

به هستیش باید که خستو شوی
ز گفتارِ بی‌کار یکسو شوی
(فردوسی طوسی)

× خَستو = اقرار کنندہ، اعتراف کنندہ

علمِ باکار سودمند بوَد
علمِ بی‌کار پای‌بند بوَد
(سنایی غزنوی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(آج کا لفظ)

فَرجام

آخر، انجام؛ عاقبت؛ نتیجهٔ کار

ور این گفته‌های مرا نشْنوی
به فرجامِ کارت پشیمان شوی
(فردوسی)

به خود می‌گفت: ... فرجامِ کارِ آدمی فناست و مُلک هم پایدار نخواهد بود.
(کلیله و دِمنه)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ دوم، صفحه ۴۲۳]

× علامہ اقبال نے ایک اردو نظم میں یہ لفظ استعمال کیا ہے:
ہو مبارک اُس شہنشاہِ نِکو فرجام کو
جس کی قربانی سے اسرارِ ملوکیّت ہیں فاش
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نَبَرْده
شاہنامۂ فردوسی میں یہ لفظ 'شجاع، دلیر، دلاور، مبارز، نبردکنندہ، بہادر، جنگ آور، جنگجو' کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بعد کے ادوار میں یہ لفظ متروک ہو گیا تھا۔


برائے مثال:
گمانی برم من که او رستم است
که چون او نبرده به گیتی کم است
(فردوسی طوسی)

ترجمہ: میرا گمان ہے کہ وہ رستم ہے؛ کہ اُس جیسے دلیر جنگجو دنیا میں کم ہیں۔
گو کہ اردو کی کلاسیکی اور جدید شاعری میں "نبردہ" کا استعمال کہیں بھی نظر نہیں آیا، لیکن خویشگی صاحب نے فرہنگِ عامرہ (نظرِثانی: 1957) میں "نبردہ" بمعنی دلاور، بہادر، جنگجو کو اردو میں مستعمل قرار دیا ہے۔
مولوی سید تصدق حسین رضوی کی 'لغاتِ کشوری' میں بھی یہ لفظ 'دلاور، بہادر' کے معنی کے ساتھ درج ہے۔
 
ایک دوست سے معلوم ہوا کہ ماوراءالنہری فارسی کے ایک گفتاری لہجے میں "بُود" کو "بَود" کہا جاتا ہے۔یہ غالباََ سمرقندی لہجے میں کہا جاتا ہوگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک دوست سے معلوم ہوا کہ ماوراءالنہری فارسی کے ایک گفتاری لہجے میں "بُود" کو "بَود" کہا جاتا ہے۔یہ غالباََ سمرقندی لہجے میں کہا جاتا ہوگا۔
نہیں، بَود نہیں کہا جاتا، بلکہ سمرقند و بخارا اور شمالی تاجکستان کے بعض گفتاری لہجوں میں ازبکی ترکی سے درآمدہ ایک مصوت استعمال ہوتا ہے جو دہن کے اگلے حصے سے اور لب کو گول کر کے نکلتا ہے۔ اِسے روسی رسم الخط میں ӯ سے لکھا جاتا ہے جبکہ اناطولیائی ترکی کے لاطینی خط میں اِس آواز کے لیے ö استعمال ہوتا ہے۔ اِس مصوت کی آواز کو یہاں سے سنا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(آج کا لفظ)

کَراشیدن

پریشان شدن، آشفتہ شدن

بُتا، تا جدا گشتم از روی تو
کراشیده و تیره شد کارِ من
(آغاجی)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ اول، صفحہ ۵۴۱]

× یہ مصدر اب متروک ہے، اور اِسے میں نے آج پہلی بار کہیں دیکھا ہے۔
× امیر حسن علی بن الیاس آغاجی بخاری سامانی دور کے ایک شاعر تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
میں نے تا ہنوز فارسی میں لفظِ 'حَسین' (زیبا، خوبصورت) کہیں استعمال ہوتے نہیں دیکھا، اور اکثر فارسی فرہنگوں میں بھی یہ لفظ درج نہیں ہے۔ لغت نامۂ دہخدا میں یہ لفظ درج ضرور ہے، لیکن اُس میں بھی اِس کی کوئی مثال نہیں دی گئی۔ ممکن ہے یہ لفظ فارسی میں، خصوصاً برِ صغیری فارسی میں، کبھی استعمال ہوا ہو، لیکن یہ کبھی فارسی میں رائج نہ ہو سکا ہو۔ امّا اردو میں یہ لفظ بہت عام ہے۔
عربی زبان میں بھی یہ لفظ رائج نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتاری فارسی میں زمانۂ مستقبل کے صیغے استعمال نہیں ہوتے، بلکہ حالِ ناتمامِ اخباری (می‌روم، می‌کنم، می‌آیم وغیرہ) ہی مستقبل کا مفہوم بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے. مثلاً:
فردا به تو زنگ می‌زند - وہ تمہیں کل 'کال' کرے گا (زنگ زدن = 'کال' کرنا)
آن پول را فردا به تو می‌دهم - میں وہ پیسے تمہیں کل دوں گا
حدودِ یک ماه در ایران می‌مانیم - ہم تقریباً ایک ماہ ایران میں رُکیں گے
ماخذ
 

حسان خان

لائبریرین
کَفا
سختی، رنج، مَشقّت، تنگی

جهان به عدلِ تو شد آن چنان که ممکن نیست
که بر دلی رسد از جورِ روزگار کفا
(شمسِ فخری)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ اول، صفحه ۵۴۴]


× یہ قدیمی لفظ بھی میں نے آج پہلی بار دیکھا ہے۔
× شعر کا ترجمہ: تمہارے عدل سے جہان ایسا ہو گیا کہ (اب) کسی دل پر زمانے کے ستم سے رنج پہنچنا ممکن نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
گذشتہ زمانوں میں ایران میں ماہِ مبارکِ رمضان میں افطار کے بعد گرم چائے کی اور شاہنامہ کی داستانوں، خصوصاً رستم و سہراب کی پُرسوز و گداز داستان کی نقالی کی بساط سجا کرتی تھی اور نقالوں کی حرارتِ کلام سامعین کی روح کو اِن دو پہلوانوں کی جنگ کے میدان میں کھینچ لے جایا کرتی تھی۔
"نقال" اور "نقالی" کے لئے اردو میں بالترتیب داستان گو/قصّہ گو/ قصّہ خواں اور داستان گوئی/ قصّہ گوئی/ قصّہ خوانی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں؛ اور مذکورہ دونوں الفاظ قدیم اور جدید اردو میں ان معنوں میں نظر نہیں آتے۔ کیا یہ الفاظ جدید فارسی کے ہیں؟ اور کیا کلاسیکی فارسی شاعری میں یہ الفاظ اوپر دیے گئے معنوں میں استعمال ہوئے ہیںِ؟
 
آخری تدوین:
فارسی میں اکثر "سر" کو الفاظ کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔مثلاََ بر سرِ روزگار، من از سرِ این کار نخواہم گذشت وغیرہ۔
کیا اس کے استعمال کا کوئی قاعدہ ہے؟یہ کس قسم کے جملوں یا معنی میں مستعمل ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
"نقال" اور "نقالی" کے لئے اردو میں بالترتیب داستان گو/قصّہ گو/ قصّہ خواں اور داستان گوئی/ قصّہ گوئی/ قصّہ خوانی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں؛ اور مذکورہ دونوں الفاظ قدیم اور جدید اردو میں ان معنوں میں نظر نہیں آتے۔ کیا یہ الفاظ جدید فارسی کے ہیں؟ اور کیا کلاسیکی فارسی شاعری میں یہ الفاظ اوپر دیے گئے معنوں میں استعمال ہوئے ہیںِ؟
قدیم فارسی کا تو میں درستی سے نہیں کہہ سکتا، البتہ ظواہر یہی بیان کرتے ہیں کہ قدیم فارسی میں یہ الفاظ اِن معنوں میں استعمال نہیں ہوتے تھے، امّا معاصر ایرانی فارسی میں 'نقّال' اور 'نقّالی' کے بنیادی معانی بالترتیب 'قصہ گو' اور قصہ گوئی' ہی ہیں۔
ماوراءالنہری فارسی میں مجھے اِن کے استعمال کی محکم مثالیں نہیں ملیں، اور ماوراءالنہری فارسی کی فرہنگوں میں بھی یہ الفاظ ثبت نہیں ہیں، لہٰذا یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ الفاظ وہاں رائج نہیں ہیں۔ اور جن چند ایک تاجک نویسندوں اور صحافیوں نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں اُنہوں نے ایرانی فارسی کے زیرِ اثر ایسا کیا ہے۔
افغانستان کی فارسی میں بھی محتملاً یہ الفاظ اِن معنوں میں رائج نہیں ہیں۔ افغان صحافتی فارسی میں لفظِ 'نقّال' کے استعمال کی ایک مثال دیکھیے:

"آیا آنها نمی‌دانستند که این فرد یک نقال و جعلکار است۔۔۔۔"


پس نوشت: قدیم فارسی میں لفظِ 'نقّال' کے استعمال کی ایک مثال ملی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہ لفظ 'نقل (روایت) کرنے والا' یا 'ناقل' کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔
۔۔۔شیخ ابوعبدالرّحمان محمد بن حسین السُّلمی رضی اللّه عنه که نقالِ طریقت و کلامِ مشایخ بوده‌است۔۔۔
(کشف‌المحجوب، ابوالحسن علی ابن عثمان الجُلّابی الهُجویری الغزنوی)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں اکثر "سر" کو الفاظ کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔مثلاََ بر سرِ روزگار، من از سرِ این کار نخواہم گذشت وغیرہ۔
کیا اس کے استعمال کا کوئی قاعدہ ہے؟یہ کس قسم کے جملوں یا معنی میں مستعمل ہے؟
اِس طرح کی تراکیب میں 'سر' کے معانی 'بالا، بر، نوک، آغاز، کنار، گوشہ، سِرا، طرف' وغیرہ ہیں۔ یہ کثیرالمعانی لفظ ہے اور تراکیب میں محاورے اور سیاق و سباق کے لحاظ سے یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اِس لفظ کا درست استعمال سیکھنے کا طریقہ اہلِ زبان کے ایسے استعمالات اور محاورات کی یادگیری اور پیروی ہے۔
لغت نامۂ دہخدا میں اِس کے مختلف استعمالات اور اُن کی چند مثالیں درج ہیں۔
فرہنگِ بزرگِ سخن کی جلدِ پنجم کے صفحہ ۴۰۸۱ اور اُس کے بعد کے کئی صفحوں پر اِس لفظ کے مختلف مفاہیم، اِس سے ترکیب پانے والے محاورے اور اُن کی مثالیں تفصیل سے پیش کی گئی ہیں۔ اِس کی جانب رجوع کرنا بھی مفید ثابت ہو گا۔

از سرِ چیزی گذشتن = کسی چیز پر سے گذرنا یعنی کسی چیز کو ترک کرنا

پس نوشت: زبانوں میں حروفِ جر کے استعمال کا عموماً کوئی قطعی قاعدہ نہیں ہوتا، بلکہ اُن کے درست استعمال کو اہلِ زبان کی پیروی ہی سے سیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اردو میں 'سے' زیادہ تر کسی چیز کی جانب سے حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے 'وہ گھر سے آیا' یعنی یہاں گھر کی جانب سے حرکت کا اظہار اِس حرفِ جر کی مدد سے کیا گیا ہے۔ لیکن یہی حرف 'کسی چیز کی جانب سے' کی بجائے 'کسی چیز کی جانب' کے معکوس معنی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اردو میں اِس طرح کے جملے استعمال ہوتے ہیں: 'میں نے احمد سے کہا'۔ یہاں 'سے' فعل کی احمد کی جانب سے حرکت کو نہیں بلکہ احمد کی طرف مفعولی حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اِس طرح اِسی لفظ کے چند دیگر معانی ایسے بھی ہیں جو کسی غیر اردو زبان شخص کے لیے مشکل کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر کوئی غیر اردو زبان فرد اِس حرفِ جر کا درست استعمال سیکھنا چاہے تو اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اہلِ زبان مردم کو دیکھے کہ وہ اِس لفظ کا استعمال کن کن معنوں میں اور کس طرح کرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی نے ایک سوال پوچھا تھا:
سراسر غمزہ ہایت لاجوردی بود و من عمری
بہ معشوقی پرستیدم بلائے آسمانی را

اس شعر کا ترجمہ صوفی تبسم نے یوں کیا

تیرے ناز و ادا سراپا آفت تھے. اس لیے میں عمر بھر آسمان پر نازل ہونے والی بلا کو ایسے پوجتا رہا جیسے کوئی معشوق ہو.

بہ حرف تشبیہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے؟
اگر مرزا غالب کا مقصود واقعاً وہی تھا جو صوفی تبسم صاحب نے بیان فرمایا ہے تو میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے 'به' کا یہ استعمال پہلے نہیں دیکھا، یا اگر دیکھا بھی تھا تو توجہ نہیں دی۔ لغت نامۂ دہخدا سے تو مجھے زیادہ مدد نہیں ملی، البتہ ماوراءالنہری فارسی کی لغت 'فرہنگِ تفسیریِ زبانِ تاجیکی' میں 'به' کے مندرجۂ ذیل تین معانی نظر آئے ہیں، جن سے غالب کے اِس استعمال اور صوفی تبسم کی اِس تفسیر کی درستی کی تائید ہوتی ہے:

"۶. به درجهٔ...، به حالتِ...، تا حدِّ...؛ کُرته‌اش به دریدن رسیده‌است.
۷. در ترکیبِ پیوندک‌های ترکیبیِ تابع‌کنندهٔ مقدار و درجه، طرزِ عمل و خلافی می‌آید: به اندازهٔ که...، به حدّی که...، به قدری که...، به جای آن که...؛ به طرزِ... // به طریقِ... // به طورِِ...، همچون، چون.
۸. موافقِ... مطابقِ...؛ برابرِ...، مثلِ...، مانندِ..."


یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 'به معشوقی' در اصل 'به طورِ معشوقی' ہے، لیکن قرینۂ معنوی اور عروضی مجبوری کی بنا پر 'طورِ' مصرعے میں محذوف ہے۔


'به' فارسی کا سب سے زیادہ پیچیدہ حرفِ جر ہے۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اِس موردِ ذکر شعر کی تشریح یوں بیان کی ہے:
سراسر غمزه‌هایت لاجوردی بود و من عمری
به معشوقی پرستیدم بلای آسمانی را

لاجوردی = نیلگوں
چونکہ چرخِ لاجورد کی گردش کے ساتھ ہر طرح کی آفتوں کو منسوب کیا جاتا ہے اور اُن کا انداز ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے، اس لیے شاعر نے معشوق کے ناز و ادا کو لاجوردی کہا۔ کہتا ہے کہ تیرے ناز و انداز سرتاپا آفت تھے۔ اسی لیے میں عمر بھر آسمان سے ہر نازل ہونے والی بلا کو اس طرح پوجتا رہا جیسے کوئی معشوق ہو۔


ویسے کیا آپ کو یہ کتاب دستیاب ہو گئی ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کَئِیب (عربی)
اندوهگین، غمگین، شکسته‌دل

آن ابر بین، که گرید چون مردِ سوگوار
وان رعد بین، که نالد چون عاشقِ کئیب
(رودکی)

[فرهنگِ زبانِ تاجیکی (۱۹۶۹ء)، جلدِ اول، صفحه ۵۲۷]


× یہ لفظ میں نے امروز اولین بار دیکھا ہے اور معاصر فارسی میں یہ غیر مستعمل ہے۔
× فرہنگِ مذکور میں اِس لفظ کا املاء غلطی سے 'کئب' درج ہے۔
 
آخری تدوین:
Top