سلطان محمودِ غزنوی
کی افواج کا حملہ
گیارھویں صدی کے آغاز میں جب سلطان محمود غزنوی نے افغانوں کی لشکر کی مدد سے ہندوستان پر حملے شروع کئے تو افغانوں کے لشکر کے سردار پیر خوشحال نے سوات کے غیر مسلم بادشاہ گیرا کو شکست فاش دی اور سوات میں اسلام کی ابدی روشنی پھیلائی۔اس جنگ میں پیر خوشحال خود بھی شہید ہوئے جن کا مزار سوات کے مشہور تاریخی گاؤں اوڈی گرام میں آج بھی مرجعِ خلائقِ عام ہے۔
خاندانِ مغلیہ کے الغ بیگ کو یوسف زئیوں کی مدد واعانت سے تختِ افغانستان نصیب ہوا تھا لیکن بعد میں جب اس کی نیت میں فتور آیا تو اس نے یوسف زئی اور دوسرے افغان قبیلہ گیگیانیوں میں اختلاف پیدا کردیا اور خود گیگیانیوں کا حمایتی بن کر مقابلہ پر اُتر آیا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکا تو یوسفزئیوں سے ایک سازش کے تحت صلح کرلی اور یوسفزئی سرداروں کو ایک دعوت میں بلا کر قتل کردیا گیا۔ ان حالات میں قبیلہ کے ایک نوجوان ملک احمد خان نے قیادت سنبھالی اور پندرھویں صدی عیسوی کے اوّل نصف میں افغانستان سے پشاور ہجرت کی۔ دلہ زاکوں سے پشاورمیں رہائش کی درخواست کی تو انہوں نے یوسفزئیوں کو دوآبہ (پشاور) میں مقیم کردیا۔ بعد ازاں یوسفزئیوں نے مردان، دیر، باجوڑ اور سوات میں سکونت اختیار کرلی۔ یوسفزئیوں نے سوات کا علاقہ ’’سلطان اویس‘‘ سے بزور شمشیر قبضہ کیا تھا۔
سوات کے قدیم باشندے جو سواتی پٹھان کہلاتے تھے، سوات سے کوچ کرتے ہوئے ضلع ہزارہ* میںبس گئے تھے جو اب بھی وہاں آباد ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سلطان محمود غوری کے دورِ حکومت میں یہاں آباد ہوئے تھے۔
مغل بادشاہ بابر کی پیش قدمی
1516ء میں مغل بادشاہ بابر جب افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو راستہ میں کئی قبائل مزاحم نظر آئے۔ وہ جب خیبر پہنچا تو اسے اس کے اندازوں کے برعکس ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو جواں مردی اور بہادری میں اپنے علاقہ کے تحفظ کے لئے سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ تھے۔ انہوں نے بابر کواپنے علاقوں سے گزرنے کی اجازت نہ دی اور سدِّ راہ بنے رہے۔
بابر جیسا حکمران بھی سرتسلیم خم کرنے والا نہ تھا، اس نے وقتی طور پر ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کیا اور پہلے قبائلیوں سے دو دو ہاتھ کرلینے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں پہلے پہل اس کی نظر یوسف زئیوں پرپڑی۔ لیکن وہ یوسفزئیوں کو مکمل طور پر زیر نہ کرسکا۔ چنانچہ یوسفزئیوں کے سردار شاہ منصور کی بیٹی بی بی مبارکہ سے شادی کے بعد یوسفزئیوں اوربابر کے درمیان مفاہمت ہوئی اور یوسفزئی قبیلہ کے بہت سے جنگ جو بابر کے لشکر میں شامل ہوئے ۔
اس طرح بابر یہاں سے ہوتا ہوا ہندوستان فتح کرنے میں کامیاب ہوا۔
بابر کے مرنے کے بعد بادشاہ ہمایوں نے سوات کوبزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔
تحریکِ روشنائی
شاہ منصور کے انتقال کے بعد بایزید انصاری پیر روشن نے وزیر ستان ، تیراہ، پشاور،دیر،بونیر اور سوات میں مذہبی رنگ میں اقتدار حاصل کیا۔ اس نے اپنے مریدوں کا باقاعدہ لشکر بنایا۔ لشکر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے بیت المال بنایا ۔ اپنے مریدوں سے باقاعدہ عشر و زکواۃ وغیرہ
لے کر اس بیت المال میں جمع کرتا تھا۔ اس نے پشتو زبان
میں ’’خیرالبیان‘‘ نامی کتاب لکھی جس میں زیادہ تر اس کے عقائد تھے۔
ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر اعظم نے جب نیا مشرب دینِ الٰہی کے نام سے بنایا توبایزید انصاری (پیر روشن) نے اکبر کے خلاف پراپیگنڈہ مہم شروع کی۔ بایزید کی زندگی میں سیدعلی ترمذی عرف’’پیر بابا‘‘ بونیر آئے اور ’’پاچا کلی‘‘ میں مقیم ہوکر حق و صداقت کی روشنی پھیلانے لگے۔ ہزاروں کی تعداد میں اس خطہ کے باشندوں نے انہیں اپنا مُرشد بنایا۔ ان کے مریدوں میں اخون درویزہ بابا کا نام قابلِ ذکر ہے۔ بایزید انصاری (پیر روشن) اور اخون درویزہ بابا کے درمیان مذہبی اختلافات رونماہوئے۔ دونوں کے درمیان مذہبی مناظرے ہوئے اور اخون درویزہ نے بایزید پیر روشن اور اس کے مریدوں پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ پیر روشن کو پیرِ تاریکی کا لقب دیا اور اخون درویزہ کے مرید پیرِ روشن کو پیرِ تاریک کہنے لگے۔جب کہ بایزید انصاری کے پیروکار بایزید کو پیر روشن کے نام سے پکارنے لگے۔
حاشیہ
* سواتیوں کی اکثریت مانسہرہ کے قرب و جوار بفہ، بجنہ اور ٹانڈہ و شنکیاری میں آباد ہے۔